اعتراض: آپ فرماتے ہیں کہ ’’اگر سُنّت کے متن میں اس قدر اختلافات ہیں تو قرآن کی تعبیر میں بھی تو بے شمار اختلافات ہو سکتے ہیں اور ہوئے ہیں۔ اگر قرآن کی تعبیر میں اختلافات اسے آئین کی بنیاد قرار دینے میں مانع نہیں تو سُنّت کے متن کا اختلاف اس امر میں کیسے مانع ہو سکتا ہے۔‘‘ آپ کی یہ دلیل بعینہٖ اسی طرح ہے جس طرح جب مرزائی حضرات سے کہا جائے کہ مرزا صاحب کے کردار میں فلاں نقص پایا جاتا ہے تو وہ کہہ دیا کرتے ہیں کہ (معاذ اللّٰہ، معاذ اللّٰہ) رسول اللّٰہﷺ کی فلاں بات بھی ایسی نہیں تھی؟
جواب: یہ تشبیہ بنیادی طور پر غلط ہے اس لیے کہ جھوٹے نبی اور سچے نبی میں درحقیت کوئی مشابہت نہیں ہے۔ سچے نبی اور اس کی لائی ہوئی کتاب کے درمیان جو ربط وتعلق ہوتا ہے وہ نہ جھوٹے نبی اور سچے نبی کے درمیان ہو سکتا ہے اور نہ اس کے اور کتاب اللّٰہ کے درمیان۔
ڈاکٹر صاحب کی یہ تشبیہ دراصل خود اُن پر اور اُن کے گروہ پر صادق آتی ہے جس طرح مرزائی حضرات ایک جعلی نبی کی نبوت ثابت کرنے کے لیے رسول اللّٰہ ﷺ کو درمیان میں لاتے ہیں، اسی طرح منکرین حدیث رسولﷺ کی سُنّت اور کتاب اللّٰہ کا تعلق کاٹ پھینکنے کے لیے کتاب اللّٰہ کو استعمال کرتے ہیں جس طرح مرزائیوں نے تمام امت کے متفقہ عقیدۂ ختم نبوت کے خلاف ایک نئی نبوت کا فتنہ کھڑا کیا، اسی طرح منکرینِ حدیث نے سُنّت کی آئینی حیثیت کو چیلنج کرکے ایک دوسرا فتنہ کھڑا کر دیا۔ حالانکہ خلفائے راشدین کے عہد سے آج تک تمام دُنیا کے مسلمان ہر زمانے میں اس بات پر متفق رہے ہیں کہ قرآن کے بعد سُنّت دوسرا مآخذِ قانون ہے، حتّٰی کہ غیر مسلم ماہرین قانون بھی بالاتفاق اس کو تسلیم کرتے ہیں، جس طرح مرزائی ختم نبوت کی غلط تاویل کرکے ایک نیا نبی سامنے لے آتے ہیں، اسی طرح منکرین حدیث اتباع سُنّت کی غلط تعبیر کرکے یہ راستہ نکالتے ہیں کہ رسول اللّٰہ ﷺ کی ساری ہدایات وتعلیمات کا دفتر لپیٹ کر رکھ دیا جائے اور کسی ’’مرکزِ ملت‘‘ کو ہر زمانے میں امت کے درمیان وہی حیثیت حاصل ہوتی رہے جو رسول اللّٰہ ﷺ کو حاصل تھی۔ مرزائی اپنے نبی کی نبوت کا راستہ صاف کرنے کے لیے ذاتِ رسول اللّٰہﷺ میں نقص نکالتے ہیں اور منکرین حدیث اپنے مرکزِ ملت کے لیے راستہ بنانے کی خاطر سُنّت رسولﷺ کی عیب چینی کرتے ہیں۔
رہا وہ اعتراض جو میرے استدلال پر ڈاکٹر صاحب نے کیا ہے، تو و ہ درحقیقت بالکل بے بنیاد ہے، میرا استدلال یہ نہیں ہے کہ آپ سُنّت میں جو عیب نکال رہے ہیں وہ قرآن میں بھی موجود ہے، بلکہ اس کے برعکس میرا استدلال یہ ہے کہ تعبیر و تحقیق کے اختلافات کی گنجائش ہونا سرے سے کسی آئین وقانون کے لیے عیب ونقص ہی نہیں ہے۔ لہٰذا اس گنجائش کی بِنا پر نہ قرآن کو اساسِ قانون بنانے سے انکار کیا جا سکتا ہے نہ سُنّت کو۔