وخاتم النبیین‘قراء عاصم بفتح التاء وھوآلۃ الختم بمعنی مایختم بہ کا لطابع بمعنی مایطبع بہ والمعنی وکان اخرھم الذی ختموابہ وبالفا ر سیۃ مہرپیغمبراں‘یعنی بدومہرکردہ شددرنبوت وپیغمبراں رابدو ختم کردہ اند‘وقراالباقون بکسرالتاء ای کان خاتمھم ای فاعل الختم بالفارسیہ مہرکنندہ پیغمبراںاست وھوبالمعنی الاول…فکانت علماء امۃ ورثۃ علیہ السلام من جھۃ الولایۃ وانقطع ارث النبوۃ بختمیۃ ولایقدح فی کونہ خاتم النبیین نزول عیسیٰ بعدہ لان معنی کونہ خاتم النبیین انہ لاینباء بعدہ احد کما قال لعلی انت منی بمنزلہ ہارون من موسیٰ الا انہ ’’لانبی بعدی‘‘ وعیسیٰ ممن تنباقبلہ وحین ینزل انما ینزل علی شریعۃ محمد علیہ السلام مصلیا الیٰ قبلتہ کانہ بعض امتہ فلایکون الیہ وحی ولا نصب احکام بل یکون خلیفۃ رسول اللّٰہ (جلد۲۲،صفحہ ۱۸۸)
وخاتم النبیین ،عاصم نے اس کو’’ت‘‘ کی فتح کے ساتھ پڑھاہے جس کے معنی ہیں آلہ ختم کے جس سے مہر کی جاتی ہے جیسے طابع اس چیز کو کہتے ہیں جس سے ٹھپہ لگایا جائے، مراد یہ ہے کہ نبیﷺ انبیا میں سب سے آخر تھے جن سے نبیوں پر مہر لگائی گئی ۔ فارسی میں اسے ’’مہر پیغمبراں ‘‘ کہیں گے، یعنی آپﷺ سے نبوت کے دروازے پر مہرلگادی گئی اور پیغمبروں کا سلسلہ ختم کر دیا گیا۔ باقی قاریوں نے اس لفظ کو’’ ت‘‘ کی کسر کے ساتھ پڑھا ہے یعنی آپ خاتم بمعنی فاعل ختم تھے۔ فارسی میں اس کو ’’مہر کنندہ ٔ پیغمبراں ‘‘کہیں گے۔ اس طرح یہ لفظ بھی خاتم ہی کا ہم معنی ہے …پس آپ کی اُمت کے علما ولایت کے اعتبار سے آپﷺ کے وارث ہیں۔ اور آپ کی غنیمت سے نبوت کی میراث منقطع ہوچکی ہے۔ اور آپﷺ کے بعد عیسیٰ (علیہ السلام ) کانزول آپﷺ کے خاتم النبیین ہونے میں قادح نہیں ہے ، کیونکہ آپ کے خاتم النبیین ہونے کے معنی یہ ہیں کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہ بنایاجائے گا جیساکہ آپ نے حضرت علی ؓ سے فرمایا ’’تم میرے ساتھ وہی نسبت رکھتے ہو جو ہارون ؑ کی موسیٰ ؑکے ساتھ تھی مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔ ‘‘ اور عیسیٰ ؑان لوگوں میں سے تھے جو آنحضرت ﷺ سے پہلے نبی ہوئے تھے ۔ اور جب وہ نازل ہوں گے تو شریعت محمد علیہ السلام پر نازل ہوں گے اور آپ کے قبلے کی طرف نمازپڑھیں گے، گویا کہ وہ آپﷺ کی اُمت کے افراد میں سے ہیں پس ان کی طرف نہ وحی ہوگی نہ وہ نئے احکام قائم کریں گے، بلکہ رسول اللہﷺ کے خلیفہ ہوں گے۔