’’تاریخی طور پر اسلام کے اندر سے اٹھنے والا ہر وہ مذہبی گروہ جس کی بنیاد ایک نئی نبوت کے دعوے پر رکھی گئی ہو اور جو اس نبوت کے نام نہاد الہامات پر ایمان نہ لانے والے تمام مسلمانوں کو کھلم کھلا کافر قرار دیتاہو ،ہر مسلمان کی نظر میں اسلام کی سالمیت کے لیے ایک زبردست خطرہ سمجھاجاتاہے …اور ایسا لازماً ہوناہی چاہیے۔ اس لیے کہ مسلم معاشرہ کا اتحاد و سالمیت صرف ایک ہی عقیدے ، ختم نبوت سے محفوظ ہے۔‘‘ (ص ۹۴)
’’پس جدید عمرانیات کا ایک طالب علم اس شدت جذبات کو جس کامظاہرہ ہندی مسلمانوں نے قادیانی تحریک کی مخالفت میں کیاہے بخوبی سمجھ سکتاہے۔ ایک عام مسلمان کی طرف سے ، جس پر پچھلے دن سول اینڈ ملٹری گزٹ میں ایک صاحب نے ’’ملازدہ‘‘کی پھبتی کسی ہے ، قادیانی تحریک کی مخالفت میں اتنا دخل عقیدہ ختم نبوت کے مختلف پہلوئوں کے تفصیلی ادراک کو نہیںجتناکہ تحفظ کے احساس کو ہے ، ہمارے ’’نام نہاد،روشن خیال ‘‘ مسلمان نے عقیدہ ختم نبوت کی حقیقی تہذیبی اہمیت کو سمجھنے کی کبھی کوشش نہیں کی۔ اس پر مستزادیہ کہ مغرب زدگی کے خاموش اور غیر محسوس عمل نے انہیں تحفظ ذات کے احساس سے محروم کردیا ہے۔ یہاں تک کہ ان روشن خیال حضرات میں سے بعض حضرات تو اب اپنے ہم مذہبوں کو روا داری کا درس بھی دینے لگے ہیں۔ گورنر پنجاب سرہربرٹ ایمرسن اگرمسلمانوں کو رواداری کی تلقین کریں تو میں انہیں معذور سمجھ سکتاہوں، کیونکہ ایک جدید یورپین جس نے بالکل مختلف تہذیبی ماحول میں آنکھ کھولی ہو اور نشوونما پائی ہو، نہ وہ بصیرت رکھتاہے اور نہ لا سکتا ہے جس کے ذریعے سے وہ ایک ایسے اہم مسئلہ کے مضمرات سمجھ سکے جو اس کی اپنی قوم سے بالکل مختلف ، تمدنی نظریات رکھنے والی ایک دوسری قوم کے نظام میں بنیادی اہمیت رکھتاہو۔ ‘‘ (ص ۹۶)
’’حکومت کو موجودہ صورت حالات پر پوری سنجیدگی کے ساتھ غور کرنا چاہیے اور اگر ممکن ہو تو اس مسئلہ پر جسے ایک عام مسلمان اپنی ملت کی سالمیت کے لیے انتہائی اہم سمجھتا ہے عوام کے جذبات کو سمجھنے کی کوشش کرناچاہیے۔ کیونکہ اگر کسی ملت کی سالمیت ہی کو خطرہ پیش ہوجائے تو اس کے لیے انتشار پیداکرنے والی قوتوں کے مقابلے میں اپنی مدافعت کرنا ہی آخری چارۂ کار رہ جاتاہے۔
اب سوال پیداہوتاہے کہ اس مدافعت کے لیے کون سے ذرائع مؤثر ہیں؟ ظاہر ہے کہ یہ طریقہ یہی ہوسکتاہے کہ سواد اعظم جس شخص کو ایک مذہبی طالع آزما سمجھتاہو، اس کے دعاوی کی تردید قلم وزبان کے ذریعہ سے کی جائے۔ اس صورت میں کیایہ مناسب ہوگا کہ سواد اعظم کو جس کی یک جہتی اور سالمیت خطرہ میں ہو،رواداری کی تلقین کی جائے اور اس باغی گروہ کو اپنے پراپیگنڈے کی کھلی چھٹی دے دی جائے۔ خصوصاً اس حالت میں بھی جب کہ یہ پروپیگنڈا انتہائی دشنام طراز ی سے پر ہو۔ اگر کوئی گروہ جو سواد اعظم کے نقطۂ نظر سے باغی ہو، حکومت کے لیے کسی خاص افادیت کا حامل ہو ، تو حکومت اس کو اس کی خدمات کابہترین معاوضہ دینے میں آزاد ہے۔ دوسرے فرقے اس پر خفا نہیں ہوں گے ۔ لیکن یہ توقع کرنا زیادتی ہو گی کہ کوئی قوم ان قوتوں کو خاموشی کے ساتھ نظر انداز کردے جواس کی اجتماعی زندگی پر گہرا اثر ڈالنے والی ہوں۔ انفرادی زندگی کی مانند اجتماعی زندگی بھی انتشار کے خطرے سے بڑی جلد متاثر ہوتی ہے۔ اس ضمن میں یہ بیان کرنے کی حاجت نہیں کہ مسلمان فرقوں کی باہمی علمی آویزشیں ان بنیادی اصولوں کو متاثر نہیں کرتیں جن پر یہ تمام فرقے اپنے باہمی اختلافات بلکہ ایک دوسرے کی تکفیر کے باوجود متفق ہیں۔
ایک اور بات بھی حکومت کی خاص توجہ کی متقاضی ہے اور وہ یہ کہ وسعت نظری کے جدید فلسفہ کی بنیادپر ہندوستان میں مذہبی طالع آزمائوں کی حوصلہ افزائی لوگوں کو مذہب کی طرف سے دن بدن زیادہ بیگانہ کررہی ہے اور آخرکار اس کا نتیجہ یہ ہوگاکہ ہندی قوموں کی زندگی سے مذہب جیسا اہم عنصر بالکل خارج ہوجائے گا۔ پھر ہندوستانی ذہن مذہب کا کوئی دوسرا بدل تلاش کرے گا اور اغلب یہ ہے کہ یہ بدل اس ملحدانہ مادیت سے مختلف نہ ہوگا جو روس میں ظاہر ہوئی ہے۔ (ص ۹۸)
میرے نزدیک ہندوستان کے حکمرانوں کے لیے بہترین راستہ یہ ہے کہ وہ قادیانیوں کو مسلمانوں سے الگ قوم قرار دے دیں ۔ یہ چیز قادیانیوں کی اپنی روش کے بھی عین مطابق ہوگی اور ہندوستانی مسلمان بھی ان کو اسی طرح برداشت کرلیں گے۔ جس طرح وہ دوسرے مذاہب کو برداشت کررہے ہیں۔ (ص ۱۰۰)