اعتراض:’’آپ نے خط وکتابت کی ابتدا میں مجھے بزم طلوع اِسلام کا نمایاں فرد قرار دیا تھا۔ اس پر میں نے آپ کو لکھا تھا کہ میں بزم طلوع اِسلام کا اہم فرد تو درکنار اس کا ابتدائی یا معمولی رکن تک نہیں اور تاکیدًا لکھا تھا کہ آپ اس وضاحت کو شائع کریں۔ آپ نے اسے شائع نہ کیا، بلکہ شائع شدہ خط وکتابت میں اس کا اشارہ تک نہ کیا، حالانکہ دیانت کا تقاضا تھا کہ آپ اپنی غلطی کا اعتراف کرتے اور معذرت چاہتے۔
جواب:ڈاکٹر صاحب کی اس شکایت کا جواب خود طلوع اِسلام کے صفحات میں کسی اور کی زبانی نہیں بلکہ جناب پرویز صاحب کی زبان سے سننا زیادہ بہتر ہو گا۔ ۸،۹،۱۰/ اپریل ۱۹۶۰ء کو لاہور میں طلوع اِسلام کنونشن کی چوتھی سالانہ کانفرنس ہوئی تھی۔ اس میں ڈاکٹر عبدالودود صاحب کی تقریر سے پہلے پرویز صاحب نے ان کا تعارف کراتے ہوئے فرمایا:
ڈاکٹر صاحب کی رفاقت ہمارے لیے باعث فخر ہے…… اور ان کا سب سے بڑا احسان ہم پر یہ ہے کہ یہ میرے درسِ قرآن اور تاریخی کلاس کے ہر لیکچر کا ایک ایک حرف ضبطِ تحریر میں لے آئے ہیں۔ یہ کام بڑی صبر آزما مشقت کا طالب تھا جسے یہ اس حُسنِ مسرت سے سرانجام دے رہے ہیں۔ (طلوع اِسلام، مئی، جون ۱۹۶۰ء، ص ۲۵)
اب اگر ڈاکٹر صاحب یہ فرماتے ہیں کہ بزم طلوع اِسلام کا ابتدائی رکن بھی نہیں ہوں تو یہ ایسی ہی بات ہے جیسے گاندھی جی فرماتے تھے کہ میں کانگرس کا چار آنے والا ممبر بھی نہیں ہوں۔ ہر شخص جو طلوع اِسلام کی تبلیغ سے واقف ہے، اس مراسلت کو پڑھ کر خود ہی دیکھ سکتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کی زبان سے طلوع اِسلام ہی بول رہا ہے یا کوئی اور۔