پہلے سوال کا جواب قرآن مجید میں جو کچھ دیا گیا ہے وہ یہ ہے:
ہُوَالَّذِيْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰي وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْہِرَہٗ عَلَي الدِّيْنِ كُلِّہٖ۰ۙ وَلَوْ كَرِہَ الْمُشْرِكُوْنَo التوبہ 33:9
وہی ہے (یعنی اﷲ)جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا‘ تاکہ اس کو پوری جنسِ دین پر غالب کر دے خواہ یہ کام مشرکوں کو کتنا ہی ناگوار ہو۔
اس آیت میں اَلْھُدٰی (ہدایت) سے مراد دنیا میں زندگی بسر کرنے کا صحیح طریقہ ہے۔انفرادی برتائو‘ خاندانی نظام‘ سوسائٹی کی ترکیب‘ معاشی معاملات‘ ملکی انتظام‘ سیاسی حکمت عملی‘ بین الاقوامی تعلقات‘ غرض زندگی کے تمام پہلوئوں میں انسانی زندگی کے لیے صحیح روّیہ کیا ہونا چاہئے‘ یہ چیز اﷲ نے اپنے رسول کو بتا کر بھیجا ہے۔
دوسری چیز جو اﷲ کا رسول لے کر آیا ہے وہ دینِ حق ہے۔ دین کے معنی اطاعت کے ہیں۔ کیش اور مذہب کے لیے جو دین کا لفظ استعمال ہوتا ہے‘ یہ اس کا اصل مفہوم نہیں ہے‘ بلکہ اس کو دین اس وجہ سے کہتے ہیں‘ کہ اس میں بھی انسان خیال وعمل کے ایک خاص سسٹم کی اطاعت کرتا ہے۔ دراصل ’’دین‘‘ کا لفظ قریب قریب وہی معنی رکھتا ہے‘ جو زمانۂ حال میں ’’اسٹیٹ‘‘ کے معنی ہیں۔ لوگوں کا کسی بالا تر اقتدار کو تسلیم کر کے اس کی اطاعت کرنا‘ یہ ’’اسٹیٹ‘‘ ہے۔ یہی ’’دین‘‘ کا مفہوم بھی ہے۔ اور ’’دینِ حق‘‘ یہ ہے‘ کہ انسان دوسرے انسانوں کی خود اپنے نفس کی اور تمام مخلوقات کی بندگی واطاعت چھوڑ کر‘ صرف اﷲ کے اقتدار اعلیٰ کو تسلیم کرے‘ اور اسی کی بندگی واطاعت اختیار کرے۔ پس درحقیقت اﷲ کا رسولa اپنے بھیجنے والے کی طرف سے ایک ایسے ’’اسٹیٹ‘‘ کا نظام لے کر آیا ہے‘ جس میں نہ تو انسان کی خود اختیاری کے لیے کوئی جگہ ہے‘ نہ انسان پر انسان کی حاکمیت کے لیے کوئی مقام‘ بلکہ حاکمیت اور اقتدارِ اعلیٰ جو کچھ بھی ہے صرف اﷲ کے لیے ہے۔{ FR 2516 }
پھررسول کے بھیجنے کا مقصد یہ بتایا گیا ہے‘ کہ وہ اس نظامِ اطاعت (دین)اور قانونِ حیات (الہدی)کو پوری جنسِ دین پر غالب کر دے۔ پوری جنسِ دین سے کیا مراد ہے؟دنیا میں انسان انفرادی یا اجتماعی طور پر جن جن صورتوں سے کسی کی اطاعت کر رہا ہے‘ وہ سب’’جنسِ دین‘‘کی مختلف انواع ہیں۔ بیٹے کا والدین کی اطاعت کرنا‘ بیوی کا شوہر کی اطاعت کرنا‘ نوکر کا آقا کی اطاعت کرنا‘ ماتحت کا افسر کی اطاعت کرنا‘ رعیت کا حکومت کی اطاعت کرنا‘ پیروئوں کا پیشوائوں اور لیڈروں کی اطاعت کرنا‘ یہ اور ایسی ہی بے شمار اطاعتیں بحیثیت مجموعی ایک نظامِ اطاعت بناتی ہیں‘ اور اﷲ کی طرف سے رسول کے آنے کا مقصد یہ ہے‘ کہ یہ پورا نظامِ اطاعت اپنے تمام اجزا سمیت ایک بڑی اطاعت اور ایک بڑے قانون کے ماتحت ہوجائے‘ تمام اطاعتیں اﷲ کی اطاعت کے تابع ہوں‘ ان سب کو مُنْضَبِطْ(regulate)کرنے والا ایک اﷲ ہی کا قانون ہو‘ اور اس بڑی اطاعت اور اس ضابطہ قانون کی حدود سے باہر کوئی اطاعت باقی نہ رہے۔
یہ رسول کا مشن ہے‘ اور رسول اس مشن کو پورا کرنے پر مامور ہے خواہ شرک کرنے والے اس پر کتنی ہی ناک بھوں چڑھائیں۔ شرک کرنے والے کون ہیں؟ وہ سب لوگ جو اپنی انفرادی واجتماعی زندگی میں اﷲ کی اطاعت کے ساتھ دوسری مستقل بالذّات (یعنی خدا کی اطاعت سے آزاد) اطاعتیں شریک کرتے ہیں۔ جہاں تک اﷲ کے قانون طبیعی(law of nature)کا تعلق ہے‘ ہر انسان طوعاً وکرہاً اس کی اطاعت کر رہا ہے‘ کیونکہ اس کے بغیر تو اس کے لیے کوئی چارہ ہی نہیں ہے۔ مگر جہاں تک انسان کے دائرہ اختیار کا تعلق ہے اس دائرے میں بعض انسان تو بالکل ہی غیر اﷲ کے مطیع بن جاتے ہیں‘ اور بعض انسان اپنی زندگی کو مختلف حصوں میں تقسیم کر کے‘ کسی حصّہ میں خدا کے بھیجے ہوئے قانون اخلاقی (شریعت)کی اطاعت کرتے ہیں‘ اور کسی دوسرے حصے میں اپنے نفس یا دوسروں کی اطاعت بجا لاتے ہیں۔اسی چیز کا نام اﷲ کی اطاعت کے ساتھ دوسری اطاعتوں کو شریک کرنا ہے‘ اور جو لوگ شرک کی ان مختلف صورتوں میں مبتلا ہیں‘ ان کو یہ بات ناگوار ہوتی ہے‘ کہ اپنی فطری اطاعت کی طرح‘ اپنی اختیاری اطاعت وبندگی کو بھی بالکلیہ اﷲ کے لیے خالص کر دیں۔ خواہ نادانی کے سبب سے یا اخلاقی کمزوری کے سبب سے بہرحال وہ شرک پر اصرار کرتے ہیں۔ لیکن اﷲ کے رسول پر یہ فرض عائد کیا گیا ہے‘ کہ ایسے لوگوں کی مزاحمت کے باوجود اپنے مشن کو پورا کرے۔