سوال
مسلمان قوم اگر ہندستان میں گائے کی قربانی کو روک دے تو اسلام کی نگاہ میں کوئی قیامت نہیں آجاتی، خصوصاً جب کہ اس فعل میں نفع کم اور نقصان زیادہ ہے۔پھرکیوں نہ ایک ہمسایہ قوم کا اتحاد حاصل کرنے کے لیے رعایت سے کام لیا جائے؟اکبراعظم، جہانگیر،شاہجہاں اورموجودہ نظام حیدر آباد نے عملی مثالیں اس سلسلے میں قائم کی ہیں ۔
جواب
آپ نے جن بڑے بڑے ’’اماموں ‘‘ کا نام لیاہے مجھے ان میں سے کسی کی تقلید کا شرف حاصل نہیں ہے۔ میرے نزدیک مسلمانوں نے ہندستان میں ہندوئوں کو راضی کرنے کے لیے اگر گائے کی قربانی ترک کی تو چاہے وہ کائناتی قیامت نہ آجائے جس کا ذکر قرآن میں آیا ہے، لیکن ہندستان کی حد تک اسلام پر واقعی قیامت تو ضرور آجائے گی۔ افسوس یہ ہے کہ آپ لوگوں کانقطۂ نظر اس مسئلے میں اسلام کے نقطۂ نظر کی عین ضد ہے۔آپ کے نزدیک اہمیت صرف اس امر کی ہے کہ کسی طرح دوقوموں کے درمیان اختلاف ونزاع کے اسباب دُور ہوجائیں ۔لیکن اسلام کے نزدیک اصل اہمیت یہ امر رکھتا ہے کہ توحید کا عقیدہ اختیا ر کرنے والوں کو شرک کے ہرممکن خطرے سے بچایا جائے۔
جس ملک میں گائے کی پوجا نہ ہوتی ہو اور گائے کو معبودوں میں شامل نہ کیاگیا ہو اور اس کے تقدس کا بھی عقیدہ نہ پایا جاتا ہو، وہاں تو گائے کی قربانی محض ایک جائز فعل ہے، جس کو اگر نہ کیا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں ہے ۔لیکن جہاں گائے معبود ہو اور تقدس کا مقام رکھتی ہو، وہاں تو گائے کی قربانی کا حکم ہے،جیسا کہ بنی اسرائیل کو حکم دیا گیا تھا۔اگر ایسے ملک میں کچھ مدت تک مسلمان مصلحتاً گائے کی قربانی ترک کردیں اور گائے کا گوشت بھی نہ کھائیں تو یہ یقینی خطرہ ہے کہ آگے چل کر اپنی ہمسایہ قوموں کے گائو پرستانہ عقائدسے وہ متاثر ہوجائیں گے اور گائے کے تقدس کااثر ان کے قلوب میں اسی طرح بیٹھ جائے گا جس طرح مصر کی گائو پرست آبادی میں رہتے ہوئے بنی اسرائیل کاحال ہوا تھا کہ وَاُشْرِبُوْا فِيْ قُلُوْبِہِمُ الْعِـجْلَ({ FR 2224 })( البقرہ:۹۳) پھر اس ماحول میں جو ہندو اسلام قبول کریں گے وہ چاہے اسلام کے اور دوسرے عقائد قبول کرلیں ،لیکن گائے کی تقدیس ان کے اندر بدستورموجود رہے گی۔ اسی لیے ہندستان میں گائے کی قربانی کو میں واجب سمجھتا ہوں اور اس کے ساتھ میرے نزدیک کسی نو مسلم ہندوکا اسلام اس وقت تک معتبر نہیں ہے جب تک وہ کم ازکم ایک مرتبہ گائے کا گوشت نہ کھالے۔ اسی کی طرف وہ حدیث اشارہ کرتی ہے جس میں حضورﷺ نے فرمایا کہ ’’جس نے نماز پڑھی جیسی ہم پڑھتے ہیں اور جس نے اسی قبلے کو اختیار کیا جو ہمارا ہے، اورجس نے ہمارا ذبیحہ کھایا وہ ہم میں سے ہے۔({ FR 2225 }) ‘‘یہ’’ ہماراذبیحہ کھایا‘‘ دوسر ے الفاظ میں یہ معنی رکھتا ہے کہ مسلمانوں میں شامل ہونے کے لیے ان اوہام وقیود اور بندشوں کا توڑنا بھی ضروری ہے جن کا جاہلیت کی حالت میں کوئی شخص پابند رہا ہو۔ (ترجمان القرآن ، جولائی، اگست ۱۹۴۵ء)