اس مقد مہ کے سلسلہ میں یہ بات بھی قابل غورہے کہ مولانامودودی کے ۲۷فروری اور۵مارچ ۱۹۵۳ئ کے جن دوبیانات کوحکومت کے خلاف بغاوت پھیلانے کے مترادف قراردیاگیاہے وہ لاہور ،کراچی اوردیگرمقامات کے اخبارات میں بھی شائع ہوئے لیکن مقدمہ صرف جماعت اسلامی کے ایک رکن کے اخبار روزنامہ ’’تسنیم ‘‘ ہی پر چلایا گیا اور اس کے ایڈیٹر کو تین سال قید با مشقت کی سزا دی گئی ، جس پر ہماری صحافتی برادری کے ضمیر آج تک خاموش ہیں۔
نیز جس پمفلٹ (قادیانی مسئلہ ) کی تصنیف پر مولانا مودودی سزائے موت({ FR 6479 }) کے مستحق ٹھہرائے گئے ۔ اس پر نہ مارشل لا کی پوری مدت میں فوجی حکام نے اور نہ آج تک کسی صوبائی اور مرکزی حکومت نے کسی قسم کی پابندی لگائی ہے۔ حالانکہ یہ پمفلٹ اب تک نوے ہزار کی تعداد میں اُردو، انگریزی ، سندھی ، گجراتی اور بنگلہ وغیرہ زبانوں میں شائع ہوکر لاکھوں افراد کی نظر سے گزر چکاہے۔
اس سے بھی بڑھ کر عجیب واقعہ یہ ہے کہ لاہور کے کتب فروشوں کی دوکانوں سے فوجی حکام نے اس پمفلٹ کے اسٹاک کو اٹھا کر پہلے تو اپنے قبضہ میں لے لیاتھا مگر پھر تفتیش و تحقیق کے بعد تمام کتابیں واپس کردیں اور کھلے عام فروخت کرنے پر کسی قسم کی پابندی عائد نہیں کی ۔ خود جماعت اسلامی کے مرکزی مکتبہ کے ناظم سید نقی علی جن کو اس پمفلٹ کا پرنٹرو پبلشر ہونے کی وجہ سے ۹ سال قید با مشقت کی سزا ملی ہے ۔ مارشل لا حکام کا ایک اعلان سن کر مذکورہ پمفلٹ لے کر اس کے بارے میں ان سے حکم دریافت کرنے گئے۔ لیکن اس کے بعد بھی اس کتاب کو ممنوع قرار نہیں دیاگیا۔
]({ FN 6479 }) یہاں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ مولانا مودودیؒ کو جس دفعہ کے تحت سزائے سزائے موت کا حکم سنایا گیاوہ ضابطہ نمبر ۷مارشل لائ بشمول دفعہ ۱۱۵۳ الف ہے۔ یعنی رعایا کے درمیان منافرت پھیلانا نہ کہ ۱۲۴الف کے تحت یعنی حکومت کے خلاف بغاوت کرنا۔ بالفاظ دیگر مولانا مودودیؒ محض ’’قادیانی مسئلہ‘‘ نامی پمفلٹ لکھنے کے ہی جرم میں سزائے موت کے مستحق پھہرائے گئے۔ ملاحظہ ہو فوجی حکام کا خط بنام مولانا مودودیؒ بہ سلسلہ اپیل‘[