آپ سوال کریں گے کہ اس واقعہ کے مطابق ہماری صحیح حیثیت کیا ہے؟ مَیں چند لفظوں میں اس کی تشریح کیے دیتاہوں۔ اگر کسی نوکر کو آپ تنخواہ دے کر پال رہے ہوں تو بتائیے اس نوکر کی اصلی حیثیت کیا ہے؟ یہ ہی ناکہ آپ کی نوکری بجا لائے، آپ کے حکم کی اطاعت کرے، آپ کی مرضی کے مطابق کام کرے اور نوکری کی حد سے نہ بڑھے، نوکر کا کام آخر نوکری کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے؟ آپ اگر افسر ہوں اور کوئی آپ کا ماتحت ہو تو ماتحت کا کام کیا ہے؟ یہ ہی ناکہ وُہ ماتحتی کرے، افسری کی ہوا میں نہ رہے۔ اگر آپ کسی جائداد کے مالک ہوں تو اس جائداد میں آپ کی خواہش کیا ہو گی؟ یہ ہی ناکہ اس میں آپ کی مرضی چلے، جو کچھ آپ چاہیں وہی ہو اور آپ کی مرضی کے خلاف پتّا نہ ہِل سکے۔ آپ پر اگر کوئی بادشاہی مسلط ہو اور تمام قوتیں اس کے ہاتھ میں ہوں تو ایسی بادشاہی کی موجودگی میں آپ کی حیثیت کیا ہو سکتی ہے؟ یہی ناکہ آپ سیدھی طرح رعیّت بن کر رہنا قبول کریں اور شاہی قانون کی فرماں برداری سے قدم باہر نہ نکالیں۔ بادشاہ کی سلطنت کے اندر رہتے ہوئے اگر آپ خود اپنی بادشاہی کا دعوٰی کریں گے یا کسی دُوسرے کی بادشاہی مان کر اس کے حکم پر چلیں گے تو آپ باغی ہوں گے اور باغی کے ساتھ جو سلوک کیا جاتا ہے وُہ آپ کو معلوم ہی ہے۔
ان مثالوں سے آپ خوب سمجھ سکتے ہیں کہ خدا کی اس سلطنت میں آپ کی اصلی حیثیت کیا ہے؟
آپ کو اس نے بنایا ہے، قدرتی طور پر آپ کا کوئی کام اس کے سوا نہیں ہے کہ اپنے بنانے والے کی مرضی پر چلیں۔
آپ کو وُہ پال رہا ہے اور اسی کے خزانے سے آپ تنخواہ لے رہے ہیں، آپ کی کوئی حیثیت اس کے سِوا نہیں ہے کہ آپ اس کے نوکر ہیں۔
آپ کا اور ساری دنیا کا افسر وُہ ہے۔ اس کی افسری میں آپ کی حیثیت ماتحتی کے سوا اور کچھ نہیں ہو سکتی۔
یہ زمین و آسمان سب اس کی جائداد ہیں۔ اس جائداد میں اسی کی مرضی چلے گی اور چلنی چاہیے۔ آپ کو یہاں اپنی مرضی چلانے کا کوئی حق نہیں ہے۔ اپنی مرضی آپ چلانے کی کوشش کریں گے تو منہ کی کھائیں گے۔
اِس سلطنت میں اُس کی بادشاہی اُس کے اپنے زور پر قائم ہے۔ زمین اور آسمان کے سارے محکمے اس کے قبضہ میں ہیں۔ آپ خود چاہے راضی ہوں یا ناراض، بہرحال اس کی رعیّت ہیں۔ آپ کی اور کسی انسان کی بھی، خواہ وُہ چھوٹا ہو یا بڑا، کوئی دوسری حیثیت رعیّت ہونے کے سوا نہیں ہے۔ اُسی کا قانون اِس سلطنت میں قانون ہے اور اُسی کا حکم ہے۔ رعیّت میں سے کسی کو یہ دعوٰی کرنے کا حق نہیں ہے کہ مَیں ہزمیجسٹی ہوں، یا ہز ہائی نس ہوں، یاڈکٹیٹر اور خود مختار ہوں۔ نہ کسی شخص یا پارلیمنٹ یا اسمبلی یا کونسل کو اختیار حاصل ہے کہ اس سلطنت میں خدا کے بجائے خود اپنا قانون بنائے اور خدا کی رعیّت سے کہے کہ ہمارے اس قانون کی پیروی کرو۔ نہ کسی انسانی حکومت کو یہ حق پہنچتا ہے کہ خدا کے حکم سے بے نیاز ہو کر خود حکم چلائے اور خدا کے بندوں سے کہے کہ ہمارے اس حکم کی اطاعت کرو۔ نہ کسی انسان یا انسانوں کے کسی گروہ کے لیے یہ جائز ہے کہ اصلی بادشاہ کی رعیّت بننے کے بجائے بادشاہی کے جُھوٹے مدعیوں میں سے کسی کی رعیّت بننا قبول کرے، اصلی بادشاہ کے قانون کو چھوڑ کر جُھوٹے قانون سازوں کا قانون تسلیم کرے، اور اصلی حکم ران سے منہ موڑ کر جُھوٹ موٹ کی ان حکومتوں کا حکم ماننے لگے، یہ تمام صورتیں بغاوت کی ہیں۔ خود بادشاہی کے اختیارات کا دعوٰی کرنا، یا ایسے کسی مدّعی کے دعوے کو قبول کرنا، دونوں حرکتیں رعیّت کے لیے بغاوت کا حکم رکھتی ہیں اور اس کی سزا ان دونوں کو ملنی یقینی ہے، خواہ جلدی ملے یا دیر میں۔
آپ کی اور ایک ایک انسان کی پیشانی کے بال خدا کی مٹھی میں ہیں، جب چاہے پکڑ کر گھسیٹ لے۔ زمین اور آسمان کی اِس سلطنت میں بھاگ جانے کی طاقت کسی میں نہیں ہے۔ آپ اس سے بھاگ کر کہیں پناہ نہیں لے سکتے۔ مٹی میں مل کر آپ کا ایک ایک ذرّہ بھی اگر منتشر ہو جائے، آگ میں جل کر خواہ آپ کی راکھ ہوا میں پھیل جائے، پانی میں بہہ کر خواہ آپ مچھلیوں کی خوراک بنیں یا سمندر کے پانی میں گھل جائیں، ہر جگہ سے خدا آپ کو پکڑ لے گا۔ ہوا اس کی غلام ہے، زمین اس کی بندی ہے، پانی اور اس کی مچھلیاں سب اس کے حکم کی تابع ہیں، ایک اشارے پر سب ہر طرف سے آپ پکڑے ہوئے آ جائیں گے اور پھر وُہ آپ میں سے ایک ایک کو بُلا کر پوچھے گا کہ میری رعیّت ہو کر بادشاہی (sovereignty) کا دعوٰی کرنے کا حق تمھیں کہاں سے پہنچ گیا تھا؟ میرے ملک میں اپنا حکم چلانے کے اختیارات تم کہاں سے لائے تھے؟ میری سلطنت میں اپنا قانون جاری کرنے والے تم کون تھے؟ میرے بندے ہو کر دوسروں کی بندگی کرنے پر تم کیسے راضی ہو گئے؟ میرے نوکر ہو کر تم نے دوسروں کا حکم مانا، مجھ سے تنخواہ لے کر دوسروں کو اَن داتا اور رازق سمجھا، میرے غلام ہو کر دوسروں کی غلامی کی، میری بادشاہی میں رہتے ہوئے دوسروں کے قانون کو قانون سمجھا، اور دوسروں کے فرامین کی اطاعت کی۔ یہ بغاوت کس طرح تمھارے لیے جائز ہو گئی تھی؟ فرمائیے آپ میں سے کسی کے پاس اُس الزام کا جواب ہے؟ کون سے وکیل صاحب وہاں اپنے قانونی دائو پیچ سے بچائو کی صورت نکال سکیں گے؟ اور کون سی سفارش پر آپ بھروسا رکھتے ہیں کہ وُہ آپ کو اس بغاوت کے جرم کی سزا بھگتنے سے بچا لے گی؟