Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

دیباچہ
مقدمہ طبع اوّل
تعارف مقصد
تحریک اِسلامی کا تنزل
ضمیمہ
نسلی مسلمانوں کے لیے دوراہیں عمل‘ خواہ انفرادی ہویااجتماعی‘ بہرحال اس کی صحت کے لیے دو چیزیں شرط لازم ہیں:
اقلیت واکثریت
شکایات ناظرین’’ترجمان القرآن‘‘میں سے ایک صاحب لکھتے ہیں:
راہ رَوپِشت بمنزل
اسلام کی دعوت اور مسلمان کا نصب العین
اصلی مسلمانوں کے لیے ایک ہی راہِ عمل
اسلام کی راہِ راست اور اس سے انحراف کی راہیں
۱۔اسلامی نصب العین
۲- اس نصب العین تک پہنچنے کا سیدھا راستہ
۳-مشکلات
۴-انحراف کی راہیں
۵- منحرف راستوں کی غلطی
پاکستانی خیال کے لوگ
۶-مشکلات کا جائزہ
اسلامی حکومت کس طرح قائم ہوتی ہے؟
استدراک
ایک صالح جماعت کی ضرورت
مطالبۂ پاکستان کو یہود کے مطالبہ ’’قومی وطن‘‘ سے تشبیہ دینا غلط ہے
مسلم لیگ سے اختلاف کی نوعیت
وقت کے سیاسی مسائل میں جماعت ِاسلامی کا مسلک
نظام کفر کی قانون ساز مجلس میں مسلمانوں کی شرکت کا مسئلہ
مجالس قانون ساز کی رکنیت شرعی نقطۂ نظر سے
پُر امن اِنقلاب کا راستہ
۱۹۴۶ء کے انتخابات اور جماعت ِاسلامی
جواب
تقسیم سے قبل ہندستان کے مسلمانوں کو آخری مشورہ (یہ وہ تقریر ہے‘ جو ۲۶اپریل ۱۹۴۷ء کو جماعت ِاسلامی کے اجلاس منعقدہ مدراس میں کی گئی تھی)
صوبہ سرحد کے ریفرنڈم میں جماعت ِاسلامی کا مسلک
تقسیم ہند‘ حالات پر تبصرہ
تقسیم کے وقت مسلمانوں کی حالت کا جائزہ
تقسیم کے بعد سامنے آنے والے مسائل
کیا پاکستان کو ایک مذہبی ریاست ہونا چاہئے؟
پاکستان میں اسلامی قانون کیوں نہیں نافذ ہوسکتا؟
اسلامی نظامِ زندگی کا مآخذ
پاکستان میں اسلامی قانون کس طرح نافذ ہوسکتا ہے؟
مطالبہ نظام اسلامی

تحریک آزادی ہند اور مسلمان (حصہ دوم)

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

کیا پاکستان کو ایک مذہبی ریاست ہونا چاہئے؟

(پاکستان کے قائم ہوتے ہی یہ بحثیں شروع کر دی گئی تھیں‘ کہ اس مملکت کو ایک اسلامی مملکت بنانے میں کیا مشکلات اور قباحتیں درپیش ہیں‘ اور اس غرض کے لیے دلائل فراہم کیے جانے لگے تھے‘ کہ اس کو ایک لادینی ریاست ہونا چاہئے‘ اس کا اندازہ اس مباحثہ سے ہوسکتا ہے‘ جو ۱۸ء مئی ۱۹۴۸ء کو ریڈیو پاکستان لاہور سے نشر ہوا تھا۔ اس مباحثہ میں سائل کی حیثیت سے وجیہہ الدین صاحب بو ل رہے تھے‘ اور مجیب کی حیثیت سے سید ابوالا علیٰ مودودی)
س۔اس بحث کو شروع کرنے سے پہلے غالباً یہ جان لینا ضروری ہے‘ کہ آپ کے ذہن میں مذہبی ریاست کا کیا تصوّر ہے؟
م۔ ظاہر بات ہے‘ کہ ایک مسلمان جب مذہب کا لفظ بولے گا‘ تو اس کے ذہن میں اسلام ہی مراد ہوگا۔ میں جب کہتا ہوں کہ پاکستان کو ایک مذہبی ریاست ہونا چاہئے‘ تو اس سے میرا مطلب یہ ہوتا ہے‘ کہ اسے ایک اسلامی ریاست ہونا چاہئے۔ یعنی ایک ایسی ریاست جو اخلاق‘ تہذیب‘ تمدّن‘ معاشرت‘ قانون‘ سیاست اور معیشت کے ان اصولوں پر قائم ہو‘جو اسلام نے ہم کو دئیے ہیں۔
س۔ آپ نے مذہبی ریاست کا جو مفہوم بیان فرمایا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے‘ کہ اس ریاست کا سیاسی اقتدار ماہرین دینیات کے ایک مخصوص طبقے کے ہاتھ میں ہوگا۔ اس طبقہ کا کام یہ ہوگا‘ کہ وہ سیاسی اور انتظامی امور کے بارے میں اسلامی نقطۂ نظر سے تحقیق وتفتیش کرے‘ ریاستی قوانین وضع کرے‘ اور شرعی احکامات کی بنا پر‘ ہر سیاسی گتھی کو سلجھائے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے‘ کہ اس طبقے کی پشت پناہ کو ن لوگ ہوں گے؟ یہ تو آپ جانتے ہی ہیں‘ کہ اقتصادی لحاظ سے ہماری سماج مختلف طبقوں میں منقسم ہے۔ہر طبقہ اس کوشش میں ہے‘ کہ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے مذہبی جواز تلاش کرے‘ اور مذہبی نعروں کو استعمال میں لائے۔ماہرین دینیات اس طبقاتی کش مکش سے بے نیاز اور غیر متعلق نہیں رہ سکتے۔ ان کے لیے لازم ہے‘ کہ یا تو وہ عوامی طاقتوں کا ساتھ دیں‘ یا اپنے آپ کو سرمایہ دار اور جاگیر دار طبقہ سے وابستہ کر دیں۔ اس صورت میں قرآنی اصولوں کی جو بھی تفسیر پیش کی جائے گی‘ وہ ان کے سیاسی رُجحان کی آئینہ دار ہوگی۔ مختلف سیاسی خیالات رکھنے والے مفسروں میں‘ اہم ترین مسائل پر شدید ترین اختلاف رائے پیدا ہوجائے گا۔ اقتصادی کش مکش ایک لامتناہی فقیہا نہ بحث کی صورت اختیار کرے گی۔ اور وہ مسائل جن کا مناسب حل ڈھونڈنا اس وقت اشد ضروری ہے‘ جوں کے توں دہرے کے دہرے رہ جائیں گے۔
م۔ جس طبقاتی کش مکش کی طرف آپ اشارہ فرما رہے ہیں‘ وہ دراصل پیدا ہی اس لیے ہوئی ہے‘ کہ مدّتوں سے غیراسلامی اثرات کے تحت رہتے رہتے‘ ہمارا معاشرہ اخلاق کی اس روح سے اور انصاف کے ان اصولوں سے محروم ہوگیا ہے‘ جو اسلام نے ہم کو دئیے تھے۔ جس مادّہ پرستی نے دنیا کے دوسرے معاشروں کو طبقات میں تقسیم کیا اوران کے اندر اغراض ومفاد کا تصادم پیدا کیا‘ وہی بدقسمتی سے اب ہمارے معاشرے کو پھاڑنے‘ اور باہم ٹکرا دینے کی دہمکیاں دے رہی ہے۔ ابھی ابھی ہم فرقہ وارانہ کشاکش کے ہولناک نتائج بھگت چکے ہیں‘ اور اس سے لگے ہوئے زخم ابھی بھرے بھی نہیں ہیں۔ اب ہم اس کے لیے تیار نہیں ہیں‘ کہ اپنے آپ کو ان اجتماعی فلسفوں کے حوالے کر دیں جو ہمارے اندر ایک دوسری جنگ… طبقاتی جنگ برپا کر دیں‘ اور ہمیں اس وقت تک امن کی صورت نہ دیکھنے دیں‘ جب تک ہمارا کوئی ایک طبقہ دوسرے طبقوں کو ملیا میٹ نہ کر دے۔دوسری قوموں نے تو ان اجتماعی فلسفوں کو شاید اس لیے قبول کر لیا‘ کہ ان کے پاس اخلاق اور انصاف کے وہ اصول موجود نہ تھے‘ جو طبقاتی خود غرضیوں کے نشوونما روک سکتے اور مختلف عناصر کو ایک عادل برادری میں جمع کر دیتے۔ لیکن ہم خوش قسمتی سے ایک ایسا نظامِ حیات رکھتے ہیں‘ جو ہمیں اس خطرے سے بچا سکتا ہے۔ ضرورت صرف اس امر کی ہے‘ کہ ہم اپنے اندر سے ان لوگوں کو ابھاریں‘ جو اسلام کی روح کو پوری طرح سمجھتے ہوں ‘اور طبقاتی تعصّبات سے بالا ہوکر اسلام کے قوانین کی بے لاگ تعبیر کر سکتے ہوں۔ پھر یہ لوگ بالا تفاق‘ یا اکثریت کے ساتھ جو تعبیر ہمارے سامنے پیش کریں اسے ہم سب مان لیں‘ اور ہم میں سے کوئی طبقہ اپنے ہی مطلب کی تعبیر لینے پر اصرار نہ کرے۔ ایسے لوگوں کی پشت پناہی پوری قوم کو بحیثیت مجموعی کرنی چاہئے نہ کہ کسی ایک طبقے یا چند طبقوں کو ہمیں ان کے انتخاب میں صرف اس معیار کو ملحوظ رکھنا چاہئے کہ وہ بھر وسے کے قابل سیرت رکھتے ہوں ‘اور اسلام کی صحیح تعبیر کرنے کے اہل ہوں۔
س۔ میری ناچیز رائے میں سیاسی نظام کے مرتّب کرنے میں صرف خلوص اور ایمانداری ہی سے کام نہیں چل سکتا۔ ہمارے سامنے اس وقت بہت سے پیچیدہ سیاسی اور معاشی مسائل ہیں‘ جن پر سنجیدہ غور وفکر کی ضرورت ہے۔ ذرائع پیداوار کو قومی ملکیت قرار دیا جائے‘ یا شخصی ملکیت ریاست میں ایک ہی سیاسی پارٹی ہونی چاہئے‘ یا ایک سے زیادہ‘ سیاسی پارٹیوں کا ہونا جمہوریت کو بر قرار رکھنے کے لیے ضروری ہے؟مزدوروں کو ہڑتال کا حق ہونا چاہیے یا نہیں؟وغیرہ وغیرہ آپ ان گتھیوں کو مذہبی پیشوائوں کے حوالہ کر دیجیے‘ آپ دیکھیں گے کہ وہ کسی فیصلہ کن نتیجے تک نہیں پہنچ سکتے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے‘ کہ ریاست کی تعمیر کے لیے فقیہانہ تحقیق وتجسس اور مذہبی کتب کی چھان بین کے بجائے سیاسی تجزئیے اور تاریخی شعور کی ضرورت ہے۔ اس سلسلہ میں دینیات کے ماہروں کی بہ نسبت سیاسیات اور اقتصادیات کے ماہرین ہماری بہتر رہنمائی کر سکتے ہیں۔
م۔ آپ جب ’’دینیات کا لفظ بولتے ہیں‘ تو شاید ’’دُنیویات‘‘ کو اس سے خارج کر دیتے ہیں۔ اسی لیے آپ کو بجا طور پر یہ اندیشہ ہوا کہ اگر ہم نے اپنے سیاسی اور معاشی مسائل کا حل‘ ان ماہرینِ دینیات کے حوالہ کر دیا‘ جو دنیویات سے ناواقف ہیں‘ تو ہمارا کوئی مسئلہ بھی حل نہ ہوسکے گا۔ لیکن آپ ذرا اس پہلو پر بھی غور فرمائیں کہ اگر ہم نے اپنے تمدّن‘ اپنی سیاست اور اپنی معیشت کے مسائل ان ماہرین کے حوالے کر دئیے‘ جو صرف مغربی نظریات وعملیات سے واقف ہیں‘ اور اسلامی تعلیمات سے کوئی مس نہیں رکھتے تو ہم کہاں پہنچیں گے؟آپ کہتے ہیں‘ کہ یہ لوگ ماہرین دینیات کی بہ نسبت ہماری بہتر رہنمائی کر سکیں گے۔ لیکن مجھے اندیشہ ہے‘ کہ یہ رہنمائی ہمیں اسی منزل پر لے جائے گی‘ جس پر آج دنیا کی بڑی بڑی قومیں پہنچ چکی ہیں۔ یعنی گھر کے اندر طبقاتی خود غرضیوں کی کشاکش اور گھر کے باہر بین الاقوامی خود غرضیوں کی کھینچ تان۔ کیا اس سے بہتر یہ نہ ہوگا کہ ہم اپنی قوم میں ان لوگوں کو تلاش کریں‘ جو دین اور دنیا‘ دونوں کو اچھی طرح جانتے ہوں‘ جن کی نگاہ قرآن وحدیث کی تعلیمات پر اور سیاسیات ومعاشیات وغیرہ کے مسائل پر یکساں ہو‘ اور وہ سر جوڑ کر ہماری گتھیوں کا ایسا حل پیش کریں‘ جو ہماری زندگی کو ساری دنیا کے لیے ایک قابلِ تقلید نمونہ بنا دے؟
س۔ریاست ِپاکستان کو اسلامی شریعت کے مطابق تنظیم دینے‘ اور شرعی احکامات کے موجودہ حالات پر اطلاق کرنے میں ہمیں ایک اور مشکل بھی پیش آئے گی۔ ہم بسااوقات مذہبی احکامات کی روح کو فراموش کر دیتے ہیں‘ اور ان کی لفظی حقیقت ہمارے پیشِ نظر رہتی ہے۔ اس طرح وسائل اور مقاصد ایک دوسرے سے خَلْط مَلْط ہوکر رہ جاتے ہیں۔ سود ہی کو لیجیے۔ سود کونا جائز قرار دینے کا مقصد یہی تھا‘ کہ اقتصادی استحصال کو روکا جائے۔ اسی طرح اجارہ‘ احتکار اور چور بازاری کی مخالفت کی گئی۔ لیکن جائز تجارت کو روا رکھا گیا۔ کیونکہ اس زمانے میں سرمایہ دار ی نظام ابھی طفولیت کی حالت میں تھا‘ اور صنعتی سرمایہ کی طرح ظلم واستبداد کا آلہ نہ تھا۔ آج حالات بدل چکے ہیں۔ آج بیرونی تجارت کا مفہوم یہ ہے‘ کہ سامراجی نظام کو تقویت دی جائے‘ اور دوسری قوموں کو اقتصادی اور سیاسی طور پر محکوم بنایا جائے۔ جائز اور ناجائز تجارت کا فرق مٹ چکا ہے۔ لیکن ہمارے علما اقتصادیات پر فتوے لگاتے ہیں‘ تو وہ یہ بھول جاتے ہیں‘ کہ موجودہ اقتصادی نظام میں مہاجنی سود کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ غربت اور بدحالی اس شے کی پیداوار ہے‘ جسے وہ جائز قرار دیتے ہیں یعنی صنعتی سرمایہ داری اور بینکنگ۔
م۔ یہ خرابی جس کا آپ ذکر فرما رہے ہیں۔ ہر اس جگہ پیدا ہوجاتی ہے ‘جہاں قانون کے منشا اور اس کی روح کو چھوڑ کر صرف اس کے الفاظ لے لیے جاتے ہیں۔ کہیں یہ خرابی علم اور بصیرت کی کمی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے‘ اور کہیں اس وجہ سے کہ لوگ اپنی اغراض کے لیے قانونِ روح سے بغاوت کرنا چاہتے ہیں۔ مگر ظاہر داری کو قائم رکھنے کے لیے قانون کی شکل بدلنے سے اعتراز کرتے ہیں۔ ہمیں اس خرابی سے اگر کوئی چیز بچا سکتی ہے‘ تو وہ صرف یہ کہ عام مسلمانوں میں‘ اسلام کا شعور اور اس کی واقعی پیروی کا ارادہ موجود ہو۔ یہ چیز جب موجود ہوگی‘ تو وہ اسلامی قوانین کی تعبیر کے لیے اپنے اندر سے انہی لوگوں کو منتخب کریں گے‘ جو قرآن وسنّت کے محض الفاظ ہی نہ جانتے ہوں‘ بلکہ ان کی روح کو بھی سمجھتے ہوں۔
س۔ شریعت کے مفسرین اور شارحین میں سیاسی اختلافات کے علاوہ جو خالصتہً مذہبی اختلافات ہیں‘ ان کے بارے میں آپ کا خیال ہے؟کیا آپ کی نظر میں یہ اختلافات مستقبل کے سیاسی اور سماجی نظام کا تصوّر قائم کرنے میں رکاوٹ نہ ڈالیں گے؟
م۔ ان اختلافات کی نوعیت وہی کچھ ہے‘ جو ہمارے دوسرے اختلافات کی ہے‘ اور انہیں بھی ہم اسی طرح حل کر سکتے ہیں‘ جس طرح دوسرے اختلافات کو حل کیا کرتے ہیں۔ کوئی معاشرہ جو انسانوں پر مشتمل ہو‘ ایسا نہیں ہوسکتا‘ جس میں زندگی کے مختلف مسائل سے متعلق‘ مختلف نظرئیے نہ پائے جاتے ہوں۔ لیکن ان اختلافات کو کہیں بھی ایسی رکاوٹ بننے کی اجازت نہیں دی جاتی کہ وہ زندگی کی گاڑی کو آگے چلنے ہی نہ دیں۔ اختلافات کو حل کرنے کا جمہوری طریقہ یہ ہے‘ کہ ریاست کا نظام اس نقطۂ نظر کے مطابق چلایا جائے جس کو اکثریت قبول کرتی ہو‘ اور قلیل التعداد گروہوں کے نقطۂ نظر کی زیادہ سے زیادہ اتنی رعایت کی جائے‘ جس کی اصول میں گنجائش ہو‘ نیز اقلیت کی حیثیت سے ان کے حقوق کا منصفانہ تحفظ کر دیا جائے۔ ہم کوشش کریں گے کہ پاکستان کی ریاست اسلام کے ان وسیع ترین اصولوں پر قائم ہو‘جن پر مسلمانوں کے درمیان زیادہ سے زیادہ اتفاق پایا جاتا ہے۔ تا ہم کچھ ایسے گروہ باقی رہ سکتے ہیں‘ جو ان وسیع ترین اصولوں میں بھی اکثریت کے ساتھ متفق نہ ہوں۔ اس صورت میں ہم کو وہی جمہوری طریقہ اختیار کرنا پڑے گا‘ جس کا ابھی میں ذکر کر چکا ہوں۔ ورنہ یہ بالکل ایک عجیب بات ہوگی‘ کہ ہم سب غیر اسلام پر اس لیے اتفاق کرلیں کہ اسلام پر ہم متفق نہ ہوسکے۔
س۔ مسلمانوں کے اندرونی اختلافات کے علاوہ ریاست پاکستان میں اقلیتوں کا مسئلہ بھی قابلِ غور ہے۔ آپ کس طرح ان کو اس بات پر راضی کر سکتے ہیں‘ کہ وہ مسلمانوں کی مذہبی ریاست کا قیام گوارا کر لیں اوراس کے وفادار ہیں؟
م۔ اس گتھی کا حل بھی وہی ہے‘ جو مسلمانوں کے اندرونی اختلافات کا ہے۔ جمہوری طریقہ پر ایک ملک کا نظام انہی اصولوں کے مطابق بنتا اور چلتا ہے‘ جو اکثریت کی رائے میں صحیح ہوں۔ اقلیت یہ مطالبہ ضرور کر سکتی ہے‘ کہ اس کے نقطۂ نظر پر بھی غور کیا جائے‘ نیز یہ کہ اس کے حقوق شہریت اور اس کے پرسنل لاکو محفوظ رکھا جائے۔ لیکن ازروئے انصاف وہ یہ مطالبہ نہیں کر سکتی‘ کہ اکثریت اس کی خاطر اپنی رائے بدل دے۔ اس ملک کی اکثریت ایمانداری کے ساتھ یہ رائے رکھتی ہے‘ کہ اسلام کے اصولوں کی پیروی میں پاکستان کے باشندوں کی فلاح ہے۔ اس کو یہ حق حاصل ہونا چاہئے‘ کہ ملک کا نظام اس کی اس رائے کے مطابق بنے۔ اقلیت اس سے اپنے حقوق کا تحفظ مانگ سکتی ہے‘ مگر یہ کہنے کا اسے حق نہیں ہے‘ کہ اکثریت اسلام کے بجائے کچھ دوسرے اصولوں میں اپنی فلاح تلاش کرے۔ رہا وفاداری کا سوال‘ تو حقیقت یہ ہے‘ کہ وفاداری کا تعلق کسی ریاست کے مذہبی یا غیر مذہبی ہونے سے نہیں ہے‘ بلکہ وہ اس انصاف‘ شرافت اور فیاضی پر منحصر ہے‘ جو اکثریت کی طرف سے اقلیت کے ساتھ برتی جائے۔ آپ اقلیت کو محض اس ریا کاری سے مطمئن نہیں کر سکتے کہ دیکھو ہم نے تمہاری خاطر اپنے مذہب کو چھوڑ دیا اور ایک غیر مذہبی ریاست بنا لی۔ اقلیت تو یہ دیکھے گی کہ آپ اس کے ساتھ انصاف کرتے ہیں‘ یا نہیں؟ آپ کا برتائو تعصّب اور تنگ دلی پر مبنی ہے‘ یا رواداری اور فیاضی پر؟یہی تجزّیہ دراصل فیصلہ کرے گا کہ اقلیت کو اس ریاست میں وفادار بن کر رہنا ہے‘ یا بے زار بن کر۔
س۔ میری رائے میں ہر ملک کا سیاسی نظام‘ اس کے باشندوں کے رسم ورواج‘ اخلاق‘ عادات وخصائل اور اعتقادات وتو ہمات کا پر تو ہوتا ہے۔ ریاستی نظام بجائے خود کسی فلسفے یا مذہبی کا حامل نہیں ہوسکتا۔ اگر اسے ایسا بنانے کی کوشش کی جائے‘ تو وہ ایک مصنوعی اور عارضی کوشش ہوگی۔ قدیم یونان کی شہری ریاست‘ افلاطون کے تخیل کی پیداوار نہیں تھی بلکہ اس انداز فکر اور فلسفہ زندگی کی پیداوار تھی‘ جو یونان کے باشندوں میں مشترک تھا۔ اسی طرح اگر ہم اسلامی ریاست کی تعمیر چاہتے ہیں‘ تو ہمیں چاہئے کہ پاکستان کے باشندوں میں صحیح اسلامی اسپرٹ پیدا کریں‘ اور انہیں دین کی اصلی اقدار سے روشناس کرائیں۔ جب یہ اقدار مضبوط ہوجائیں گی‘ اور ہمارے قومی کیرکٹر میں اسلامی تصوّرات پوری طرح سرایت کر جائیں گے‘ اس وقت ہمار ا سیاسی نظام خود بخود اسلامی رنگ اختیار کر لے گا۔ ہم اس وقت تک اسلامی ریاست کی داغ بیل نہیں ڈال سکتے‘ جب تک ہماری روحانی‘ شخصی اور سماجی زندگی میں‘ اسلامی روایات پوری تابندگی سے جلوہ گر نہ ہوں۔ میری نظر میں وہ وقت ابھی بہت دور ہے‘ جب ہم مکمل طور پر اسلامی تصوّرات کو قبول کر لیں گے۔ اس لیے اسلامی ریاست کو قائم کرنے کی تمام کوششیں پیش از وقت ہیں۔ ہماری بنیادیں ابھی اتنی استوار نہیں ہیں‘ کہ ہم ان پر ایک عمارت کھڑی کر سکیں۔
م۔ آپ نے سچ فرمایا‘ کہ ایک ملک کا سیاسی نظام‘ اس کے باشندوں کی اخلاقی اور ذہنی حالت کا پر تو ہوا کرتا ہے۔ اب اگر پاکستان کے باشندے اسلام کی طرف ایک پرزور میلان رکھتے ہیں‘ اور ان کے اندر اسلام کے راستے پر آگے بڑھنے کی خواہش موجود ہے‘ تو کیوں نہ ان کی قومی ریاست ان کے اس میلان اور اس خواہش کا پر تو ہو؟آپ کا یہ ارشاد بھی بالکل درست ہے‘ کہ اگر ہم پاکستان کو ایک اسلامی ریاست بنانا چاہتے ہیں‘ تو ہمیں پاکستان کے باشندوں میں اسلامی شعور‘ اسلامی ذہنیت اور اسلامی اخلاق پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ مگر میں نہیں سمجھا کہ اس کوشش میں حصّہ لینے سے آپ خود ریاست کو کیوں مستثنیٰ رکھنا چاہتے ہیں؟۱۵؍اگست ۱۹۴۷ء سے پہلے کی صورت حال تو یہ تھی کہ ہمارے اوپر ایک غیر مسلم اقتدار مسلّط تھا۔ اس وجہ سے ہم اسلامی خطوط پر‘ اپنی ملّت کی تعمیر میں ریاست اور اس کی طاقتوں اور اس کے ذرائع سے کوئی مدد نہیں پا رہے تھے‘ بلکہ درحقیقت اس وقت ریاست کا پورا ادارہ اپنے زور سے ہمیں ایک دوسری طرف کھینچے لیے جا رہا تھا‘ اور ہم انتہائی ناساز گار حالت میں‘ اسلامی زندگی کی تعمیر کے لیے جدوجہد کر رہے تھے۔ اب جو سیاسی انقلاب ۱۵؍ اگست ۴۷ ء کو رونما ہوا ہے‘ اس کے بعد ہمارے سامنے یہ سوال پیدا ہوگیا ہے‘ کہ آیا اب ہماری قومی ریاست اسلامی زندگی کی تعمیر میں وہ حصّہ لے گی‘ جو ایک معمار کا حصّہ ہوتا ہے؟ یا وہ طرزِعمل اختیار کرےگی‘ جو ایک بے نیاز غیر جانب دار کا ہوا کرتا ہے؟ یا اب بھی وہی پچھلی صورت حال بر قرار رہے گی‘ کہ ہمیں حکومت کی مدد کے بغیر ہی نہیں‘ بلکہ اس کی مزاحمت کے باوجود اسلامی زندگی کی تعمیر کا کام کرنا ہوگا؟اس وقت چونکہ پاکستان کا آئندہ نظام زیر تشکیل ہے‘ اس لیے ہم چاہتے ہیں‘ کہ ایسی ریاست بن جائے‘ جو اسلامی زندگی کی معمار بن سکے۔ ہماری یہ خواہش اگر پوری ہوگئی‘ تو ریاست کے وسیع ذرائع اورطاقتوں کو استعمال کر کے پاکستان کے باشندوں میں ذہنی اور اخلاقی انقلاب برپا کرنا بہت آسان ہوجائے گا۔ پھر جس نسبت سے ہمارا معاشرہ بدلتا جائے گا‘ اسی نسبت سے ہماری ریاست بھی ایک مکمل اسلامی ریاست بنتی چلی جائے گی۔
(ترجمان القرآن۔ جون ۱۹۴۸ء بشکریہ ریڈیو پاکستان)

خ خ خ

شیئر کریں