سوال-میں ایک ۱۸ سالہ سندھی نوجوان ہوں ۔اس وقت میٹرک میں ہوتے ہوئے ایک عربی مدرسے میں دو سال سے دینی تعلیم بھی حاصل کررہا ہوں ۔ہمارے ہاں عربی تعلیم کانظام کچھ اس طرز کا ہے کہ ابتدا ہی میں میرے اندر اس تعلیم سے نفرت اور بیزاری پیدا ہوگئی اور ایک سال کے اندر اندراسی عربی تعلیم نے مجھے ’’لامذہب‘‘ بنا کے رکھ دیا۔لیکن چوں کہ میرے اندر صراط مستقیم پانے کی دلی تمنا تھی اس لیے میں ہمیشہ بارگا ہِ الٰہی کے حضور میں دعا کرتا رہا کہ وہ مجھے’’ راہ ِراست‘‘ پر لے آئے۔اﷲ تعالیٰ نے انتہائی کرم فرمائی کی کہ مجھے ایمان ایسی دولت پھر سے عطا ہوئی۔ چنانچہ میں اب اسی کے فضل وکرم سے دل وجان سے مسلمان ہوں ،قومیت سے سخت متنفر اور نظریۂ انسانیت کا پیروکار۔ اس ایک سال کے عرصے میں ،میں نے ’’مسند ومنبر‘‘ دونوں کو دیکھالیکن کہیں سے اطمینان قلبی نصیب نہیں ہوا۔اور اگر کہیں سے یہ نعمت میسر آئی تو پھر اسی کتاب الٰہی کے مطالعے سے جسے لوگ قرآن حکیم کہتے ہیں ۔ یوں تو اب میں اسلام کو اپنا دین مان چکا ہوں لیکن پھر بھی مطالعے کے دوران میں بعض احادیث اور فقہی مسائل ایسے آتے ہیں جو بسااوقات مجھے پریشان کرتے ہیں ۔ آج ہی کی بات ہے کہ مدرسے میں مشکوٰۃکا درس ہورہا تھا۔جب اس حدیث پر پہنچا جو باب الایمان بالقدر میں ہے کہ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الْوَائِدَةُ وَالْمَوْءُودَةُ فِي النَّارِ({ FR 1772 }) ’’لڑکی کو زندہ گاڑنے والی اور وہ لڑکی جو زندہ گاڑی گئی،دونوں جہنم میں جائیں گی۔‘‘ تو میں نے استاذ مکرم سے صرف یہ کہا کہ حضور یہ حدیث میر ی سمجھ میں نہیں آئی۔انھوں نے جواب دیا کہ تمھاری سمجھ ہے ہی کیا کہ تم اسے سمجھ سکو، تمھیں تو بس آمَنَّاوَصَدَّقْنَاہی کہنا چاہیے۔ میں نے عرض کیا کہ یہ صحیح ہے کہ میری سمجھ ناقص ہے لیکن میں اتناتو سمجھ سکتا ہوں کہ حضور اکرمﷺ کے دہن مبارک سے ایسے ناانصافی کے الفاظ نہیں نکل سکتے۔اگر آپؐ نے یہ حدیث فرمائی ہے تو اس کا مفہوم یہ نہیں ہوسکتا جو کہ بظاہر ترجمے سے معلوم ہوتا ہے،اور اگر اس کا مفہوم یہی ہے توپھر یہ حدیث حضور سرور کائناتؐ کی نہیں ہوسکتی۔ میرے یہ الفاظ کہنے تھے کہ میرے لیے مصیبت پیدا ہوگئی۔ مجھے محض اس وجہ سے مدرسے سے خارج کردیا گیا اور کہا گیا کہ تم منکر حدیث ہو۔ حالاں کہ میں منکرین حدیث کے مسلک کو صحیح نہیں سمجھتا اور اسے گمراہ کن خیال کرتا ہوں ۔لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہمیں احادیث کو سمجھنے کا حق بھی پہنچتا ہے یا نہیں ؟ ہم بلا سوچے سمجھے کس طرح اس قسم کی احادیث پر آمَنَّاوَصَدَقّنَا کہنا شروع کردیں حالاں کہ بعض محدثین نے اس کی اسناد کو بھی ضعیف قرار دیا ہے۔براہِ کرم اس حدیث کی وضاحت فرما کر میری راہ نمائی فرمائیں ۔
جواب-یہ معلوم کرکے بڑا افسوس ہوا کہ آپ کو صرف اس قصور پرمدرسے سے نکا ل دیا گیا کہ درس حدیث کے دوران میں ایک حدیث کے مضمون پر آپ کو شک لاحق ہوا تھا اور پڑھانے والے مولوی صاحب آپ کا شک رفع کرنے سے عاجز تھے۔قصور تو اصل میں ان مولوی صاحب کا تھا جو اس چیز کی تعلیم دینے بیٹھ گئے تھے جس کی مشکلات کو حل کرنے کی قابلیت ان میں نہ تھی۔ لیکن افسوس کہ اس کی سزا آپ کو دے دی گئی۔ایسی ہی حرکات سے ہمارے ہاں کے بعض علماے کرام اچھے خاصے صحیح الفکر اور سلیم الطبع لوگوں کو گمراہیوں کی طرف دھکیل دیتے ہیں ۔
آپ کو جس حدیث کے مضمون نے پریشانی میں ڈالا ہے وہ دراصل ایک بڑے مسئلے کے فروع میں سے ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ وہ بچے جو سن رُشدکو پہنچنے اور کسی مذہب حق یا مذہب باطل کو بالارادہ اختیار کرنے سے پہلے ہی مر گئے،ان کا انجام کیا ہوگا؟ اس مسئلے پر روشنی ڈالنے والی بہت سی احادیث پائی جاتی ہیں ،مگر ان میں بڑا اختلاف ہے۔بعض حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ سب جنت میں جائیں گے۔بعض کہتی ہیں کہ کفار ومشرکین کے بچے دوزخ میں اور اہل ایمان کے بچے جنت میں جائیں گے۔ اور بعض سے یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ اﷲ تعالیٰ ان کے معاملے کا فیصلہ اپنے اس علم کے لحاظ سے کرے گا کہ وہ کیا کرنے والے تھے ،یعنی جوان ہوکر وہ مومن صالح بنتے یا کچھ اور۔ انھی مختلف المعنی احادیث میں سے ایک وہ حدیث بھی ہے جس کا آپ نے ذکر کیاہے۔وہ ان احادیث کے سلسلے میں آتی ہے جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ کفار ومشرکین کے بچے جہنم میں جائیں گے، یا بالفاظ دیگر، بچوں کے ساتھ آخرت میں وہی معاملہ کیا جائے گا جس کے مستحق ان کے والدین ہوں گے۔
جب احادیث میں اس طرح کا کھلم کھلا اختلاف واقع ہوجائے اور اُن کو جمع کرکے کوئی ایسا مفہوم تلاش کرنا مشکل ہو جس میں سب کے درمیان مطابقت پیدا ہوسکے۔ تو پھر یہ دیکھنا ضروری ہوجاتا ہے کہ اُن میں سے کون سند کے لحاظ سے زیادہ قوی اور معنیٰ کے لحاظ سے قرآن اور دین کے اصول عامّہ کے مطابق ہیں ۔ جو احادیث ایسی ہوں اُن کو دوسری تمام احادیث پر ترجیح دی جائے گی اور اُنھیں قبول کیا جائے گا۔
علمائے محققین نے اس قاعدے کے مطابق ان مختلف احادیث کو جانچ کر مسئلہ زیر بحث میں جس چیز کو مذہبِ صحیح قرار دیا ہے وہ یہ ہے کہ ایسے تمام بچے جنت میں جائیں گے، کیوں کہ اسی مضمون کی احادیث زیادہ قوی ہیں ۔ قرآن کے مطابق ہیں ۔ اور دین کے اصولِ عامہ بھی انہی کی تائید کرتے ہیں ۔ چناں چہ امام نووی شرح مسلم میں اس مسئلے پر کلام کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’رہے مشرکین کے بچے تو اُن کے بارے میں تین مذہب ہیں ۔ اکثر لوگ کہتے ہیں کہ وہ اپنے آباو اجداد کے ساتھ جہنم میں جائیں گے۔ ایک گروہ ان کے معاملے میں توقف کرتا ہے۔ اور تیسرا مذہب یہ ہے کہ وہ اہلِ جنت میں سے ہیں ، یہی مذہب صحیح ہے، اسی کو محققین نے اختیار کیا ہے، اور اس کی تائید بہت سی چیزوں سے ہوتی ہے— مثلاً بخاری کی وہ حدیث جس میں بیا ن ہوا ہے کہ نبی ﷺ نے خواب میں حضرت ابراہیمؑ کو جنت میں دیکھا اور اُن کے ارد گرد لوگوں کے بچے تھے۔ صحابہؓ نے پوچھا ، کیا اُن میں مشرکین کے بچے بھی تھے؟ حضوؐر نے فرمایا: ہاں مشرکین کے بچے بھی تھے۔ اور اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد کہ وَمَا کُنَّا مُعَذِّبِیْنَ حتیّٰ نَبْعَثَ رَسُوْلاً¡(بنی اسرائیل:۱۵) ’’ہم عذاب دینے والے نہیں ہیں جب تک کہ کوئی رسول نہ بھیج دیں ۔‘‘ اور یہ بات متفق علیہ ہے کہ بچے پر کوئی ذمہ داری نہیں ہے اور نہ رسول کا قول اس پر لازم ہوتا ہےجب تک کہ وہ بالغ نہ ہوجائے۔‘‘ ({ FR 2603 })
جہاں تک قرآن مجید کا تعلق ہے وہ اگرچہ اس کی صراحت نہیں کرتا کہ غیر مکلف انسان سب کے سب جنت میں جائیں گے، مگر اس معاملہ میں وہ صاف فیصلہ دیتا ہے کہ جہنم میں صرف وہی لوگ جائیں گے جو انبیا علیہم السلام کی دعوت سے منہ موڑ کر شیطان کا اتباع کریں ۔
لِئَلَّا يَكُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَي اللّٰهِ حُجَّــةٌۢ بَعْدَ الرُّسُلِ (النسآء:۱۶۵)’’تاکہ ان کو مبعوث کردینے کے بعد لوگوں کے پاس اللہ کے مقابلے میں کوئی حجت نہ رہے۔‘‘
لَاَمْلَــــَٔنَّ جَهَنَّمَ مِنْكَ وَمِمَّنْ تَبِعَكَ مِنْهُمْ اَجْمَعِيْنَ (ص:۸۵)’’میں جہنم کو تجھ سے اور ان سب لوگوں سے بھردوں گا جو ان انسانوں میں تیری پیروی کریں گے۔‘‘
كُلَّمَآ اُلْقِيَ فِيْهَا فَوْجٌ سَاَلَهُمْ خَزَنَــتُهَآ اَلَمْ يَاْتِكُمْ نَذِيْرٌ ¡ قَالُوْا بَلٰي قَدْ جَاۗءَنَا نَذِيْرٌ ڏ فَكَذَّبْنَا (الملک:۸،۹)’’ہر بار جب کوئی انبوہ اس میں ڈالا جائے گا، اس کے کارندے ان لوگوں سے پوچھیں گے کیا تمہارے پاس کوئی خبردار کرنے والا نہیں آیا تھا؟ وہ جواب دیں گے: ہاں ، خبردار کرنے والا ہمارے پاس آیا تھا مگر ہم نے اسے جھٹلادیا۔‘‘
لَا يُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا ۭ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ ۭ(البقرہ:۲۸۶)’’اللہ کسی متنفس پر اس کی مقدرت سے بڑھ کر ذمہ داری کا بوجھ نہیں ڈالتا۔ ہر شخص نے جو نیکی کمائی ہے، اس کا پھل اسی کے لیے ہے اور جو بدی سمیٹی ہے، اس کا وبال اسی پر ہے۔‘‘
یہ اور بہت سی دوسری آیات اس معاملہ میں بالکل صاف ہیں ۔
اب رہ گئیں احادیث، تو اُن میں بہ کثرت ایسی روایات موجود ہیں جو یا تو اُس کی صراحت کرتی ہیں کہ بچے جنت میں جائیں گے، یا اس پر دلالت کرتی ہیں کہ وہ عذابِ آخرت سے محفوظ رہیں گے۔ ان میں سب سے زیادہ مشہور وہ روایت ہے جو صحیحین میں کئی طریقوں سے آئی ہے کہ:
مامن مولود الایولد علی الفطرۃ فابواہ یھودانہ اوینصرانہ اویمجسانہ کما تنتج البھیمۃ بھیمۃ جمعاء ھل تحسون فیھا من جدعاء۔({ FR 2607 })
’’کوئی بچہ ایسا نہیں ہے جو فطرت پر پیدا نہ ہوتا ہو۔ بعد میں اس کے والدین اُسے یہودی ، نصرانی، مجوسی بنالیتے ہیں ۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ جانور کے پیٹ سے صحیح و سالم جانور پیدا ہوتا ہے۔ کیا اُن میں سے کسی کو تم کن کٹا پاتے ہو؟‘‘(یعنی ان کے کان تو بعدمیں جاہل لوگ اپنی رسموں کی وجہ سے کاٹتے ہیں ۔)
اس حدیث میں فطرت پر پیدا ہونے سے مراد اسلام پر پیدا ہونا ہے، کیوں کہ یہودیت، نصرانیت اور مجوسیت کو اس کے بالمقابل بیان کیا گیا ہے۔ نیز اس کی بعض روایتوں میں علیٰ فطرۃ الاسلام اور علیٰ ھٰذہ الملّۃ کے الفاظ وارد ہوئے ہیں جو بات کوبالکل واضح کردیتے ہیں ۔ اس سے یہ نتیجہ خود بہ خود نکلتا ہے کہ بچہ خواہ کافر ماں باپ ہی کا کیوں نہ ہو، اپنے والدین کے مذہب پر نہیں بلکہ اُس فطری مذہب پر پیدا ہوتا ہے جس کے متعلق قرآن میں فرمایا گیا ہے کہ فِطْرَتَ اللّٰهِ الَّتِيْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا ۭ لَا تَبْدِيْلَ لِخَلْقِ اللّٰهِ ۭ ذٰلِكَ الدِّيْنُ الْـقَيِّمُ ڎ (الروم:۳۰) ’’قائم ہو جائو اس فطرت پر جس پر اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو پیدا کیا ہے، اللہ کی بنائی ہوئی ساخت بدلی نہیں جاسکتی، یہی بالکل راست اور درست دین ہے۔‘‘وہ ماں کے پیٹ سے کفر لے کر نہیں آتا، بلکہ کفر، شرک، دہریت جو کچھ بھی اس کو لاحق ہوتی ہے، بعد میں اپنے ماحول سے لاحق ہوتی ہے۔ اب اگر وہ اُس عمر کو نہ پہنچا ہو جس میں یہ بیرونی اثرات اس پر پڑیں اور وہ اُن کو قبول کرکے کافر یا مشرک یادہریہ بنے تو اس کے معنیٰ یہ ہیں کہ وہ خدا کی بنائی ہوئی اُس صحیح فطرت پر دنیا سے رخصت ہوگیاجو کفر اور معصیت سے پاک ہے۔ کوئی وجہ نہیں کہ وہ اس دارالعذاب میں بھیجا جائے جو صرف کافروں اور فاسقوں ہی کے لیے بنایا گیا ہے۔
اسی مضمون سے ملتی جلتی حدیث وہ ہے جس میں نبی ﷺ اللہ تعالیٰ کایہ ارشاد نقل فرماتے ہیں کہ:
انی خلقت عبادی حنفاء کلہم وانھم اتتھم الشیاطین فاجتالتھم عن دینھم۔({ FR 2605 }) ’’میں نے اپنے سب بندوں کو حنیف پیدا کیا۔ بعد میں شیاطین آئے اور انھیں ان کے دین سے ہٹا لے گئے۔‘‘
اس حدیث کی بعض روایتوں میں حنفاء مسلمین کے الفاظ ہیں ۔ یعنی اللہ نے ان کو مسلم حنیف پیدا فرمایا تھا۔ اس سے بھی یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جو انسان شیطانی گم راہیوں کو اخذ اور اختیار کرنے سے پہلے مرجائیں وہ اسی حنیفیت کے عالم میں مرتے ہیں ، جو اُن کا پیدائشی دین ہے اور ان کے عذابِ آخرت میں مبتلا ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہوسکتی۔
اس کے بعد وہ احادیث ملاحظہ ہوں جن میں صراحت ہے کہ کافرو مومن سب کے بچے جنت میں جائیں گے۔ اس معنی میں سب سے زیادہ معتبر وہ حدیث ہے جو امام بخاری نے کتاب التعبیر اور کتاب الجنائز میں حضرت سَمُرہ بن جُندُب سے نقل کی ہے۔ اس میں وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک روز صبح کی نماز کے بعد حضوؐر نے اپنا ایک طویل خواب سنایا جو آپ نے رات کے وقت دیکھا تھا۔ اس خواب میں حضوؐر کو عذاب اور ثواب کے بہت سے مناظر دکھائے گئے تھے، اور ایک جگہ جنت میں آپ کی ملاقات ایک طویل القامت بزرگ سے ہوئی تھی، جن کے گردوپیش بہت سے بچے (اولاد الناس) تھے۔ سیرکرانے والے فرشتے (جبریل) نے آپ کو بتایا کہ یہبزرگ ابراہیم علیہ السلام ہیں ۔ واما الوالدان الذین حولہ فکل مولودمات علی الفطرۃ ۔ ’’رہے یہ بچے جو ان کے گردو پیش ہیں ، تو ان میں ہر وہ بچہ شامل ہے جو فطرت پر مرا ہے۔‘‘ اس کی تشریح چاہتے ہوئے حاضرین میں سے ایک صاحب نے سوال کیا واولاد المشرکین؟ ’’ہاں مشرکین کے بچے بھی۔‘‘({ FR 2608 })
اس کی تائید اس روایت سے بھی ہوتی ہے جو مسند احمد میں خَنْساء بنت معاویہ بن حریم سے مروی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ میری پھوپھی نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا: من فی الجنۃ؟ ’’جنتی کون ہے؟‘‘ حضوؐر نے فرمایا: النبی فی الجنۃ، والشہید فی الجنۃ والمولود فی الجنۃ ({ FR 2609 })’’نبی جنتی ہے، شہید جنتی ہے، بچہ جنتی ہے۔‘‘
بعض علماء نے اس سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ قرآن مجید میں جن کو غِلْمَانٌ اور وِلْدَانٌ مُّخَلَّدُوْنَ (ہمیشہ حالتِ طفلی ہی میں رہنے والے لڑکے) کہا گیا ہے وہ یہی بچے ہوں گے۔یہ بات بہت قرینِ قیاس معلوم ہوتی ہے اور بعید نہیں کہ اس کی صورت یہ ہو کہ جن بچوں کے والدین جنتی نہ ہوں وہ اہلِ جنت کے دائمی و ابدی خادم بنادیے جائیں ، واللہ اعلم بالصواب۔
اس بات کو اصل قرار دینے کے بعد دوسری تمام احادیث کی یا تو اس کے مطابق تاویل کی جائے گی۔ یا پھر اُن کے بارے میں توقف کیا جائے گا۔ ہوسکتا ہے کہ وہ اپنی جگہ صحیح ہوں مگر ان کے کوئی ایسے معنی ہوں جو روایت کردہ الفاظ سے پوری طرح ظاہر نہ ہورہے ہوں ۔ (ترجمان القرآن، ستمبر۱۹۵۷ء)