فاضل جج کا ارشاد ہے کہ زیادہ سے زیادہ جو فائدہ حضورﷺ کے اقوال وافعال اور کردار سے اُٹھایا جا سکتا ہے وہ صرف یہ ہے کہ ان سے ’’یہ معلوم کرنے میں مدد لی جا سکتی ہے کہ مخصوص حالات میں قرآن کی تعبیر کس طرح کی گئی تھی، یا ایک خاص معاملے میں قرآن کے عام اصولوں کو کس طر ح منطبق کیا گیا تھا۔‘‘ یہ ارشاد پڑھنے والے کو یہ تاثر دیتا ہے کہ موصوف کے نزدیک حضورﷺ کی راہ نُمائی دُنیا بھر کے لیے اور ہمیشہ کے لیے نہیں تھی بلکہ اپنے زمانے کی ایک مخصوص سوسائٹی کے لیے تھی۔ یہی تاثر ان کے یہ الفاظ بھی دیتے ہیں کہ ’’ایک فرد واحد کے زمانۂ حیات کا تجربہ واقعات کی ایک محدود تعداد سے زیادہ کے لیے نظائر فراہم نہیں کر سکتا۔‘‘
اس مسئلے پر چوں کہ انھوں نے اپنا نقطۂ نظر پوری طرح واضح نہیں کیا ہے اس لیے اس پر مفصل بحث تو نہیں کی جا سکتی، لیکن مجملًا جو تاثراُن کے یہ الفاظ دے رہے ہیں، اس کے بارے میں چند کلمات عرض کرنا ہم ضروری سمجھتے ہیں۔
قرآن مجید اس بات پر شاہد ہے کہ جس طرح وہ خود ایک خاص زمانے میں، ایک خاص قوم کو خطاب کرنے کے باوجود ایک عالمگیر اور دائمی ہدایت ہے، اسی طرح اس کا لانے والا رسولﷺ بھی ایک معاشرے کے اندر چند سال تک فرائضِ رسالت انجام دینے کے باوجود تمام انسانوں کے لیے ابد تک ہادی وراہ نُما ہے۔ جس طرح قرآن کے متعلق یہ فرمایا گیا ہے:
٭ وَاُوْحِيَ اِلَيَّ ہٰذَا الْقُرْاٰنُ لِاُنْذِرَكُمْ بِہٖ وَمَنْۢ بَلَغَ۰ۭ الانعام 19:6
اور یہ قرآن میری طرف وحی کیا گیا ہے تاکہ میں اس کے ذریعے سے متنبہ کروں تم کو اور جس جس کو بھی یہ پہنچے۔
ٹھیک اسی طرح قرآن کے لانے والے رسولﷺ کے متعلق بھی یہ فرمایا گیا ہے کہ:
۲۔ قُلْ يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اِنِّىْ رَسُوْلُ اللہِ اِلَيْكُمْ جَمِيْعَۨا الاعراف158:7
(اے محمدﷺ) کہہ دو کہ اے انسانو! میں تم سب کی طرف اللّٰہ کا رسول ہوں۔
۳۔ وَمَآ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا كَاۗفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِيْرًا وَّنَذِيْرًا سبا 28:34
اور (اے محمدﷺ!) نہیں بھیجا ہم نے تم کو مگر تمام انسانوں کی طرف بشارت دینے والا اور متنبہ کرنے والا بنا کر۔
۴۔ مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَلٰكِنْ رَّسُوْلَ اللہِ وَخَاتَمَ النَّـبِيّٖنَ۰ۭ
الاحزاب 40:33
محمدﷺ تمھارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں، مگر وہ اللّٰہ کے رسولؐ اور نبیوں کے خاتم ہیں۔
اس لحاظ سے قرآن اور محمد رسول اللّٰہ ﷺ کی راہ نُمائی میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اگر وقتی اور محدود ہیں تو دونوں ہیں، اگردائمی اور عالمگیر ہیں تو دونوں ہیں۔ آخرکون نہیں جانتا کہ قرآن کا نزول ۶۱۰ئمیں شروع ہوا تھا اور ۶۳۲ ء میں اس کا سلسلہ ختم ہو گیا۔ آخر کس سے یہ بات چھپی ہوئی ہے کہ اس قرآن کے مخاطب اس زمانے کے اہل عرب تھے اور انھی کے حالات کو سامنے رکھ کر اس میں ہدایات دی گئی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ پھر کس بِنا پر ہم ان ہدایات کو ہمیشہ کے لیے اورتمام انسانوں کے لیے راہ نُمائی کا سرچشمہ مانتے ہیں؟ جو جواب اس سوال کا ہے، بعینہٖ وہی جواب اس سوال کا بھی ہے کہ ایک فرد واحد کی پیغمبرانہ زندگی جو ساتویں صدی عیسوی میں صرف ۲۲ شمسی سالوں تک بسر ہوئی تھی، اس کا تجربہ تمام زمانوں اور تمام انسانوں کے لیے راہ نُمائی کا ذریعہ کیسے بن سکتا ہے۔ یہاں اس تفصیل کا موقع نہیں ہے کہ ہدایت کے یہ دونوں ذریعے زمان ومکان سے محدود ہونے کے باوجود کس کس طرح ابدی اورعالمگیر راہ نُمائی فراہم کرتے ہیں۔ ہم یہاں صرف یہ معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ جو لوگ قرآن کی عالمگیری اورابدیت کے قائل ہیں وہ خدا کی کتاب اور خدا کے رسول کے درمیان فرق کس بنیاد پر کرتے ہیں؟ آخر کس دلیل سے ایک کی راہ نُمائی عام ہے اور دوسرے کی راہ نُمائی محدود ومخصوص؟