دوسری بات کے متعلق ہم عرض کریں گے کہ وصیت کے متعلق جن احادیث کو فاضل جج قرآن میں ترمیم کا ہم معنی قرار دے رہے ہیں، ان کو اگر سورۂ نسا کے احکامِ میراث کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان میں حکمِ قرآن کی ترمیم نہیں بلکہ توضیح کی گئی ہے۔ اس سورہ کے دوسرے رکوع میں چند رشتہ داروں کے حصے مقرر کرنے کے بعد فرمایا گیا ہے کہ یہ حصے مورث کی وصیت پوری کرنے کے بعد اور اس کا قرض ادا کرنے کے بعد نکالے جائیں۔ اب اگر فرض کیجیے کہ ایک شخص یہ وصیت کرے کہ کسی وارث کو قرآن کے مقرر کردہ حصے سے کم دیا جائے، اور کسی کو اس سے زیادہ دیا جائے، اور کسی کو کچھ نہ دیا جائے، تو دراصل وہ وصیت کے ذریعے سے قرآن کے حکم میں ترمیم کا مرتکب ہو گا۔ اس لیے نبی ﷺ نے فرمایا کہ:
لَاوَصِیَّۃَ لِوَارِثٍ۔
وارث کے بارے میں کوئی وصیت نہیں کی جا سکتی۔
یعنی اس کا جو حصہ قرآن میں مقرر کر دیا گیا ہے، اسے وصیت کے ذریعے سے نہ ساقط کیا جا سکتا ہے، نہ گھٹایا جا سکتا ہے، نہ بڑھایا جا سکتا ہے، بلکہ لازمًا قرآن ہی کے مطابق وارثوں میں ترکہ تقسیم کرنا ہو گا، البتہ غیر وارث لوگوں کے حق میں، یا اجتماعی مفاد کے لیے یا راہ خدا میں صرف کرنے کے لیے ایک شخص وصیت کر سکتا ہے لیکن اس صورت میں یہ امکان بھی تھا کہ ایک شخص کسی وجہ سے اپنا تمام مال یا اس کا بڑا حصہ غیر وارثوں ہی کو دے دینے کی وصیت کر بیٹھے اور وارثوں کو محروم کر دے۔ اس لیے حضورﷺ نے مورث کے اختیارات پرایک اور پابندی یہ عائد کر دی کہ وہ صرف ۳/۱ مال کی حد تک ہی وصیت کر سکتا ہے، باقی ۳/۲ لازمًا اسے ان حق داروں کے لیے چھوڑنا ہو گا جن کو قرآن نے قریب ترین حق دار قرار دیا ہے اور تنبیہ کر دی ہے کہ:
لَا تَدْرُوْنَ اَيُّھُمْ اَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا۰ۭ النساء11:4
تم نہیں جانتے کہ تمھارے ماں باپ اور تمھاری اولاد میں سے کون بلحاظِ نفع تم سے قریب تر ہے۔
قرآنی حکم پر عمل کرنے کے لیے یہ قواعد وضوابط جو قرآن کے لانے والے رسولﷺ نے بنا دئیے ہیں، ان کو اچھی طرح سمجھ کر ہمیں بتایا جائے کہ آخر کس معقول دلیل سے ان کو ’’ترمیم‘‘ کی تعریف میں لایا جا سکتا ہے۔ اس طرح کی باتیں کرنے سے پہلے آخر کچھ تو سوچنا چاہیے کہ قرآن مجید کے احکام کی توضیح وتشریح اگر اس کا لانے والا ہی نہ کرے گا تو اور کون کرے گا اور اگر یہ تشریح اس وقت نہ کر دی جاتی تو وصیت کے اختیارات استعمال کرنے میں لوگ قرآن کے قانونِ وراثت کا کس طرح حلیہ بگاڑ کر رکھ دیتے۔ پھر اس سے بھی عجیب تر بات یہ ہے کہ اس صحیح تشریح کو تو فاضل جج ’’ترمیم‘‘ قرار دیتے ہیں، لیکن خود اپنے اسی فیصلے میں انھوں نے بطور نمونہ قرآن کے تین احکام کی جومجتہدانہ تعبیریں فرمائی ہیں ان کے متعلق وہ بالکل محسوس نہیں فرماتے کہ دراصل ترمیم کی تعریف میں تو ان کی اپنی یہ تعبیرات آتی ہیں۔
٭…٭…٭…٭…٭