اب ہمیں فاضل جج کے آخری دو نکتوں کو لینا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ آج کے عربوں کا حافظہ جیسا کچھ قوی ہے، پہلی صدی ہجری کے عربوں کا حافظہ بھی اتنا ہی قوی ہو گا۔ تاہم اسے خواہ کتنا ہی قوی مان لیا جائے، کیا صرف حافظے سے نقل کی ہوئی باتیں قابل اعتماد سمجھی جا سکتی ہیں؟ پھر ان کا ارشاد ہے کہ ’’ایک ذہن سے دوسرے ذہن تک پہنچتے پہنچتے بات کچھ سے کچھ ہو جاتی ہے اور ہر ذہن کے اپنے خیالات اور تعصبات اس کو موڑتے توڑتے چلے جاتے ہیں۔‘‘ یہ دو مزید وجہیں ہیں جن کی بِنا پر وہ احادیث کو اعتماد واسناد کے قابل نہیں سمجھتے۔
جہاں تک پہلی بات کا تعلق ہے وہ تجربے اورمشاہدے کے خلاف ہے۔ تجربے سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ آدمی اپنی جس قوت سے زیادہ کام لیتا ہے، وہ ترقی کرتی ہے اور جس سے کم کام لیتا ہے وہ کم زور ہوجاتی ہے۔ یہ بات جس طرح تمام انسانی قوتوں کے معاملے میں صحیح ہے، حافظے کے بارے میں بھی صحیح ہے۔ اہل عرب نبی ﷺ سے پہلے ہزاروں برس سے اپنا کام تحریر کے بجائے یاد اور حافظے سے چلانے کے خوگر تھے۔ ان کے تاجر لاکھوں روپے کا لین دین کرتے تھے اور کوئی لکھا پڑھی نہ ہوتی تھی۔ پائی پائی کا حساب، اور بیسیوں گاہکوں کا تفصیلی حساب وہ نوکِ زبان پررکھتے تھے۔ ان کی قبائلی زندگی میں نسب اور خونی رشتوں کی بڑی اہمیت تھی۔ وہ سب کچھ بھی حافظے میں محفوظ رہتا اور زبانی روایت سے ایک نسل کے بعد دوسری نسل تک پہنچتا تھا۔ ان کا سارا لٹریچربھی کاغذ پر نہیں، بلکہ لوحِ قلب پر لکھا ہوا تھا۔ ان کی یہی عادت تحریر کا رواج ہو جانے کے بعد بھی تقریباً ایک صدی تک جاری رہی۔ اس لیے کہ قومی عادتیں بدلتے بدلتے ہی بدلتی ہیں۔ وہ کاغذ کی تحریر پر اعتماد کرنے کے بجائے اپنے حافظے پراعتماد کرنا زیادہ پسند کرتے تھے۔ انھیں اس پر فخر تھا، اور ان کی نگاہ سے وہ شخص گر جاتا تھا جس سے کوئی بات پوچھی جائے اور وہ زبانی بتانے کے بجائے گھر سے کتاب لا کر اس کا جواب دے۔ ایک مدت دراز تک وہ لکھنے کے باوجود یاد کرتے تھے اور تحریر پڑھ کر سنانے کے بجائے نوکِ زبان سے سنانا نہ صرف باعث عزت سمجھتے تھے، بلکہ ان کے نزدیک آدمی کے علم پر اعتماد بھی اسی طریقے سے قائم ہوتا تھا۔
کوئی وجہ نہیں کہ حافظے کی یہ کیفیت آج کے عربوں میں باقی رہے۔ صدیوں سے کتابت پراعتماد کرتے رہنے اور حافظے سے کام کم لینے کے باعث اب کسی طرح بھی یہ ممکن نہیں ہے کہ ان کی یاد داشت قدیم عربوں کی سی رہ جائے لیکن عربوں اور غیر عربوں، سب میں آج بھی اس امر کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے کہ ان پڑھ لوگ اور اندھے آدمی پڑھے لکھے اور بینا انسانوں کی بہ نسبت زیادہ یادداشت رکھتے ہیں۔ ناخواندہ تاجروں میں بکثرت لوگ ایسے دیکھے جاتے ہیں جنھیں بہت سے گاہکوں کے ساتھ اپنا ہزارہا روپے کا لین دین پوری تفصیل کے ساتھ یاد رہتا ہے۔ بے شمار اندھے ایسے موجود ہیں جن کی قوت حافظہ آدمی کو حیرت میں ڈال دیتی ہے۔ یہ اس بات کا قطعی ثبوت ہے کہ تحریر پر اعتماد کر لینے کے بعد ایک قوم کے حافظے کی وہ حالت باقی نہیں رہ سکتی جو ناخواندگی کے دور میں اس کی تھی۔