پھر نکتہ نمبر۴ کے آخر میں فاضل جج کا یہ ارشاد کہ ’’احادیث نہ یاد کی گئیں، نہ محفوظ کی گئیں، بلکہ وہ ان لوگوں کے ذہنوں میں چھپی پڑی رہیں جو اتفاقاً کبھی دوسروں کے سامنے ان کا ذکر کرکے مرگئے یہاں تک کہ ان کی وفات کے کئی سو برس بعد ان کو جمع اور مرتب کیا گیا‘‘ یہ نہ صرف واقعہ کے خلاف ہے، بلکہ درحقیقت یہ نبی ﷺ کی شخصیت کا اور آپ کے ساتھ ابتدائی دور کے مسلمانوں کی عقیدت کا بہت ہی حقیر اندازہ ہے۔ واقعات سے قطع نظر ایک شخص محض اپنی عقل ہی پر زور ڈال کر صحیح صورت حال کا تصور کرے تو وہ کبھی یہ باور نہیں کر سکتا کہ جس عظیم الشان شخصیت نے عرب کے لوگوں کو اخلاق وتہذیب اور عقائد واعمال کی انتہائی پستیوں سے نکال کر بلند ترین مقام تک پہنچا دیا تھا، اس کی باتوں اور اس کے کاموں کو وہی لوگ اس قدر ناقابل التفات سمجھتے تھے کہ انھوں نے اس کی کوئی بات یاد رکھنے کی کوشش نہ کی، نہ دوسروں کے سامنے اتفاقاً ذکر آ جانے سے بڑھ کر کبھی اس کا چرچا کیا، نہ بعد کی آنے والی نسلوں نے اس کو کوئی اہمیت دی کہ اس کے دیکھنے والوں سے کبھی اس کے حالات پوچھتے۔ ایک معمولی لیڈر تک سے جس کسی کو شرفِ صحبت نصیب ہو جاتا ہے تو وہ اس سے اپنی ملاقاتوں کی ایک ایک بات یاد رکھتا ہے اور دوسروں کے سامنے اس کا ذکر کرتا ہے اور اس کے مرنے کے بعد نئی آنے والی نسلوں کے لوگ جا جا کر اس کے ملنے والوں سے اس کے حالات دریافت کرتے ہیں۔ آخر جسٹس محمد شفیع صاحب نے رسول اللّٰہﷺ کو کیا سمجھ لیا ہے کہ حضورﷺ کو آپﷺ کے ہم عصر اور آپﷺ سے متصل زمانے کے لوگ اتنے التفات کا بھی مستحق نہ سمجھتے تھے؟
اب ذرا اصل صورت واقعہ ملاحظہ فرمائیے۔ رسول اللّٰہ ﷺ صحابہ کرامؓ کے لیے ایک ایسے پیشوا تھے جن سے وہ ہر وقت عقائد اور عبادات اور اخلاق اور تہذیب وشائستگی کا سبق حاصل کرتے تھے۔ آپﷺ کی زندگی کے ایک ایک رخ اور ایک ایک پہلو کو دیکھ کر وہ پاکیزہ انسانوں کی طرح رہنا سیکھتے تھے۔ ان کو معلوم تھا کہ آپﷺ کی بعثت سے پہلے ہم کیا تھے اور آپﷺ نے ہمیں کیا کچھ بنا دیا ہے۔ ان کے لیے ہر پیش آنے والے مسئلے میں مفتی بھی آپﷺ ہی تھے اور قاضی بھی آپﷺ۔ آپﷺ ہی کی قیادت میں وہ لڑتے بھی تھے اور صلح بھی کرتے تھے۔ ان کو تجربہ تھا کہ اس قیادت کی پیروی میں ہم کہاں سے چلے تھے اور بالآخر کہاں پہنچ کر رہے۔ اس بِنا پر وہ آ پﷺ کی ایک ایک بات کو یاد رکھتے تھے جو قریب رہتے تھے وہ بالالتزام آپﷺ کی صحبتوں میں بیٹھتے تھے، جنھیں کسی وقت آپ کی مجلس سے غیر حاضر رہنا ہوتا تو وہ دوسروں سے پوچھ کر معلوم کرتے تھے کہ آج آپﷺ نے کیا کیا اور کیا کہا۔ دور دور سے آنے والے لوگ اپنے اوقات کو جو آپﷺ کے ساتھ بسر ہو جاتے تھے، اپنا حاصل زندگی سمجھتے تھے اور عمر بھر ان کی یاد دل سے نہ نکلتی تھی جنھیں حاضر ہونے کا موقع نصیب نہ ہوتا تھا، وہ ہر اس شخص کے گرد اکٹھے ہو جاتے جو آپﷺ سے مل کر آتا تھا اور کرید کرید کر ایک ایک بات اس سے پوچھتے تھے جنھوں نے آپﷺ کو دور سے کبھی دیکھا تھا، یا کسی بڑے مجمعے میں صرف آپﷺ کی تقریر سن لی تھی وہ جیتے جی اس موقع کو نہ بھولتے تھے اور فخریہ اپنے اس شرف کو بیان کرتے تھے کہ ہماری آنکھوں نے محمد رسول اللّٰہ ﷺ کو دیکھا ہے اور ہمارے کان آپﷺ کی تقریر سن چکے ہیں۔ پھر حضورﷺ کے بعد جو نسلیں پیدا ہوئیں، ان کے لیے تو دُنیا میں سب سے اہم اگر کوئی چیز تھی تو وہ اس رسولِ عظیم کی سیرت تھی جس کی قیادت کے معجزے نے عرب کے شتربانوں کو اُٹھا کر سندھ سے اسپین تک کا فرماں روا بنا دیا تھا۔ وہ ایک ایک ایسے شخص کے پاس پہنچتے تھے جس نے آپﷺ کی صحبت پائی تھی، یا آپﷺ کو کبھی دیکھا تھا، یا آپﷺ کی کوئی تقریر سنی تھی اور جوں جوں صحابہؓ دُنیا سے اٹھتے چلے گئے، یہ اشتیاق بڑھتا گیا، حتّٰی کہ تابعین کے گروہ نے وہ سارا علم نچوڑ لیا جو سیرت پاکﷺ کے متعلق صحابہؓ سے ان کو مل سکتا تھا۔