Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

عرضِ ناشر
شہادتِ حق اُمّتِ مُسلمہ کا فرض اور مقصدِ وجود
اجتماعات کا حصہ
ہماری دعوت
مسلمانوں کی ذِمّہ داریاں
اُمّتِ مسلمہ کا مقصدِ وجود
شہادتِ حق
شہادت کی اہمیت
اُمّت پر اِتمامِ حجت
کوتاہی پر مواخذہ
طریقۂ شہادت
قولی شہادت
عملی شہادت
تکمیلِ شہادت
ہماری قولی شہادت کا جائزہ
ہماری عملی شہادت کا جائزہ
کِتمانِ حق کی سزا
آخرت کی پکڑ
مسلمانوں کے مسائل و حقوق اور اس کا حل
اصل مسئلہ
ہمارا مقصد
ہمارا طریقۂ کار
نظمِ جماعت
کام کے تین راستے
مختلف دینی جماعتیں
شرکاسے ہمارا مطالبہ
مطلوب کام
اعتراضات اور ان کے جوابات
نیافرقہ
اجتہادی مسائل میں ہمارا مسلک
غلو سے پرہیز
امارت میں غلو
اُصولی تحریک
انتخابِ امیر
علیحدہ جماعت بنانے کی ضرورت
امیر یا لیڈر
اسلام کا مزاج
وصولیٔ زکوٰۃ کا حق
بیت المال

شہادتِ حق

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

کِتمانِ حق کی سزا

یہ کتمانِ حق اور یہ شہادتِ زُور جس کا ارتکاب ہم کر رہے ہیں، اس کا انجام بھی ہمیں وہی کچھ دیکھنا پڑا ہے جو ایسے سخت جرم کے لیے، قانونِ الٰہی میں مقرر ہے۔ جب کوئی قوم خدا کی نعمت کو ٹھکراتی ہے اور اپنے خالق سے غداری کرتی ہے تو خدا، دُنیا میں بھی اُسے عذاب دیتا ہے اور آخرت میں بھی۔ یہودیوں کے معاملے میں خدا کی یہ سنت پوری ہو چکی ہے اور اب ہم مجرموں کے کٹہرے میں کھڑے ہیں۔ خدا کو یہود سے کوئی ذاتی پَرخاش نہ تھی کہ وہ صرف اِنھی کو اِس جرم کی سزا دیتا، اور ہمارے ساتھ اُس کی کوئی رشتہ داری ہے کہ ہم اِسی جرم کا ارتکاب کریں اور سزا سے بچ جائیں۔
حقیقت یہ ہے کہ ہم حق کی شہادت دینے میں جتنی جتنی کوتاہی کرتے گئے ہیں اور باطل کی شہادت ادا کرنے میں، ہمارا قدم جس رفتار سے آگے بڑھا ہے، ٹھیک اُسی رفتار سے ہم گرتے چلے گئے ہیں۔ پچھلی ایک ہی صدی کے اندر، مراکش سے لے کر شرق الہند تک، ملک کے ملک ہمارے ہاتھ سے نکل گئے۔ مسلمان قومیں ایک ایک کرکے مغلوب اور محکوم ہوتی چلی گئیں۔ مسلمان کا نام فخرو عزت کا نام نہ رہا، بلکہ ذلت و مسکنت اور پس ماندگی کا نشان بن گیا۔ دنیا میں ہماری کوئی آبرو باقی نہ رہی ۔ کہیں ہمارا قتلِ عام ہوا، کہیں ہم گھر سے بے گھر کیے گئے، کہیں ہمیں سوء العذاب کا مزہ چکھایا گیا اور کہیں ہمیں چاکری اور خدمت گاری کے لیے زندہ رکھا گیا۔ جہاں مسلمانوں کی اپنی حکومتیں باقی رہ گئیں وہاں بھی انھوں نے شکستوں پر شکستیں کھائیں اور آج اُن کا حال یہ ہے کہ بیرونی طاقتوں کے خوف سے لرز رہے ہیں۔ حالانکہ اگر وہ اسلام کی قولی و عملی شہادت دینے والے ہوتے، تو کفر کے علم برداران اُن کے خوف سے کانپ رہے ہوتے۔
دُور کیوں جائیے۔ خود ہندستان میں اپنی حالت دیکھ لیجیے۱؎۔ ادائے شہادت میں جو کوتاہی آپ نے کی، بلکہ الٹی خلافِ حق شہادت جو آپ اپنے قول و عمل سے دیتے رہے، اسی کا تو نتیجہ یہ ہوا کہ ملک کا ملک آپ کے ہاتھ سے نکل گیا۔ پہلے مرہٹوں اور سکھوں کے ہاتھوں آپ پامال ہوئے۔ پھر انگریز کی غلامی آپ کو نصیب ہوئی اور اب پچھلی پامالیوں سے بڑھ کر پامالیاں، آپ کے سامنے آرہی ہیں۔ آج آپ کے سامنے سب سے بڑا سوال اکثریت و اقلیت کا ہے اور آپ اس اندیشے سے کانپ رہے ہیں کہ کہیں ہندو اکثریت آپ کو اپنا محکوم نہ بنا لے اور آپ وہ انجام نہ دیکھیں جو شودر قومیں دیکھ چکی ہیں، مگر خدارا، مجھے بتائیے کہ اگر آپ اسلام کے سچے گواہ ہوتے تو یہاں کوئی اکثریت ایسی ہو سکتی تھی جس سے آپ کو کوئی خطرہ ہوتا؟ یا آج بھی اگر آپ قول اور عمل سے اسلام کی گواہی دینے والے بن جائیں تو کیا یہ اقلیت و اکثریت کا سوال، چند سال کے اندر ہی ختم نہ ہو جائے؟ عرب میں ایک فی لاکھ کی اقلیت کو نہایت متعصب اور ظالم اکثریت نے، دنیا سے نیست و نابود کر دینے کی ٹھانی تھی، مگر اسلام کی سچی گواہی نے دس سال کے اندر، اسی اقلیت کو سو(۱۰۰) فی صدی اکثریت میں تبدیل کر دیا۔ پھر جب یہ اسلام کے گواہ، عرب سے باہر نکلے تو پچیس سال کے اندر، ترکستان سے لے کر مراکش تک، قومیں کی قومیں ان کی شہادت پر ایمان لاتی چلی گئیں۔ جہاں سو(۱۰۰) فی صدی مجوسی، بت پرست اور عیسائی رہتے تھے، وہاں سو (۱۰۰)فی صد مسلمان بسنے لگے۔ کوئی ہٹ دھرمی، کوئی قومی عصبیت اور کوئی مذہبی تنگ نظری، اتنی سخت ثابت نہ ہوئی کہ حق کی زندہ اور سچی شہادت کے آگے قدم جما سکتی۔ اب آپ اگرپامال ہو رہے ہیں اور اپنے آپ کو اس سے شدید پامالی کے خطرے میں مبتلا پاتے ہیں تو یہ کتمانِ حق اور شہادتِ زُور کی سزا کے سوا اور کیا ہے۔

شیئر کریں