جو لوگ اس بات کو بھی سمجھ لیتے ہیں اور اس فہم سے اُن کے اندر مسلمان ہونے کی ذِمّہ داری کا احساس، اس حد تک قوی ہو جاتا ہے کہ اپنے دین کی خاطر اپنی انفرادیت اور خود پرستی کو قربان کرکے، جماعتی نظم کی پابندی قبول کر لیں، ان سے ہم کہتے ہیں کہ اب تمھارے سامنے تین راستے ہیں اور تمھیں پوری آزادی ہے، ان میں سے جسے چاہو اختیار کر و:
٭ اگر تمھارا دل گواہی دے کہ ہماری دعوت، عقیدہ، نصب العین، نظامِ جماعت اور طریقِ کار، سب کچھ خالص اسلامی ہے اور ہم وہی کام کرنے اُٹھے ہیںجو قرآن و حدیث کی رُو سے امتِ مسلمہ کا اصل کام ہے تو ہمارے ساتھ آجائو۔
٭ اگر کسی وجہ سے تمھیں ہم پر اطمینان نہ ہو، اور کوئی دُوسری جماعت تمھیں ایسی نظر آتی ہے جو خالص اسلامی نصب العین کے لیے، اسلامی طریق پر کام کر رہی ہو، تو اس میں شامل ہو جائو۔ ہم خود بھی ایسی جماعت پاتے، تو اسی میں شامل ہو جاتے کیوں کہ ہمیں ڈیڑھ اینٹ کی مسجدالگ چننے کا شوق نہیں ہے۔
٭ اگر تمھیں نہ ہم پر اطمینان ہے، نہ کسی دُوسری جماعت پر، تو پھر تمھیں اپنے فرضِ اسلامی کو ادا کرنے کے لیے خود اٹھنا چاہیے اور اسلامی طریق پر ایک ایسی جماعت بنانی چاہیے جس کا مقصد، پورے دین کو قائم کرنا اور قول و عمل سے اس کی شہادت دینا ہو۔
ان تینوں صورتوں میں سے جو صورت بھی تم اختیار کرو گے، اِن شاء اللہ حق پر ہو گے۔ ہم نے کبھی یہ دعوٰی نہیں کیا اور نہ بسلامتیِ ہوش و حواس ہم یہ دعوٰی کر سکتے ہیں کہ صرف ہماری ہی جماعت حق پر ہے اور جو ہماری جماعت میں نہیں ہے، وہ باطل پر ہے۔ ہم نے کبھی لوگوں کو اپنی جماعت کی طرف دعوت نہیں دی ہے۔ ہماری دعوت تو صرف اُس فرض کی طرف ہے جو مسلمان ہونے کی حیثیت سے، ہم پر اور آپ پر یکساں عائد ہوتا ہے۔ اگر آپ اسے ادا کر رہے ہیں ، برحق ہیں، خواہ ہمارے ساتھ مل کر کام کریں یا نہ کریں۔ البتہ یہ بات کسی طرح درست نہیں ہے کہ آپ نہ خود اٹھیں، نہ کسی اٹھنے والے کا ساتھ دیں، اور طرح طرح کے حیلے اور بہانے کر کے، اقامتِ دین اور شہادت علی الناس کے فریضے سے جی چرائیں، یا ان کاموں میںاپنی قوتیں خرچ کریں، جن سے دین کے بجائے، کوئی دُوسرا نظام قائم ہوتا ہو، اور اسلام کے بجائے کسی اور چیز کی گواہی، آپ کے قول و عمل سے ملے۔ معاملہ، دُنیا اور اس کے لوگوں سے ہوتا تو حیلوں اور بہانوں سے کام چل سکتا تھا، مگر یہاں تو اس خدا کے ساتھ معاملہ ہے جو علیم بذات الصدور ہے۔ اسے کسی چال بازی سے دھوکا نہیں دیا جا سکتا۔