مخدوم ومحترم مولانا! دام ظلکم
السلام علیکم۔ دستوری تدوین کے اس فیصلہ کن مرحلے پر ہر سچے مسلمان کی دینی امنگوں کا بنیادی تقاضا یہ ہے کہ پاکستان کا آئین اِسلام کی مستقل اقدار کی اساس پر ترتیب وتکمیل پائے۔ اس سلسلے میں آئین کمیشن کے سوالنامے کے جواب میں آپ اور دیگر حضرات کرام کا یہ متفقہ مطالبہ بھی سامنے آیا ہے کہ آئین پاکستان کی بنیاد ’’کتاب وسُنّت‘‘ پر ہونی چاہیے۔ مجھے نہ تو ’’سُنّت‘‘ کی حقیقی اہمیت سے مجال انکار ہے اور نہ اس کی اس اہمیت کو ختم کرنا مقصود، لیکن جب اِسلامی آئین کی اساس کے طور پر سُنّت کا ذکر کیا جاتا ہے تو ایک اشکال ذہن میں لازمًا پیدا ہوتا ہے اور اس سے جو سوال ابھرتے ہیں، میں انھیں آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ آپ اوّلین فرصت میں اس اشکال کا حل تحریر فرمائیں گے۔ سوالات حسب ذیل ہیں:
۱۔ آپ کے نزدیک سُنّت سے کیا مراد ہے؟ یعنی جس طرح کتاب سے مراد قرآن مجید ہے اسی طرح سُنّت (یعنی سُنّت رسول اللّٰہ a) سے کیا مراد ہے؟
۲۔ کیا (قرآن کی طرح) ہمارے ہاں ایسی کوئی کتاب موجود ہے جس میں سُنّت رسول اللّٰہa مرتب شکل میں موجود ہو؟ یعنی قرآن کی طرح اس کی کوئی جامع و مانع کتاب ہے؟
۳۔ کیا سُنّت رسول اللّٰہa کی اس کتاب کا متن تمام مسلمانوں کے نزدیک اسی طرح متفق علیہ ہے اور شک وتنقید سے بالاتر ہے جس طرح قرآن کا متن؟
۴۔ اگر کوئی ایسی کتاب موجود نہیں تو پھر جس طرح یہ بآسانی معلوم کیا جا سکتا ہے کہ فلاں فقرہ قرآن مجید کی آیت ہے اسی طرح یہ کیوں کر معلوم کیا جائے گا کہ فلاں بات سُنّت رسول اللّٰہa ہے یا نہیں۔
میں آپ کو یقین دلا دوں کہ جہاں تک اِسلامی آئین کی ضرورت کا تعلق ہے میں قلب ونظر کی پوری ہم آہنگی سے اسے ایک مسلمان کی زندگی کا نصب العین قرار دیتا ہوں۔ میری ان مخلصانہ گزارشات کا مقصد یہ ہے کہ اِسلامی آئین کا مطالبہ کرتے ہوئے اِسلام پسند ذہنوں میں اس کا ایک واضح، متفق علیہ اور ممکن العمل تصور موجود ہو، تاکہ ملک کا لادینی ذہن جو پوری شدت سے اِسلامی آئین کے خلاف مصروفِ کار ہے، اس کا مقابلہ کرنے کے لیے اِسلام پسند عناصر میں انتشار کی صورت پیدا نہ کر سکے۔ چوں کہ آئین کے سلسلے میں عام لوگوں کے ذہن میں ایک پریشانی سی پائی جاتی ہے، اس لیے اگر عوام کی آگاہی کے لیے آپ کے موصولہ جواب کو شائع کر دیا جائے تو مجھے امید ہے کہ آپ کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔
والسلام
نیاز آگیں: عبدالودود