مولانائے محترم! زید مجدکم
السلام علیکم۔ گرامی نامہ ملا جس کے لیے میں آپ کا شکر گزار ہوں۔ مجھے اس کا علم ہے کہ اس قسم کے سوالات اس سے پہلے بھی کئی گوشوں سے کیے گئے ہیں۔ لیکن مجھے خاص طور پر استفسار کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ میری نظر سے ان سوالات کے ایسے جوابات آج تک نہیں گزرے جو متعین اور واضح ہوں۔
آپ نے اپنے جن مضامین کی نشاندہی فرمائی ہے، میں نے انھیں دیکھا ہے لیکن مجھے بڑے افسوس سے یہ عرض کرنے دیجیے کہ ان سے بھی میرے سوالات کا متعین جواب نہیں مل سکا بلکہ ان سے میری الجھن بڑھ گئی ہے، اس لیے کہ ان میں کئی باتیں ایسی ہیں جو آپ کی دوسری تحریروں سے مختلف ہیں۔ بہرحال چوں کہ میرا مقصد مناظرہ بازی نہیں (اور نہ آپ کے احترام کے پیش نظر میں ایسی جرأت کر سکتا ہوں) بلکہ محض بات کا سمجھنا ہے اس لیے جو کچھ میں آپ کے مضامین سے سمجھ سکا ہوں، اسے نیچے لکھتا ہوں۔ اگر میں نے مفہوم کو صحیح سمجھا ہے تو توثیق فرما دیجیے اور اگر غلط سمجھا ہے تو براہِ کرم! اس کی تصریح کر دیجیے۔ اس کے لیے میں آپ کا شکر گزار ہوں گا۔
۱۔ آپ نے فرمایا ہے کہ نبی اکرم (a) نے ۲۳ برس کی پیغمبرانہ زندگی میں قرآن مجید کی تشریح کرتے ہوئے جو کچھ فرمایا، یا عملًا کیا اُسے سُنّت رسول اللّٰہa کہتے ہیں۔ اس سے دو نتیجے نکلتے ہیں:
الف۔ رسول اللّٰہ (a) نے اس ۲۳ سالہ زندگی میں جو باتیں اپنی شخصی حیثیت سے ارشاد فرمائیں، یا عملًا کیں وہ سُنّت میں داخل نہیں۔
ب۔ سُنّت قرآنی احکام واصول کی تشریح ہے۔ قرآن کے علاوہ دین کے اصول یا احکام تجویز نہیں کرتی اور نہ ہی سُنّت قرآن کے کسی حکم کو منسوخ کر سکتی ہے۔
۲۔ آپ نے فرمایا ہے کہ کوئی کتاب ایسی نہیں کہ جس میں سُنّت رسول اللّٰہa بہ تمام وکمال درج ہو اور جس کا متن قرآن کے متن کی طرح تمام مسلمانوں کے نزدیک متفق علیہ ہو۔
۳۔ آپ نے فرمایا ہے کہ احادیث کے موجودہ مجموعوں سے صحیح احادیث کو الگ کیا جائے گا۔ اس کے لیے روایات کو جانچنے کے جو اصول پہلے سے مقرر ہیں وہ حرف آخر نہیں۔ اصول روایات کے علاوہ درایت سے بھی کام لیا جائے گا اور درایت انھی لوگوں کی معتبر ہو گی جن میں علوم اِسلامی کے مطالعے سے ایک تجربہ کار جوہری کی بصیرت پیدا ہو چکی ہو۔
۴۔ احادیث کے اس طرح پرکھنے کے بعد بھی یہ نہیں کہا جا سکے گا کہ یہ اسی طرح کلام رسولa ہیں جس طرح قرآن کی آیات، اللّٰہ کا کلام۔
مجھے آپ کے جواب کا انتظار رہے گا۔
والسلام
نیاز آگیں:
عبدالودود