مولانایٔ محترم! السلام علیکم
آپ کا خط مورخہ ۸ ؍اگست ملا۔ مجھے امید ہے کہ اس کے بعد بات ذرا اطمینان سے ہو سکے گی۔ آپ نے اپنے خط مورخہ ۲۶ جون میں میرے پہلے سوال کے جواب کے اختتام پر فرمایا تھا:
دوسرے سوالات چھیڑنے سے پہلے آپ کو یہ بات صاف کرنی چاہیے تھی کہ آیا رسول اللّٰہﷺ نے قرآن پڑھ کر سنا دینے کے سوا دُنیا میں کوئی اور کام کیا تھا یا نہیں، اور اگر کیا تھا تو کس حیثیت میں؟
نیز یہ بھی کہ:
پہلے آپ یہ بات صاف کریں کہ آیا سُنّت رسول اللّٰہﷺ بجائے خود کوئی چیز ہے یا نہیں؟ اور اس کو آپ قرآن کے ساتھ مآخذ قانون مانتے ہیں یا نہیں، اور نہیں مانتے تو اس کی دلیل کیا ہے؟
چنانچہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ میں اپنے موجودہ خط میں مسئلہ زیر بحث کے صرف اسی حصے پر گفتگو کروں اور اس کے باقی اجزا آیندہ کے لیے ملتوی کر دوں۔ آپ کو یاد ہو گا کہ میں نے اپنے اوّلین خط مورخہ ۲۱؍ مئی میں صاف طور پر یہ عرض کیا تھا کہ:
مجھے نہ تو سُنّت کی حقیقی اہمیت سے مجال انکار ہے اور نہ اس کی اہمیت کو ختم کرنا مقصود۔
چنانچہ آپ کا یہ سوال کہ میرے نزدیک سُنّت رسول اللّٰہﷺ بجائے خود کوئی چیز ہے یا نہیں؟ غیرضروری ہے۔ البتہ میرے نزدیک سُنّت کا مفہوم آپ سے مختلف ہے۔ باقی رہا یہ سوال کہ آیامیں سُنّت کو قرآن کے ساتھ مآخذ قانون مانتا ہوں یا نہیں؟ میرا جواب نفی میں ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اس کی دلیل کیا ہے؟ اجازت دیجیے کہ میں پہلے اس بات کو صاف کر لوں کہ آیا رسول اللّٰہ ﷺنے قرآن سنا دینے کے سوا دُنیا میں کوئی کام کیا تھا یا نہیں؟ اور اگر کیا تھا تو کس حیثیت میں؟ جب اس کا جواب سامنے آ جائے گا تو دلیل خود بخود سامنے آ جائے گی۔
مجھے آپ سے سو فی صدی اتفاق ہے کہ حضورﷺ معلم بھی تھے، قاضی بھی تھے، سپہ سالار بھی۔ آپ نے افراد کی تربیت کی اور تربیت یافتہ افراد کو ایک منظم جماعت کی شکل دی اور پھر ایک ریاست قائم کی وغیرہ وغیرہ! لیکن اس بات پر آپ سے اتفاق نہیں کہ ’’۲۳ سالہ پیغمبرانہ زندگی میں حضورﷺ نے جو کچھ کیا تھا یہ وہ سُنّت ہے جو قرآن کے ساتھ مل کر حاکم اعلیٰ کے قانون برتر کی تشکیل وتکمیل کرتی ہے۔‘‘
بے شک حضور ﷺ نے حاکم اعلیٰ کے قانون کے مطابق معاشرے کی تشکیل تو فرمائی لیکن یہ کہ کتاب اللّٰہ کا قانون (نعوذ باللّٰہ) نامکمل تھا اور جو کچھ حضورﷺ نے عملًا کیا اس سے اس قانون کی تکمیل ہوئی۔ میرے لیے ناقابلِ فہم ہے۔ میرے نزدیک وحی پانے کا سلسلہ نبی اکرمﷺ کے ساتھ ہمیشہ کے لیے بند ہو گیا۔ لیکن رسالت کے فرائض جو حضورﷺ نے سرانجام دیے ان کا مقصد یہ تھا کہ حضور ﷺ کے بعد بھی انھی خطوط پر معاشرے کا قیام عمل میں لایا جا سکے اور یہ تسلسل قائم رہے۔ اگر حضورﷺ نے مَا اَنْزَلَ اللّٰہُکو دوسروں تک پہنچایا تو امت کا بھی فریضہ ہے کہ مَااَنْزَلَ اللّٰہُ کو دوسروں تک پہنچائے۔ اگر حضور ﷺنے مَا اَنْزَلَ اللّٰہُ کے مطابق جماعت بنائی، ریاست قائم کی اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کیا تو امت کا بھی فریضہ ہے کہ انھی خطوط پر عمل کرے۔ اگر حضورﷺنے مَا اَنْزَلَ اللّٰہُ کے مطابق معاملات کے فیصلے کیے تو امت بھی مَا اَنْزَلَ اللّٰہُ کے مطابق فیصلے کرے۔ اگر حضورﷺ نے ’’شَاوِرْھُمْ فِی الْاَمْرِ‘‘کے مطابق امورِ سلطنت میں مشاورت سے کام کیا تو امت بھی ایسا ہی کرے۔ اگر حضور ﷺ نے نبوت کے ۲۳ سال غزوات میں گھوڑے کی پیٹھ پر گزارے تو امت بھی انھی اصولوں کو پیش نظر رکھ کر جنگ کرے۔ چنانچہ مَا اَنْزَلَ اللّٰہُ کے مطابق تربیت، جماعت بندی، ریاست کا قیام، مشاورت، قضا، غزوات، یہ سارے کام امت کرے تو یہ سُنّت رسول اللّٰہﷺ ہی کی پیروی ہے۔ حضور ﷺ نے بھی اپنے زمانے کے تقاضوں کے مطابق مَا اَنْزَلَ اللّٰہُ پر عمل کرتے ہوئے، معاشرے کی تشکیل کی اور سُنّت رسول اللّٰہﷺ کی پیروی یہ ہے کہ ہر زمانے کی امت زمانے کے تقاضوں کے مطابق مَا اَنْزَلَ اللّٰہُ پر عمل کرتے ہوئے معاشرے کی تشکیل کرے۔ موجودہ وقت میں ہم جو بھی طرز حکومت، حالات اور موجودہ تقاضوں کے مطابق مناسب سمجھیں عمل میں لائیں لیکن مَا اَنْزَلَ اللّٰہُ کی مقرر کردہ حدود کے اندر رہ کر یہی سُنّت رسول اللّٰہﷺ پر عمل ہو گا۔ اگر ہم ان مقاصد کو پیش نظر رکھ کر جو مَا اَنْزَلَ اللّٰہُ نے متعین کیے ہیں جنگیں لڑیں تو یہی سُنّت رسول اللّٰہﷺ پر عمل ہو گا لیکن اگر جیسا کہ ایک مقامی اخبار میں ایک مولوی صاحب نے گذشتہ ہفتے لکھا تھا کہ حضرت عمرؓ کی فوج کو ایک قلعہ فتح کرنے میں تاخیر اس لیے ہوئی کہ فوج نے کئی دن مسواک نہیں کی تھی، یا یہ کہ آج کے ایٹمی دور میں جنگ کے اندر تیروں کا استعمال ہی ضروری ہے کیوں کہ حضورؐ نے جنگوں میں تیر استعمال کیے تھے تو اس سے بڑھ کر سُنّت رسول اللّٰہﷺ سے مذاق کیا ہو سکتا ہے۔ ان تمام اعمال میں جو حضور ﷺنے ۲۳ سالہ پیغمبرانہ زندگی میں کیے وہ اسی مَا اَنْزَلَ اللّٰہُ کا جو کتاب اللّٰہ میں موجود ہے، اتباع کرتے تھے اور امت کو بھی یہی حکم ملا کہ اسی کا اتباع کرے۔ جہاں اِتَّبِعُوْا مَآ اُنْزِلَ اِلَيْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ الاعراف 3:7 کہہ کر امت کے افراد کو تلقین کی، وہاں یہ بھی اعلان ہوا کہ حضور ﷺ بھی اسی کا اتباع کرتے ہیں۔قُلْ اِنَّمَآ اَتَّبِــعُ مَا يُوْحٰٓى اِلَيَّ مِنْ رَّبِّيْ۰ۚ الاعراف 203:7 نہ معلوم آپ کن وجوہات کی بِنا پر کتاب اللّٰہ کے قانون کو نامکمل قرار دیتے ہیں۔ کم از کم میرے لیے تو یہ تصور بھی جسم میں کپکپی پیدا کر دیتا ہے۔ کیا آپ قرآن کریم سے کوئی ایسی آیت پیش فرمائیں گے؟ جس سے معلوم ہو کہ قرآن کا قانون نامکمل ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ نے تو انسانوں کی راہ نُمائی کے لیے صرف ایک ضابطۂ قوانین کی طرف اشارہ فرمایا ہے جو شک وشبہ سے بالاتر ہے، بلکہ اس کی ابتدا ہی ان الفاظ سے کی ہے ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَا رَیْبَ فِیْہِ اور پھر معاملات زندگی میں فیصلوں کے لیے اس ضابطۂ حیات کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیا اور یہ بھی واضح طور پر اعلان کر دیا کہ یہ ضابطۂ قانون مفصّل ہے۔ اَفَغَيْرَ اللہِ اَبْتَغِيْ حَكَمًا وَّہُوَالَّذِيْٓ اَنْزَلَ اِلَيْكُمُ الْكِتٰبَ مُفَصَّلًا۰ۭالانعام 114:6 بلکہ مومن اور کافر کے درمیان تمیز یہ رکھ دی کہ وَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْكٰفِرُوْنَo المائدہ 44:5 کیا قرآن کریم کو کتاب عزیز (ایک غالب کتاب) کہہ کر نہیں پکارا گیا۔ وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقًا وَّعَدْلًا۰ۭ الانعام 115:6 کا اعلان یہ ثابت کرنے کے لیے کافی نہیں کہ قانون خداوندی مکمل ہو چکا ہے اورجو کچھ باقی رہتا تھا، وہ پورا ہو گیا۔ کافر بھی تو اس کتاب کے علاوہ کوئی چیز اپنی تسلی کے لیے چاہتے تھے۔ جب اللّٰہ تعالیٰ نے فرمایا کہ کیا یہ کتاب ان کے لیے کافی نہیں؟اَوَلَمْ يَكْفِہِمْ اَنَّآ اَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتٰبَ يُتْلٰى عَلَيْہِمْ۰ۭ العنکبوت 51:29
مجھے اس بات کا شدت سے احساس ہے کہ چوں کہ دین کا تقاضا یہ تھا کہ کتاب پر عمل اجتماعی شکل میں ہو، اور یہ ہو نہیں سکتا کہ ایک شخص قرآن پر اپنی سمجھ کے مطابق عمل کرے اور دوسرا اپنی سمجھ کے مطابق۔ اس لیے نظام کو قائم رکھنے کے لیے ایک زندہ شخصیت کی ضرورت ہے اور مجھے اس بات کا بھی احساس ہے کہ جہاں اجتماعی نظام کے قیام کا سوال ہو وہاں پہنچانے والے کا مقام بہت آگے ہوتا ہے، کیوں کہ پیغام اس نے اس لیے پہنچایا کہ وحی اس کے سوا اور کسی کو ملتی نہیں۔ چنانچہ قرآن نے اسی لیے واضح کر دیا کہمَنْ يُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللہَ۰ۚ النسائ 80:4 چنانچہ حضورﷺ مرکزِ ملت بھی تھے اور سُنّت رسول اللّٰہﷺ پر عمل یہی ہے کہ حضورﷺ کے بعد بھی اسی طرح مرکزیت کو قائم رکھا جائے۔ چنانچہ اسی نکتے کو قرآن کریم نے ان الفاظ میں واضح کر دیا کہ وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ۰ۚ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ۰ۭ اَفَا۟ىِٕنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰٓى اَعْقَابِكُمْ۰ۭ آل عمران 144:3 ظاہر ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا سلسلہ (اگر اس کا مقصد وعظ ونصیحت نہیں) اسی صورت میں قائم رہ سکتا ہے کہ سُنّت رسول اللّٰہ ﷺپر عمل کرتے ہوئے مرکز ملت کے قیام کو مسلسل عمل میں لایا جائے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ جس ضابطۂ قانون پر چلانا حضورﷺ کا مقصد تھا اور آیندہ مرکز ملت کا مقصد رہے گا۔ اس ضابطۂ قانون کو نامکمل قرار دے دیا جائے۔
آپ کا اگلا سوال یہ ہے کہ جو کام حضور ﷺ نے ۲۳ سالہ پیغمبرانہ زندگی میں سرانجام دیے ان میں آں حضرت ﷺ کی پوزیشن کیا تھی؟میرا جواب یہ ہے کہ حضورﷺ نے جو کچھ کرکے دکھایا وہ ایک بشر کی حیثیت سے لیکن مَا اَنْزَلَ اللّٰہُ کے مطابق کرکے دکھایا۔ میرا یہ جواب کہ حضور ﷺ کے فرائض رسالت کی سرانجام دہی ایک بشر کی حیثیت سے تھی، میرے اپنے ذہن کی پیداوار نہیں، بلکہ خود کتاب اللّٰہ سے اس کا ثبوت ملتا ہے۔ حضور ﷺ نے بار بار اس بات پر زور دیا کہ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ الکہف 110:18 قرآن کی آیات سے واضح ہے کہ حضور ﷺ نظام مملکت کی انجام دہی میں ایک بشر کی حیثیت رکھتے تھے اور کبھی کبھی آں حضرت سے اجتہادی غلطیاں بھی ہو جاتی تھیں۔ قُلْ اِنْ ضَلَلْتُ فَاِنَّمَآ اَضِلُّ عَلٰي نَفْسِيْ۰ۚ وَاِنِ اہْتَدَيْتُ فَبِمَا يُوْحِيْٓ اِلَيَّ رَبِّيْ۰ۭ اِنَّہٗ سَمِيْعٌ قَرِيْبٌo سبا 50:34 اگر یہ اجتہادی غلطیاں ایسی ہوتیں جن کا اثر دین کے اہم گوشے پر پڑتا تو خدا کی طرف سے اس کی تادیب بھی آ جاتی: جیسے کہ ایک جنگ کے موقع پر بعض لوگوں نے پیچھے رہنے کی اجازت چاہی اور حضورﷺ نے اجازت دے دی۔ اس پر اللّٰہ کی طرف سے وحی نازل ہوئی۔عَفَا اللہُ عَنْكَ۰ۚ لِمَ اَذِنْتَ لَہُمْ حَتّٰي يَتَبَيَّنَ لَكَ الَّذِيْنَ صَدَقُوْا وَتَعْلَمَ الْكٰذِبِيْنَo التوبہ 43:9 اسی طرح سورۂ تحریم میں تادیب آ گئی: يٰٓاَيُّہَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَآ اَحَلَّ اللہُ لَكَ۰ۚ التحریم 1:66 اسی طرح سورۂ عبس میں ہے: عَبَسَ وَتَوَلّٰٓيo اَنْ جَاۗءَہُ الْاَعْمٰىo وَمَا يُدْرِيْكَ لَعَلَّہٗ يَزَّكّٰٓيo اَوْ يَذَّكَّرُ فَتَنْفَعَہُ الذِّكْرٰىo اَمَّا مَنِ اسْتَغْنٰىo فَاَنْتَ لَہٗ تَصَدّٰىo وَمَا عَلَيْكَ اَلَّا يَزَّكّٰىo وَاَمَّا مَنْ جَاۗءَكَ يَسْعٰىo وَہُوَيَخْشٰىo فَاَنْتَ عَنْہُ تَلَہّٰىo عبس 1-10:80
مندرجہ بالا تصریحات سے ظاہر ہے کہ وحی کی روشنی میں امورِ سلطنت کی سرانجام دہی میں جزئی معاملات میں حضورﷺ سے اجتہادی غلطیاں بھی ہو جاتی تھیں اور یہ اسی صورت میں ہو سکتا تھا کہ حضور ﷺان امور کو ایک بشر کی حیثیت سے سرانجام دیتے تھے اور اگر ایسا نہ ہوتا تو اس کے دو نتائج لازمًا پیدا ہوتے، اوّلاً: یہ تصور کہ چوں کہ حضور ﷺ نے جو کچھ کیا وہ ایک نبی کی حیثیت سے کیا، اس لیے عام انسان اس کو نہیں کر سکتے۔ چنانچہ آج بھی مایوسی کے عالم میں بعض جگہ یہ تصور پایا جاتا ہے کہ حضورﷺ نے جو معاشرہ قائم کیا تھا وہ عام انسانوں کے بس کا روگ نہیں اور وہ دوبارہ قائم نہیں کیا جا سکتا۔ یہ تصور بجائے خود سُنّت رسولﷺ کی پیروی کی نفی ہے۔ دوسرا نتیجہ اس کا یہ تصور ہو سکتا ہے کہ اس لیے حضور ﷺ کے بعد نبیوں کے آنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ پھر سے اس قسم کا معاشرہ قائم کرسکیں (چوں کہ عام انسان ایسا نہیں کر سکتے)۔ آپ خود سوچیے کہ یہ دونوں نتائج کس قدر خطرناک ہیں جو اس تصور کے نتیجے کے طور پر ابھر کر سامنے آتے ہیں کہ حضور ﷺنے جو کچھ بھی کیا، ایک نبی کی حیثیت سے کیا۔ ختمِ نبوت انسانیت کے سفرِ زندگی میں ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے، جہاں سے شخصیتوں کا دور ختم ہوتا ہے اور اصول واقدار کا دور شروع ہوتا ہے۔ چنانچہ یہ تصور کہ حضور ﷺ نے جو کچھ کیا ایک نبی کی حیثیت سے کیا۔ ختمِ نبوت کے اصول کی تردید کے مترادف ہے۔ مَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ۰ۚ… آل عمران 144:3 جیسی واضح آیات کے بعد یہ کہنا کہ رسول اللّٰہ ﷺجو کچھ کرتے تھے، وحی کی رو سے کرتے تھے (اور وحی کا سلسلہ حضورﷺکی ذات کے ساتھ ختم ہو گیا)۔ اس بات کا اعلان ہے کہ حضورﷺ کی وفات کے بعد دین کا سلسلہ قائم نہیں رہ سکتا۔ حضرات خلفائے کرام اچھی طرح سمجھتے تھے کہ وحی ’’الکتاب‘‘ کے اندر محفوظ ہے اور اس کے بعد حضور ﷺ جو کچھ کرتے تھے باہمی مشاورت سے کرتے تھے۔ اس لیے حضورﷺ کی وفات کے بعد نظام میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی۔ سلطنت کی وسعت کے ساتھ تقاضے بڑھتے گئے اس لیے آئے دن نئے نئے امور سامنے آتے تھے جن کے تصفیے کے لیے اگر کوئی پہلا فیصلہ مل جاتا جس میں تبدیلی کی ضرورت نہ ہوتی تو اسے علیٰ حالہٖ قائم رکھتے تھے۔ اگر اس میں تبدیلی کی ضرورت ہوتی تو باہمی مشاورت سے تبدیلی کر لیتے اور اگر نئے فیصلے کی ضرورت ہوتی تو باہمی مشاورت سے نیا فیصلہ کر لیتے۔ یہ سب کچھ قرآن کی روشنی میں ہوتا تھا۔ یہی طریقہ رسول اللّٰہﷺ کا تھا اور اسی کو حضور ﷺ کے جانشینوں نے قائم رکھا۔ اسی کا نام اتباعِ سُنّت رسول اللّٰہﷺ ہے۔
اگر فرض کر لیا جائے کہ جیسا کہ آپ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ جو کچھ کرتے تھے، وحی کی رو سے کرتے تھے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ خدا کو اپنی طرف سے بھیجی ہوئی ایک قسم کی وحی پر (نعوذ باللّٰہ) تسلی نہ ہوئی۔ چنانچہ دوسری قسم کی وحی کا نزول شروع ہو گیا۔ یہ دو رنگی وحی آخر کیوں؟ پہلے آنے والے نبیوں پر جب وحی نازل ہوئی تو اس میں نزولِ قرآن کی طرف اشارہ تھا۔ تو کیا اس اللّٰہ کے لیے جو ہر چیز پر قادر ہے، یہ بڑا مشکل تھا کہ دوسری قسم کی وحی جس کا آپ ذکر کرتے ہیں، اس کا قرآن میں اشارہ کر دیتا۔ مجھے تو قرآن میں کوئی ایسی چیز نظر نہیں آتی۔ اگر آپ کسی آیت کی طرف اشارہ فرما سکیں، مشکور ہوں گا۔ والسلام
مخلص… عبدالودود