Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

عرضِ ناشر
تصریح
دیباچہ
باب اوّل: سُنّت کی آئینی حیثیت
ڈاکٹر صاحب کا پہلا خط
جواب
ڈاکٹر صاحب کا دوسرا خط
جواب
سُنّت کیا چیز ہے؟
سُنّت کس شکل میں موجود ہے؟
کیا سُنّت متفق علیہ ہے؟ اور اس کی تحقیق کا ذریعہ کیا ہے؟
چار بنیادی حقیقتیں
دوسرے خط کا جواب
چار نکات
نکتۂ اُولیٰ
رسول اللّٰہa کے کام کی نوعیت
حضور a کی شخصی حیثیت اور پیغمبرانہ حیثیت کا فرق
قرآن سے زائد ہونا اور قرآن کے خلاف ہونا ہم معنی نہیں ہے
کیا سُنّت قرآن کے کسی حکم کو منسوخ کر سکتی ہے؟
نکتۂ دوم
نکتۂ سوم
احادیث کو پرکھنے میں روایت اور درایت کا استعمال
نکتۂ چہارم
اشاعت کا مطالبہ
باب دوم: منصبِ نبوت
ڈاکٹر صاحب کا خط
جواب
۱۔ منصب ِنبوّت اور اس کے فرائض
۲۔ رسول پاکﷺ کے تشریعی اختیارات
۳۔ سُنّت اور اتباع سُنّت کا مفہوم
۴۔رسولﷺ پاک کس وحی کے اتباع پر مامور تھے، اور ہم کس کے اتباع پر مامور ہیں؟
۵۔ مرکزِ ملّت
۶۔ کیا حضورﷺ صرف قرآن پہنچانے کی حد تک نبی تھے؟
۷۔ حضورﷺ کی اجتہادی لغزشوں سے غلط استدلال
۸۔ موہوم خطرات
۹۔ خلفائے راشدین پر بہتان
۱۰۔ کیا حضورﷺ پر قرآن کے علاوہ بھی وحی آتی تھی؟
سُنّت کے متعلق چند مزید سوالات
جواب
وحی پر ایمان کی وجہ
مَااَنْزَلَ اللّٰہُ سے کیا چیز مراد ہے؟
سُنّت کہاں ہے؟
وحی سے مراد کیا چیز ہے؟
محض تکرارِ سوال
ایمان وکفر کا مدار
کیا احکامِ سُنّت میں رد وبدل ہو سکتا ہے؟
باب سوم : اعتراضات اور جوابات
۱۔ بزمِ طلوع اِسلام سے تعلق؟
۲۔ کیا گشتی سوال نامے کا مقصد علمی تحقیق تھا؟
۳۔ رسولﷺ کی حیثیت ِ شخصی و حیثیتِ نبویﷺ
۴۔ تعلیماتِ سنّت میں فرقِ مراتب
۵۔ علمی تحقیق یا جھگڑالو پن؟
۶۔ رسولﷺ کی دونوں حیثیتوں میں امتیاز کا اصول اور طریقہ
۷۔ قرآن کی طرح احادیث بھی کیوں نہ لکھوائی گئیں؟
۸۔ دجل وفریب کا ایک نمونہ
۹۔ حدیث میں کیا چیز مشکوک ہے اور کیا مشکوک نہیں ہے
۱۰۔ ایک اور فریب
۱۱۔ کیا امت میں کوئی چیز بھی متفق علیہ نہیں ہے؟
۱۲۔ سُنّت نے اختلافات کم کیے ہیں یا بڑھائے ہیں؟
۱۳۔ منکرینِ سُنّت اور منکرینِ ختم نبوت میں مماثلت کے وجوہ
۱۴۔ کیا آئین کی بنیاد وہی چیز ہو سکتی ہے جس میں اختلاف ممکن نہ ہو؟
۱۵۔ قرآن اور سُنّت دونوں کے معاملے میں رفعِ اختلاف کی صورت ایک ہی ہے
۱۶۔ ایک دل چسپ مغالطہ
۱۷۔ شخصی قانون اور ملکی قانون میں تفریق کیوں؟
۱۸۔ حیثیت ِرسول ﷺ کے بارے میں فیصلہ کن بات سے گریز
۱۹۔ کیا کسی غیر نبی کو نبی کی تمام حیثیات حاصل ہو سکتی ہیں
۲۰۔ اِسلامی نظام کے امیر اور منکرینِ حدیث کے مرکزِ ملت میں عظیم فرق
۲۱۔ عہد رسالت میں مشاورت کے حدود کیا تھے؟
۲۲۔ اذان کا طریقہ مشورے سے طے ہوا تھا یا الہام سے؟
۲۳۔ حضورﷺ کے عدالتی فیصلے سند وحجت ہیں یا نہیں؟
۲۴۔ کج بحثی کا ایک عجیب نمونہ
۲۵۔ کیا اللہ تعالیٰ بھی غلطی کرسکتا ہے؟
۲۶۔حضورﷺ کے ذاتی خیال اور بربنائے وحی کہی ہوئی بات میں واضح امتیاز تھا
۲۷۔ کیا صحابہؓ اس بات کے قائل تھے کہ حضورﷺ کے فیصلے بدلے جا سکتے ہیں؟
۲۸۔ مسئلہ طلاق ثلاثہ میں حضرت عمرؓ کے فیصلے کی اصل نوعیت
۲۹۔ مؤلفۃ القلوب کے بارے میں حضرت عمرؓ کے استدلال کی نوعیت
۳۰۔ کیا مفتوحہ اراضی کے بارے میں حضرت عمرؓ کا فیصلہ حکم رسولﷺ کے خلاف تھا؟
۳۱۔ وظائف کی تقسیم کے معاملے میں حضرت عمرؓ کا فیصلہ
۳۲۔ کیا قرآن کے معاشی احکام عبوری دور کے لیے ہیں؟
۳۳۔ ’’عبوری دور‘‘ کا غلط مفہوم
۳۴۔ حضورﷺکیا صرف شارح قرآن ہی ہیں یا شارع بھی؟
۳۵۔ بصیرت رسولﷺ کے خداداد ہونے کا مفہوم
۳۶۔ وحی کی اقسام ازروئے قرآن
۳۷۔ وحی غیرمتلو پر ایمان، ایمان بالرسول کا جُز ہے
۳۸۔ کیا وحی غیر متلو بھی جبریل ہی لاتے تھے؟
۳۹۔ کتاب اور حکمت ایک ہی چیز یا الگ الگ
۴۰۔ لفظ تلاوت کے معنی
۴۱۔ کتاب کے ساتھ میزان کے نزول کا مطلب
۴۲۔ ایک اور کج بحثی
۴۳۔ تحویلِ قبلہ والی آیت میں کون سا قبلہ مراد ہے؟
۴۴۔ قبلے کے معاملے میں رسولﷺ کی پیروی کرنے یا نہ کرنے کا سوال کیسے پیدا ہوتا تھا؟
۴۵۔ نبی پر خود ساختہ قبلہ بنانے کا الزام
۴۶۔ لَقَدْ صَدَقَ اللّٰہُ رَسُوْلَہُ الرُّؤْیَا کا مطلب
۴۷۔ کیا وحی خواب کی صورت میں بھی ہوتی ہے؟
۴۸۔ بے معنی اعتراضات اور الزامات
۴۹۔ کیا آنحضورﷺ نے صحابہؓ کو دھوکا دیا تھا؟
۵۰۔ کیا آنحضورﷺ اپنے خواب سے متعلق متردد تھے؟
۵۱۔دروغ گویم بر رُوئے تو
۵۲۔ رُو در رُو بہتان
۵۳۔ نَبَّأَنِیَ الْعَلِیْمُ الْخَبِیْرُ کا مطلب

سنت کی آئینی حیثیت

انکار سنت کا فتنہ اسلامی تاریخ میں سب سے پہلے دوسری صدی ہجری میں اُٹھا تھا اور اس کے اُٹھانے والے خوارج اور معتزلہ تھے۔ خوارج کو اس کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ مسلم معاشرے میں جو انارکی وہ پھیلانا چاہتے تھے، اس کی راہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وہ سنت حائل تھی جس نے اس معاشرے کو ایک نظم و ضبط پر قائم کیا تھا، اور اس کی راہ میں حضور کے وہ ارشادات حائل تھے جن کی موجودگی میں خوارج کے انتہا پسندانہ نظریات نہ چل سکتے تھے۔ اس بنا پر اُنھوں نے احادیث کی صحت میں شک اور سنت کے واجب الاتباع ہونے سے انکار کی دو گونہ پالیسی اختیار کی۔ معتزلہ کو اس کی ضرورت اس لیے لاحق ہوئی کہ عجمی اور یونانی فلسفوں سے پہلا سابقہ پیش آتے ہی اسلامی عقائد اور اصول و احکام کے بارے میں جو شکوک و شبہات ذہنوں میں پیدا ہونے لگے تھے، اُنھیں پوری طرح سمجھنے سے پہلے وہ کسی نہ کسی طرح اُنھیں حل کر دینا چاہتے تھے۔ خود ان فلسفوں میں ان کو وہ بصیرت حاصل نہ ہوئی تھی کہ ان کا تنقیدی جائزہ لے کر ان کی صحت و قوت جانچ سکتے۔ اُنھوں نے ہر اس بات کو جو فلسفے کے نام سے آئی، سراسر عقل کا تقاضا سمجھا اور یہ چاہا کہ اسلام کی عقائد اور اصولوں کی ایسی تعبیر کی جائے جس سے وہ ان نام نہاد عقلی تقاضوں کے مطابق ہو جائیں۔ اس راہ میں پھر وہی حدیث و سنت مانع ہوئی۔ اس لیے اُنھوں نے بھی خوارج کی طرح حدیث کو مشکوک ٹھیرایا اور سنت کو حجت ماننے سے انکار کیا۔ اس کتاب میں مولانا مودودیؒ نے مخالفانہ دلائل کو ایک ایک کرکے اس طرح بیان کیا ہے کہ اس کے بعد کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ سید مودودیؒ کتاب کے آخر میں رقم طراز ہیں: ”ہم نے ایک ایک دلیل کا تفصیلی جائزہ لے کر جو بحث کی ہے اسے پڑھ کر ہر صاحب علم آدمی خود یہ رائے قائم کر سکتا ہے کہ ان دلائل میں کتنا وزن ہے اور ان کے مقابلے میں سنت کے ماخذ قانون اور احادیث کے قابل استناد ہونے پر جو دلیلیں ہم نے قائم کی ہیں وہ کس حد تک وزنی ہیں۔ ہم خاص طور پر خود فاضل جج سے اور مغربی پاکستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اور ان کے رفقا سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ پورے غور کے ساتھ ہماری اس تنقید کو ملاحظہ فرمائیں اور اگر ان کی بے لاگ رائے میں، جیسی کہ ایک عدالت عالیہ کے فاضل ججوں کے رائے بے لاک ہونی چاہیے، یہ تنقید فی الواقع مضبوط دلائل پر مبنی ہو تو وہ قانون کے مطابق کوئی ایسی تدبیر عمل میں لائیں جس سے یہ فیصلہ آئیندہ کے لیے نظیر نہ بن سکے۔ عدالتوں کا وقار ہر ملک کے نظام عدل و انصاف کی جان ہوتا ہے اور بہت بڑی حد تک اسی پر ایک مملکت کے استحکام کا انحصار ہوتا ہے۔ اس وقار کے لیے کوئی چیز اس سے بڑھ کر نقصان دہ نہیں ہے کہ ملک کی بلند ترین عدالتوں کے فیصلے علمی حیثیت سے کمزور دلائل اور ناکافی معلومات پر مشتمل ہوں۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ جب ایمان دارانہ تنقید سے ایسی کسی غلطی کی نشان دہی ہو جائے تو اولین فرصت میں خود حاکمان عدالت ہی اس کی تلافی کی طرف توجہ فرمائیں۔“ حدیث کے حوالے سے شکوک وشبہات کا اظہار کرنے والے افراد کے لیے اس کتاب کو پڑھنا بہت اہم ہے۔

ڈاکٹر صاحب کا خط

مولانایٔ محترم! السلام علیکم
آپ کا خط مورخہ ۸ ؍اگست ملا۔ مجھے امید ہے کہ اس کے بعد بات ذرا اطمینان سے ہو سکے گی۔ آپ نے اپنے خط مورخہ ۲۶ جون میں میرے پہلے سوال کے جواب کے اختتام پر فرمایا تھا:
دوسرے سوالات چھیڑنے سے پہلے آپ کو یہ بات صاف کرنی چاہیے تھی کہ آیا رسول اللّٰہﷺ نے قرآن پڑھ کر سنا دینے کے سوا دُنیا میں کوئی اور کام کیا تھا یا نہیں، اور اگر کیا تھا تو کس حیثیت میں؟
نیز یہ بھی کہ:
پہلے آپ یہ بات صاف کریں کہ آیا سُنّت رسول اللّٰہﷺ بجائے خود کوئی چیز ہے یا نہیں؟ اور اس کو آپ قرآن کے ساتھ مآخذ قانون مانتے ہیں یا نہیں، اور نہیں مانتے تو اس کی دلیل کیا ہے؟
چنانچہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ میں اپنے موجودہ خط میں مسئلہ زیر بحث کے صرف اسی حصے پر گفتگو کروں اور اس کے باقی اجزا آیندہ کے لیے ملتوی کر دوں۔ آپ کو یاد ہو گا کہ میں نے اپنے اوّلین خط مورخہ ۲۱؍ مئی میں صاف طور پر یہ عرض کیا تھا کہ:
مجھے نہ تو سُنّت کی حقیقی اہمیت سے مجال انکار ہے اور نہ اس کی اہمیت کو ختم کرنا مقصود۔
چنانچہ آپ کا یہ سوال کہ میرے نزدیک سُنّت رسول اللّٰہﷺ بجائے خود کوئی چیز ہے یا نہیں؟ غیرضروری ہے۔ البتہ میرے نزدیک سُنّت کا مفہوم آپ سے مختلف ہے۔ باقی رہا یہ سوال کہ آیامیں سُنّت کو قرآن کے ساتھ مآخذ قانون مانتا ہوں یا نہیں؟ میرا جواب نفی میں ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اس کی دلیل کیا ہے؟ اجازت دیجیے کہ میں پہلے اس بات کو صاف کر لوں کہ آیا رسول اللّٰہ ﷺنے قرآن سنا دینے کے سوا دُنیا میں کوئی کام کیا تھا یا نہیں؟ اور اگر کیا تھا تو کس حیثیت میں؟ جب اس کا جواب سامنے آ جائے گا تو دلیل خود بخود سامنے آ جائے گی۔
مجھے آپ سے سو فی صدی اتفاق ہے کہ حضورﷺ معلم بھی تھے، قاضی بھی تھے، سپہ سالار بھی۔ آپ نے افراد کی تربیت کی اور تربیت یافتہ افراد کو ایک منظم جماعت کی شکل دی اور پھر ایک ریاست قائم کی وغیرہ وغیرہ! لیکن اس بات پر آپ سے اتفاق نہیں کہ ’’۲۳ سالہ پیغمبرانہ زندگی میں حضورﷺ نے جو کچھ کیا تھا یہ وہ سُنّت ہے جو قرآن کے ساتھ مل کر حاکم اعلیٰ کے قانون برتر کی تشکیل وتکمیل کرتی ہے۔‘‘
بے شک حضور ﷺ نے حاکم اعلیٰ کے قانون کے مطابق معاشرے کی تشکیل تو فرمائی لیکن یہ کہ کتاب اللّٰہ کا قانون (نعوذ باللّٰہ) نامکمل تھا اور جو کچھ حضورﷺ نے عملًا کیا اس سے اس قانون کی تکمیل ہوئی۔ میرے لیے ناقابلِ فہم ہے۔ میرے نزدیک وحی پانے کا سلسلہ نبی اکرمﷺ کے ساتھ ہمیشہ کے لیے بند ہو گیا۔ لیکن رسالت کے فرائض جو حضورﷺ نے سرانجام دیے ان کا مقصد یہ تھا کہ حضور ﷺ کے بعد بھی انھی خطوط پر معاشرے کا قیام عمل میں لایا جا سکے اور یہ تسلسل قائم رہے۔ اگر حضورﷺ نے مَا اَنْزَلَ اللّٰہُکو دوسروں تک پہنچایا تو امت کا بھی فریضہ ہے کہ مَااَنْزَلَ اللّٰہُ کو دوسروں تک پہنچائے۔ اگر حضور ﷺنے مَا اَنْزَلَ اللّٰہُ کے مطابق جماعت بنائی، ریاست قائم کی اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کیا تو امت کا بھی فریضہ ہے کہ انھی خطوط پر عمل کرے۔ اگر حضورﷺنے مَا اَنْزَلَ اللّٰہُ کے مطابق معاملات کے فیصلے کیے تو امت بھی مَا اَنْزَلَ اللّٰہُ کے مطابق فیصلے کرے۔ اگر حضورﷺ نے ’’شَاوِرْھُمْ فِی الْاَمْرِ‘‘کے مطابق امورِ سلطنت میں مشاورت سے کام کیا تو امت بھی ایسا ہی کرے۔ اگر حضور ﷺ نے نبوت کے ۲۳ سال غزوات میں گھوڑے کی پیٹھ پر گزارے تو امت بھی انھی اصولوں کو پیش نظر رکھ کر جنگ کرے۔ چنانچہ مَا اَنْزَلَ اللّٰہُ کے مطابق تربیت، جماعت بندی، ریاست کا قیام، مشاورت، قضا، غزوات، یہ سارے کام امت کرے تو یہ سُنّت رسول اللّٰہﷺ ہی کی پیروی ہے۔ حضور ﷺ نے بھی اپنے زمانے کے تقاضوں کے مطابق مَا اَنْزَلَ اللّٰہُ پر عمل کرتے ہوئے، معاشرے کی تشکیل کی اور سُنّت رسول اللّٰہﷺ کی پیروی یہ ہے کہ ہر زمانے کی امت زمانے کے تقاضوں کے مطابق مَا اَنْزَلَ اللّٰہُ پر عمل کرتے ہوئے معاشرے کی تشکیل کرے۔ موجودہ وقت میں ہم جو بھی طرز حکومت، حالات اور موجودہ تقاضوں کے مطابق مناسب سمجھیں عمل میں لائیں لیکن مَا اَنْزَلَ اللّٰہُ کی مقرر کردہ حدود کے اندر رہ کر یہی سُنّت رسول اللّٰہﷺ پر عمل ہو گا۔ اگر ہم ان مقاصد کو پیش نظر رکھ کر جو مَا اَنْزَلَ اللّٰہُ نے متعین کیے ہیں جنگیں لڑیں تو یہی سُنّت رسول اللّٰہﷺ پر عمل ہو گا لیکن اگر جیسا کہ ایک مقامی اخبار میں ایک مولوی صاحب نے گذشتہ ہفتے لکھا تھا کہ حضرت عمرؓ کی فوج کو ایک قلعہ فتح کرنے میں تاخیر اس لیے ہوئی کہ فوج نے کئی دن مسواک نہیں کی تھی، یا یہ کہ آج کے ایٹمی دور میں جنگ کے اندر تیروں کا استعمال ہی ضروری ہے کیوں کہ حضورؐ نے جنگوں میں تیر استعمال کیے تھے تو اس سے بڑھ کر سُنّت رسول اللّٰہﷺ سے مذاق کیا ہو سکتا ہے۔ ان تمام اعمال میں جو حضور ﷺنے ۲۳ سالہ پیغمبرانہ زندگی میں کیے وہ اسی مَا اَنْزَلَ اللّٰہُ کا جو کتاب اللّٰہ میں موجود ہے، اتباع کرتے تھے اور امت کو بھی یہی حکم ملا کہ اسی کا اتباع کرے۔ جہاں اِتَّبِعُوْا مَآ اُنْزِلَ اِلَيْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ الاعراف 3:7 کہہ کر امت کے افراد کو تلقین کی، وہاں یہ بھی اعلان ہوا کہ حضور ﷺ بھی اسی کا اتباع کرتے ہیں۔قُلْ اِنَّمَآ اَتَّبِــعُ مَا يُوْحٰٓى اِلَيَّ مِنْ رَّبِّيْ۝۰ۚ الاعراف 203:7 نہ معلوم آپ کن وجوہات کی بِنا پر کتاب اللّٰہ کے قانون کو نامکمل قرار دیتے ہیں۔ کم از کم میرے لیے تو یہ تصور بھی جسم میں کپکپی پیدا کر دیتا ہے۔ کیا آپ قرآن کریم سے کوئی ایسی آیت پیش فرمائیں گے؟ جس سے معلوم ہو کہ قرآن کا قانون نامکمل ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ نے تو انسانوں کی راہ نُمائی کے لیے صرف ایک ضابطۂ قوانین کی طرف اشارہ فرمایا ہے جو شک وشبہ سے بالاتر ہے، بلکہ اس کی ابتدا ہی ان الفاظ سے کی ہے ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَا رَیْبَ فِیْہِ اور پھر معاملات زندگی میں فیصلوں کے لیے اس ضابطۂ حیات کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیا اور یہ بھی واضح طور پر اعلان کر دیا کہ یہ ضابطۂ قانون مفصّل ہے۔ اَفَغَيْرَ اللہِ اَبْتَغِيْ حَكَمًا وَّہُوَالَّذِيْٓ اَنْزَلَ اِلَيْكُمُ الْكِتٰبَ مُفَصَّلًا۝۰ۭالانعام 114:6 بلکہ مومن اور کافر کے درمیان تمیز یہ رکھ دی کہ وَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْكٰفِرُوْنَo المائدہ 44:5 کیا قرآن کریم کو کتاب عزیز (ایک غالب کتاب) کہہ کر نہیں پکارا گیا۔ وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقًا وَّعَدْلًا۝۰ۭ الانعام 115:6 کا اعلان یہ ثابت کرنے کے لیے کافی نہیں کہ قانون خداوندی مکمل ہو چکا ہے اورجو کچھ باقی رہتا تھا، وہ پورا ہو گیا۔ کافر بھی تو اس کتاب کے علاوہ کوئی چیز اپنی تسلی کے لیے چاہتے تھے۔ جب اللّٰہ تعالیٰ نے فرمایا کہ کیا یہ کتاب ان کے لیے کافی نہیں؟اَوَلَمْ يَكْفِہِمْ اَنَّآ اَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتٰبَ يُتْلٰى عَلَيْہِمْ۝۰ۭ العنکبوت 51:29
مجھے اس بات کا شدت سے احساس ہے کہ چوں کہ دین کا تقاضا یہ تھا کہ کتاب پر عمل اجتماعی شکل میں ہو، اور یہ ہو نہیں سکتا کہ ایک شخص قرآن پر اپنی سمجھ کے مطابق عمل کرے اور دوسرا اپنی سمجھ کے مطابق۔ اس لیے نظام کو قائم رکھنے کے لیے ایک زندہ شخصیت کی ضرورت ہے اور مجھے اس بات کا بھی احساس ہے کہ جہاں اجتماعی نظام کے قیام کا سوال ہو وہاں پہنچانے والے کا مقام بہت آگے ہوتا ہے، کیوں کہ پیغام اس نے اس لیے پہنچایا کہ وحی اس کے سوا اور کسی کو ملتی نہیں۔ چنانچہ قرآن نے اسی لیے واضح کر دیا کہمَنْ يُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللہَ۝۰ۚ النسائ 80:4 چنانچہ حضورﷺ مرکزِ ملت بھی تھے اور سُنّت رسول اللّٰہﷺ پر عمل یہی ہے کہ حضورﷺ کے بعد بھی اسی طرح مرکزیت کو قائم رکھا جائے۔ چنانچہ اسی نکتے کو قرآن کریم نے ان الفاظ میں واضح کر دیا کہ وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ۝۰ۚ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ۝۰ۭ اَفَا۟ىِٕنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰٓى اَعْقَابِكُمْ۝۰ۭ آل عمران 144:3 ظاہر ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا سلسلہ (اگر اس کا مقصد وعظ ونصیحت نہیں) اسی صورت میں قائم رہ سکتا ہے کہ سُنّت رسول اللّٰہ ﷺپر عمل کرتے ہوئے مرکز ملت کے قیام کو مسلسل عمل میں لایا جائے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ جس ضابطۂ قانون پر چلانا حضورﷺ کا مقصد تھا اور آیندہ مرکز ملت کا مقصد رہے گا۔ اس ضابطۂ قانون کو نامکمل قرار دے دیا جائے۔
آپ کا اگلا سوال یہ ہے کہ جو کام حضور ﷺ نے ۲۳ سالہ پیغمبرانہ زندگی میں سرانجام دیے ان میں آں حضرت ﷺ کی پوزیشن کیا تھی؟میرا جواب یہ ہے کہ حضورﷺ نے جو کچھ کرکے دکھایا وہ ایک بشر کی حیثیت سے لیکن مَا اَنْزَلَ اللّٰہُ کے مطابق کرکے دکھایا۔ میرا یہ جواب کہ حضور ﷺ کے فرائض رسالت کی سرانجام دہی ایک بشر کی حیثیت سے تھی، میرے اپنے ذہن کی پیداوار نہیں، بلکہ خود کتاب اللّٰہ سے اس کا ثبوت ملتا ہے۔ حضور ﷺ نے بار بار اس بات پر زور دیا کہ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ الکہف 110:18 قرآن کی آیات سے واضح ہے کہ حضور ﷺ نظام مملکت کی انجام دہی میں ایک بشر کی حیثیت رکھتے تھے اور کبھی کبھی آں حضرت سے اجتہادی غلطیاں بھی ہو جاتی تھیں۔ قُلْ اِنْ ضَلَلْتُ فَاِنَّمَآ اَضِلُّ عَلٰي نَفْسِيْ۝۰ۚ وَاِنِ اہْتَدَيْتُ فَبِمَا يُوْحِيْٓ اِلَيَّ رَبِّيْ۝۰ۭ اِنَّہٗ سَمِيْعٌ قَرِيْبٌo سبا 50:34 اگر یہ اجتہادی غلطیاں ایسی ہوتیں جن کا اثر دین کے اہم گوشے پر پڑتا تو خدا کی طرف سے اس کی تادیب بھی آ جاتی: جیسے کہ ایک جنگ کے موقع پر بعض لوگوں نے پیچھے رہنے کی اجازت چاہی اور حضورﷺ نے اجازت دے دی۔ اس پر اللّٰہ کی طرف سے وحی نازل ہوئی۔عَفَا اللہُ عَنْكَ۝۰ۚ لِمَ اَذِنْتَ لَہُمْ حَتّٰي يَتَبَيَّنَ لَكَ الَّذِيْنَ صَدَقُوْا وَتَعْلَمَ الْكٰذِبِيْنَo التوبہ 43:9 اسی طرح سورۂ تحریم میں تادیب آ گئی: يٰٓاَيُّہَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَآ اَحَلَّ اللہُ لَكَ۝۰ۚ التحریم 1:66 اسی طرح سورۂ عبس میں ہے: عَبَسَ وَتَوَلّٰٓيo اَنْ جَاۗءَہُ الْاَعْمٰىo وَمَا يُدْرِيْكَ لَعَلَّہٗ يَزَّكّٰٓيo اَوْ يَذَّكَّرُ فَتَنْفَعَہُ الذِّكْرٰىo اَمَّا مَنِ اسْتَغْنٰىo فَاَنْتَ لَہٗ تَصَدّٰىo وَمَا عَلَيْكَ اَلَّا يَزَّكّٰىo وَاَمَّا مَنْ جَاۗءَكَ يَسْعٰىo وَہُوَيَخْشٰىo فَاَنْتَ عَنْہُ تَلَہّٰىo عبس 1-10:80
مندرجہ بالا تصریحات سے ظاہر ہے کہ وحی کی روشنی میں امورِ سلطنت کی سرانجام دہی میں جزئی معاملات میں حضورﷺ سے اجتہادی غلطیاں بھی ہو جاتی تھیں اور یہ اسی صورت میں ہو سکتا تھا کہ حضور ﷺان امور کو ایک بشر کی حیثیت سے سرانجام دیتے تھے اور اگر ایسا نہ ہوتا تو اس کے دو نتائج لازمًا پیدا ہوتے، اوّلاً: یہ تصور کہ چوں کہ حضور ﷺ نے جو کچھ کیا وہ ایک نبی کی حیثیت سے کیا، اس لیے عام انسان اس کو نہیں کر سکتے۔ چنانچہ آج بھی مایوسی کے عالم میں بعض جگہ یہ تصور پایا جاتا ہے کہ حضورﷺ نے جو معاشرہ قائم کیا تھا وہ عام انسانوں کے بس کا روگ نہیں اور وہ دوبارہ قائم نہیں کیا جا سکتا۔ یہ تصور بجائے خود سُنّت رسولﷺ کی پیروی کی نفی ہے۔ دوسرا نتیجہ اس کا یہ تصور ہو سکتا ہے کہ اس لیے حضور ﷺ کے بعد نبیوں کے آنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ پھر سے اس قسم کا معاشرہ قائم کرسکیں (چوں کہ عام انسان ایسا نہیں کر سکتے)۔ آپ خود سوچیے کہ یہ دونوں نتائج کس قدر خطرناک ہیں جو اس تصور کے نتیجے کے طور پر ابھر کر سامنے آتے ہیں کہ حضور ﷺنے جو کچھ بھی کیا، ایک نبی کی حیثیت سے کیا۔ ختمِ نبوت انسانیت کے سفرِ زندگی میں ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے، جہاں سے شخصیتوں کا دور ختم ہوتا ہے اور اصول واقدار کا دور شروع ہوتا ہے۔ چنانچہ یہ تصور کہ حضور ﷺ نے جو کچھ کیا ایک نبی کی حیثیت سے کیا۔ ختمِ نبوت کے اصول کی تردید کے مترادف ہے۔ مَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ۝۰ۚ… آل عمران 144:3 جیسی واضح آیات کے بعد یہ کہنا کہ رسول اللّٰہ ﷺجو کچھ کرتے تھے، وحی کی رو سے کرتے تھے (اور وحی کا سلسلہ حضورﷺکی ذات کے ساتھ ختم ہو گیا)۔ اس بات کا اعلان ہے کہ حضورﷺ کی وفات کے بعد دین کا سلسلہ قائم نہیں رہ سکتا۔ حضرات خلفائے کرام اچھی طرح سمجھتے تھے کہ وحی ’’الکتاب‘‘ کے اندر محفوظ ہے اور اس کے بعد حضور ﷺ جو کچھ کرتے تھے باہمی مشاورت سے کرتے تھے۔ اس لیے حضورﷺ کی وفات کے بعد نظام میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی۔ سلطنت کی وسعت کے ساتھ تقاضے بڑھتے گئے اس لیے آئے دن نئے نئے امور سامنے آتے تھے جن کے تصفیے کے لیے اگر کوئی پہلا فیصلہ مل جاتا جس میں تبدیلی کی ضرورت نہ ہوتی تو اسے علیٰ حالہٖ قائم رکھتے تھے۔ اگر اس میں تبدیلی کی ضرورت ہوتی تو باہمی مشاورت سے تبدیلی کر لیتے اور اگر نئے فیصلے کی ضرورت ہوتی تو باہمی مشاورت سے نیا فیصلہ کر لیتے۔ یہ سب کچھ قرآن کی روشنی میں ہوتا تھا۔ یہی طریقہ رسول اللّٰہﷺ کا تھا اور اسی کو حضور ﷺ کے جانشینوں نے قائم رکھا۔ اسی کا نام اتباعِ سُنّت رسول اللّٰہﷺ ہے۔
اگر فرض کر لیا جائے کہ جیسا کہ آپ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ جو کچھ کرتے تھے، وحی کی رو سے کرتے تھے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ خدا کو اپنی طرف سے بھیجی ہوئی ایک قسم کی وحی پر (نعوذ باللّٰہ) تسلی نہ ہوئی۔ چنانچہ دوسری قسم کی وحی کا نزول شروع ہو گیا۔ یہ دو رنگی وحی آخر کیوں؟ پہلے آنے والے نبیوں پر جب وحی نازل ہوئی تو اس میں نزولِ قرآن کی طرف اشارہ تھا۔ تو کیا اس اللّٰہ کے لیے جو ہر چیز پر قادر ہے، یہ بڑا مشکل تھا کہ دوسری قسم کی وحی جس کا آپ ذکر کرتے ہیں، اس کا قرآن میں اشارہ کر دیتا۔ مجھے تو قرآن میں کوئی ایسی چیز نظر نہیں آتی۔ اگر آپ کسی آیت کی طرف اشارہ فرما سکیں، مشکور ہوں گا۔ والسلام
مخلص… عبدالودود

شیئر کریں