۲۸۔اب میںاس امرکی وضاحت کرناچاہتاہوںکہ ڈائریکٹ ایکشن سے میرے اختلاف کے وجوہ کیاتھے ۔اس طریق کارسے میرااختلاف اصولی بھی تھااورعملی پہلوسے بھی تھا۔میںیہاںعلی الترتیب دونوںپہلوئوںسے اپنے نقطہ نظرکی تشریح کروںگا۔
(الف)برعظیم ہندوپاکستان’’ڈائریکٹ ایکشن ‘‘کے تصورسے ابتداًکانگرس کے ذریعے سے روشناس ہواہے اوربعدمیںاس طریق کارکو۱۹۴۶ء اور۱۹۴۷ء میںمسلم لیگ نے بھی اختیارکیاتھاجب کہ قائداعظم مرحوم اس کے لیڈرتھے۔اس تاریخی پس منظرمیںاس لفظ کوان معنوںمیںنہیںلیاجائے گاجوامریکہ میںکبھی اس سے مرادلیے گئے تھے، بلکہ ان معنوں میںلیاجائے گاجوخودہمارے براعظم میںرائج رہے ہیں۔یہاںاس کاجوتصور رہا ہے وہ قائداعظم مرحوم کی ۲۹/جولائی۱۹۴۶ء والی تقریرسے جوانھوںنے آل انڈیامسلم لیگ کونسل کے اجلاس بمبئی میںفرمائی تھی‘بہترین طورپرواضح ہوتاہے۔انھوںنے فرمایا تھا:
’’آج جوکام ہم نے کیاہے وہ ہماری تاریخ میںیادگاررہے گا۔لیگ کی پوری تاریخ میںہم نے کبھی دستوری ذرائع اورآئین پسندی سے ہٹ کرکوئی قدم نہیںاٹھایاہے لیکن اب ہمیںیہ پوزیشن اختیارکرنے پرمجبورکردیاگیاہے۔آج کے دن ہم آئینی طریقوں کو الوداع کہہ رہے ہیں۔کابینہ کے وفداوروائسراے سے فیصلہ کن گفت وشنیدکے دوران میں مقابلے کے دونوںفریق …برطانیہ اورکانگرس…اپنے ہاتھ میںایک ایک پستول تھامے ہوئے تھے۔ ایک کے ہاتھ میںاقتداراورفوجی سازوسامان کاپستول تھااوردوسرے کے ہاتھ میںعوامی جدوجہداورعدم تعاون کا۔آج ہم نے بھی ایک پستول تیارکرلیاہے اورہم اس کے استعمال پرقادرہیں۔تجاویزکوردکرنے اورڈائریکٹ ایکشن شروع کرنے کافیصلہ جلدی میں نہیںکیاگیاہے بلکہ یہ فیصلہ پورے احساس ذمہ داری کے ساتھ اورامکان کی حدتک کامل غوروخوض کے بعدکیاگیاہے‘‘۔
آگے چل کروہ اپنی اسی تقریرمیںفرماتے ہیں:
’’میںنہیںسمجھتاکہ کوئی ذمہ دارآدمی مجھ سے اس امرمیںاختلاف کرے گاکہ ہماری خواہش یہی تھی کہ صورت حال کواس حدتک نہ بگڑنے دیاجائے کہ خون خرابے اورسول وارکی نوبت آئے۔اگرممکن ہواتواس صورت حال سے احترازکیاجائے گا‘‘۔
اس تقریر کااختتام مرحوم نے ان الفاظ میںفرمایا:
’’اگرتم امن چاہتے ہوتوہم بھی جنگ نہیںچاہتے لیکن اگرتم لڑائی چاہتے ہوتوہم اسے بلاتامل قبول کریںگے۔‘‘ (مسٹرجناح کی تقریریںاورتحریریں‘جلددوم‘ص ۴۱۹تاصفحہ۴۲۲)
یہ ہے ڈائریکٹ ایکشن کی نظریاتی تشریح ۔اوراس کی عملی تشریح وہ ایجی ٹیشن ہے جو۱۹۴۷ء کے آغازمیںپنجاب مسلم لیگ نے سرخضرحیات خاںکی وزارت توڑنے کے لیے کیاتھا۔جس میںپنجاب کی موجودہ نون وزارت اورپچھلی دولتانہ وزارت اوراس سے پہلے کی ممدوٹ وزارت کے اکثروبیشترارکان نے سب سے آگے بڑھ کرقوانین توڑے تھے۔جس میں ایک اہم کرداراداکرنے کے لیے خواجہ ناظم الدین صاحب مرکزی مسلم لیگ کی طرف سے پنجاب بھیجے گئے تھے اورجس میںپبلک کے مظاہرات کارنگ ڈھنگ دیکھنے والی آنکھیں اب بھی موجودہیں۔
(ب)آل مسلم پارٹیزکنونشن کے اجلاس میںجب پہلی مرتبہ میرے سامنے تاج الدین انصاری صاحب کاریزولیوشن آیااوراس پرمیںنے ان کی اوردوسرے مویّدین کی تقریریںسنیںتومیںنے یہی سمجھاکہ یہ حضرات وہی قدم اٹھاناچاہتے ہیںجس کی تشریح اوپرضمنی پیراگراف (الف)میںکی گئی ہے۔خوداحراراپنی تاریخ میںاس سے پہلے کئی مرتبہ اسی طرح کے قدم اٹھاچکے ہیںاس لیے ان کی تجویزکاکوئی اورمفہوم میںنہیںسمجھ سکتا تھا۔ مجھے یادہے کہ اس موقع پرتقریروںمیں’’ڈائریکٹ ایکشن‘‘اور’’راست اقدام ‘‘دونوں اصطلاحیںاستعمال کی گئیںتھیںاور’’راست‘‘اور’’براہ راست ‘‘کادلچسپ فرق جواب کیا گیا ہے‘اس وقت پیش نظرنہیںتھا۔