احوال اور حوادث کے جو تغیرات، احکام میں تغیر یا جدید احکام وضع کرنے کے مقتضی ہوں ان کو دو حیثیتوں سے جانچنا ضروری ہے۔ ایک یہ حیثیت کہ وہ حالات بجائے خود کس قسم کے ہیں، ان کی خصوصیات کیا ہیں اور ان کے اندر کون سی قوتیں کام کر رہی ہیں ۔ دوسری یہ حیثیت کہ اسلامی قانون کے نقطۂ نظر سے ان میں کس کس نوع کے تغیرات ہوئے ہیں اور ہر نوع کا تغیر احکام میں کس طرح کا تغیر چاہتا ہے۔
مثال کے طور پر اسی سود کے مسئلے کو لیجیے جو اس وقت زیر بحث ہے۔ معاشی قوانین کی تدوینِ جدید کے لیے ہم کو سب سے پہلے زمانۂ حال کی معاشی دنیا کا جائزہ لینا ہوگا۔ ہم گہری نظر سے معاشیات، مالیات اور لین دین کے جدید طریقوں کا مطالعہ کریں گے۔ معاشی زندگی کے باطن میں جو قوتیں کام کر رہی ہیں ان کو سمجھیں گے۔ ان کے نظریات اور اصول سے واقفیت حاصل کریں گے، اور ان اصول و نظریات کا ظہور جن عملی صورتوں میں ہو رہا ہے ان پر اطلاع حاصل کریں گے۔ اس کے بعد ہم یہ دیکھیں گے کہ زمانۂ سابق کی بہ نسبت ان معاملات میں جو تغیرات ہوئے ہیں ان کو اسلامی قانون کے نقطۂ نظر سے کن اقسام پر منقسم کیا جاسکتا ہے، اور ہر قسم پر شریعت کے مزاج اور اس کے مقاصد اور اصولِ تشریع کی مناسبت سے کس طرح کے احکام جاری ہونے چاہئیں۔
جزئیات سے قطع نظر کر کے، اصولاً ان تغیرات کو ہم دو قسموں پر منقسم کرسکتے ہیں:
۱۔ وہ تغیرات جو درحقیقت تمدنی احوال کے بدل جانے سے رونما ہوئے ہیں اور جو اصل انسان کے علمی و عقلی نشوو ارتقاء، اور خزائنِ الٰہی کے مزید اکتشافات، اور مادی اسباب و وسائل کی ترقی، اور حمل و نقل اور مخابرات (communications) کی سہولتوں اور ذرائع پیداوار کی تبدیلی، اور بین الاقوامی تعلقات کی وسعتوں کے طبعی نتائج ہیں۔ ایسے تغیرات اسلامی قانون کے نقطۂ نظر سے طبیعی اور حقیقی تغیرات ہیں۔ ان کو نہ تو مٹایا جاسکتا ہے اور نہ مٹانا مطلوب ہے، بلکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان کے اثر سے معاشی احوال اور مالی معاملات اور تجارتی لین دین کی جو نئی صورتیں پیدا ہو گئی ہیں، ان کے لیے اصولِ شریعت کے تحت نئے احکام وضع کیے جائیں تا کہ ان بدلے ہوئے حالات میں مسلمان اپنے عمل کو ٹھیک ٹھیک اسلامی طرز پر ڈھال سکیں۔
۲۔ وہ تغیرات جو دراصل تمدنی ترقی کے فطری نتائج نہیں ہیں، بلکہ دنیا کے معاشی نظام اور مالی معاملات پر ظالم سرمایہ داروں کے حاوی ہو جانے کی وجہ سے رونما ہوئے ہیں، وہی ظالمانہ سرمایہ داری جو عہدِ جاہلیت میں پائی جاتی تھی(۱)اور جس کو اسلام نے صدیوں تک مغلوب کیے رکھا تھا، اب دوبارہ معاشی دنیا پر غالب آگئی ہے، اور تمدن کے ترقی یافتہ اسباب و وسائل سے کام لے کر اس نے اپنے انھی پرانے نظریات کو نت نئی صورتوں سے معاشی زندگی کے مختلف معاملات میںپھیلا دیا ہے۔ سرمایہ داری کے اس غلبے سے جو تغیرات واقع ہوئے ہیں وہ اسلامی قانون کی نگاہ میں حقیقی اور طبعی تغیرات نہیں ہیں،بلکہ جعلی تغیرات ہیں جنہیں قوت سے مٹایا جاسکتا ہے، اور جن کا مٹا دیا جانا نوع انسانی کی فلاح و بہبود کے لیے ضروری ہے۔ مسلمان کا اصلی فرض یہ ہے کہ اپنی پوری قوت ان کے مٹانے میں صرف کر دے اور معاشی نظام کو اسلامی اصول پر ڈھالنے کی کوشش کرے۔ سرمایہ داری کے خلاف جنگ کرنے کا فرض کمیونسٹ سے بڑھ کر مسلمان پر عائد ہوتا ہے۔ کمیونسٹ کے سامنے محض روٹی کا سوال ہے، اور مسلمان کے سامنے دین و اخلاق کا سوال کمیونسٹ محض صعالیک (proketariates) کی خاطر جنگ کرنا چاہتا ہے، اور مسلمان تمام نوعِ بشری کے حقیقی فائدے کے لیے جنگ کرتا ہے جس میں خود سرمایہ دار بھی شامل ہیں۔ کمیونسٹ کی جنگ خود غرضی پر مبنی ہے اور مسلمان کی جنگ للہیت پر۔ لہٰذا مسلمان تو موجودہ ظالمانہ سرمایہ داری نظام سے کبھی مصالحت کر ہی نہیں سکتا۔ اگر وہ مسلم ہے اور اسلام کا پابند ہے تو اس کے خدا کی طرف سے اس پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ اس ظالمانہ نظام کو مٹانے کی کوشش کرے ، اور اس جنگ میں جو ممکن نقصان اس کو پہنچ سکتا ہو اسے مردانہ وار برداشت کرے۔ معاشی زندگی کے اس شعبے میں اسلام جو قانون بھی بنائے گا اس کی غرض یہ ہر گز نہ ہوگی کہ مسلمانوں کے لیے سرمایہ داری نظام میں جذب ہونے اور اس کے ادارات میں حصہ لینے اور اس کی کامیابی کے اسباب فراہم کرنے میں سہولتیں پیدا کی جائیں، بلکہ اس کی واحد غرض یہ ہوگی کہ مسلمانوں کو اور تمام دنیا کو اس گندگی سے محفوظ رکھا جائے، اور ان تمام دروازوں کو بند کیا جائے جو ظالمانہ اور ناجائز سرمایہ داری کو فروغ دیتے ہیں۔