اس سوال پر گفتگو شروع کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ بعض ایسی غلط فہمیوں کو صاف کر دیا جائے جو نہ صرف اس معاملے میں، بلکہ عملی اصلاح کے ہر معاملے میں لوگوں کے ذہنوں کو الجھایا کرتی ہیں۔
سب سے پہلی غلط فہمی تو وہی ہے جس کی بنا پر مذکورہ بالا سوال پیدا ہوا ہے۔ عقلی حیثیت سے سود ایک غلط چیز ہے اور نقلی حیثیت سے بھی خدا اور اس کے رسولؐ نے ہر قسم کے سود کو حرام کیا ہے۔ اس کے بعد لوگوں کا یہ پوچھنا کہ ’’کیا اس کے بغیر کام چل بھی سکتا ہے؟‘‘ اور کیا یہ قابل عمل بھی ہے؟‘‘ دوسرے الفاظ میں گویا یہ کہنا ہے کہ خدا کی اس خدائی میں کوئی غلطی ناگزیر بھی ہے ، اور کوئی راستی ناقابلِ عمل بھی پائی جاتی ہے۔ یہ دراصل فطرت اور اس کے نظام کے خلاف عدمِ اعتماد کا ووٹ ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ہم ایک ایسے فاسد نظامِ کائنات میں سانس لے رہے ہیں جس میں ہماری بعض حقیقی ضرورتیں غلطیوں اور بدکرداریوں سے وابستہ کر دی گئی ہیں اور بعض بھلائیوں کے دروازے جان بوجھ کر ہم پر بند کر دیئے گئے ہیں۔ یا اس سے بھی گزر کر یہ بات ہمیں اس نتیجے پر پہنچاتی ہے کہ فطرت خود اس قدر ٹیڑھی واقع ہوئی ہے کہ جو کچھ خود اس کے اپنے قوانین کی رو سے غلط ہے وہی اس کے نظام میں مفید اور ضروری اور قابل عمل ہے، اور جو کچھ اس کے قوانین کی رو سے صحیح ہے وہی اس کے نظام میں غیر مفید اور ناقابل عمل ہے۔
کیا واقعی ہماری عقل اور ہمارے علوم اور ہمارے تاریخی تجربات مزاجِ فطرت کو اسی بدگمانی کا مستحق ثابت کرتے ہیں؟ کیا یہ سچ ہے کہ فطرت بگاڑ کی حامی اور بنائو کی دشمن ہے۔ اگر یہ بات ہے تب تو ہمیں اشیاء کی صحت اور غلطی کے متعلق اپنی ساری بحثیں لپیٹ کر رکھ دینی چاہئیں اور سیدھی طرح زندگی سے استعفاء دے دینا چاہیے۔ کیوں کہ اس کے بعد تو ہمارے لیے امید کی ایک کرن بھی اس دنیا میں باقی نہیں رہتی ۔ لیکن اگر ہماری اور کائنات کی فطرت اس سُوءِ ظن کے لائق نہیں ہے تو پھر ہمیں یہ اندازِ فکر چھوڑ دینا چاہیے کہ ’’فلاں چیز ہے تو بری مگر کام اسی سے چلتا ہے‘‘ اور ’’فلاں چیز ہے تو برحق مگر چلنے والی چیز نہیں ہے۔‘‘
حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں جو طریقہ بھی رواج پا جاتا ہے، انسانی معاملات اسی سے وابستہ ہو جاتے ہیں اور اس کو بدل کر کسی دوسرے طریقے کو رائج کرنا مشکل نظر آنے لگتا ہے۔ ہر رائج الوقت طریقے کا یہی حال ہے ، خواہ وہ طریقہ بجائے خود صحیح ہو یا غلط۔ دشواری جو کچھ بھی ہے تغیر میں ہے اور سہولت کی اصل وجہ رواج کے سوا کچھ نہیں ۔ مگر نادان لوگ اس سے دھوکا کھا کر یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ جو غلطی رائج ہو چکی ہے انسانی معاملات بس اسی پر چل سکتے ہیں اور اس کے سوا دوسرا کوئی طریقہ قابلِ عمل ہی نہیں ہے۔
دوسری غلط فہمی اس معاملے میں یہ ہے کہ لوگ تغیر کی دشواری کے اصل اسباب کو نہیں سمجھتے اور خواہ مخواہ تجویزِ تغیر کے سر پر ناقابلِ عمل ہونے کا الزام تھوپنے لگتے ہیں۔ آپ انسانی سعی کے امکانات کا بہت ہی غلط اندازہ لگائیں گے اگر رائج الوقت نظام کے خلاف کسی تجویز کو بھی ناقابلِ عمل سمجھیں گے۔ جس دنیا میں انفرادی ملکیت کی کامل تنسیخ اور مکمل اجتماعی ملکیت کی ترویج جیسی انتہائی انقلاب انگیز تجویز تک عمل میں لا کر دکھا دی گئی ہو وہاں یہ کہنا کس قدر لغو ہے کہ سود کی تنسیخ اور زکوٰۃ کی تنظیم جیسی معتدل تجویزیں قابلِ عمل نہیں ہیں۔ البتہ یہ صحیح ہے کہ رائج الوقت نظام کو بدل کر کسی دوسرے نقشے پر زندگی کی تعمیر کرنا ہر عمر و زید کے بس کا کام نہیں ہے۔ یہ کام صرف وہ لوگ کرسکتے ہیں جن میں دو شرطیں پائی جاتی ہوں:
ایک یہ کہ وہ فی الحقیقت پرانے نظام سے منحرف ہو چکے ہوں اور سچے دل سے اس تجویز پر ایمان رکھتے ہوں جس کے مطابق نظامِ زندگی میں تغیر کرنا پیش نظر ہے۔
دوسرے یہ کہ ان میں تقلیدی ذہانت کے بجائے اجتہادی ذہانت پائی جاتی ہو۔ وہ محض اس واجبی سی ذہانت کے مالک نہ ہوں جو پرانے نظام کو اس کے اماموں کی طرح چلا لے جانے کے لیے کافی ہوتی ہے، بلکہ اس درجے کی ذہانت رکھتے ہوں، جو پامال راہوں کو چھوڑ کر نئی راہ بنانے کے لیے درکار ہوتی ہے۔
یہ دو شرطیں جن لوگوں میں پائی جاتی ہوں وہ کمیونزم اور نازی ازم اور فاشزم جیسے سخت انقلابی مسلکوں کی تجاویز تک عمل میں لاسکتے ہیں۔ اور ان شرطوں کا جن میں فقدان ہو وہ اسلام کے تجویز کیے ہوئے انتہائی معتدل تغیرات کو بھی نافذ نہیں کرسکتے۔
ایک چھوٹی سی غلط فہمی اس معاملے میں اور بھی ہے۔ تعمیری تنقید اور اصلاحی تجویز کے جواب میں جب عمل کا نقشہ مانگا جاتا ہے تو کچھ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ لوگوں کے نزدیک عمل کی جگہ شاید کاغذ ہے۔ حالانکہ عمل کاغذ پر نہیں زمین پر ہوا کرتا ہے۔ کاغذ پر کرنے کا اصل کام تو صرف یہ ہے کہ دلائل اور شواہد سے نظامِ حاضر کی غلطیاں اور ان کی مضرتیں واضح کر دی جائیں اور ان کی جگہ جو اصلاحی تجویزیں ہم عمل میں لانا چاہتے ہیں ان کی معقولیت ثابت کر دی جائے۔ اس کے بعد جو مسائل عمل سے تعلق رکھتے ہیں ان کے بارے میں کاغذ پر اس سے زیادہ کچھ نہیں کیا جاسکتا کہ لوگوں کو ایک عام تصور اس امر کا دیا جائے کہ پرانے نظام کے غلط طریقوں کو کس طرح مٹایا جاسکتا ہے، اور ان کی جگہ نئی تجویزیں کیوں کر عمل میں لائی جاسکتی ہیں۔ رہا یہ سوال کہ اس شکست و ریخت کی تفصیلی صورت کیا ہوگی، اور اس کے جزوی مراحل کیا ہوں گے، اور ہر مرحلے میں پیش آنے والے مسائل کو حل کیسے کیا جائے گا، تو ان امور کو نہ تو کوئی شخص پیشگی جان سکتا ہے اور نہ ان کا کوئی جواب دے سکتا ہے۔ اگر آپ اس امر پر مطمئن ہوچکے ہوں کہ موجودہ نظام واقعی غلط ہے اور اصلاح کی تجویز بالکل معقول ہے تو عمل کی طرح قدم اٹھایئے اور زمامِ کار ایسے لوگوں کے ہاتھ میں دیجیے جو ایمان اور اجتہادی ذہانت رکھتے ہوں۔ پھر جو عملی مسئلہ جہاں پیدا ہوگا اسی جگہ وہ حل ہو جائے گا۔ زمین پر کرنے کا کام آخر کاغذ پر کر کے کیسے دکھایا جاسکتا ہے؟
اس توضیح کے بعد یہ کہنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی کہ اس باب میں جو کچھ ہم پیش کریں گے وہ غیر سودی مالیات کا کوئی تفصیلی نقشہ نہ ہوگا بلکہ اس چیز کا صرف ایک عام تصور ہوگا کہ سود کو اجتماعی مالیات سے خارج کرنے کی عملی صورت کیا ہوسکتی ہے اور وہ بڑے بڑے مسائل جو اخراجِ سود کا خیال کرتے ہی بادی النظر میں آدمی کے سامنے آجاتے ہیں، کس طرح حل کیے جاسکتے ہیں۔