آگے چل کر فاضل جج فرماتے ہیں کہ احادیث کے مجموعوں میں ایسی حدیثیں بھی موجود ہیں جن کو صحیح ماننا سخت مشکل ہے۔ اس کے لیے مثال کے طور پر وہ ۱۳ حدیثیں مشکوٰۃ کے اس انگریزی ترجمے سے نقل فرماتے ہیں جو الحاج مولوی فضل الکریم صاحب ایم اے بی ایل نے کیا ہے اور کلکتہ سے ۱۹۳۸ء میں شائع ہوا ہے۔ قبل اس کے کہ ہم ان احادیث پر محترم جج صاحب کے اعتراضات کے بارے میں کچھ عرض کریں، ہمیں بڑے افسوس کے ساتھ یہ بات کہنی پڑتی ہے کہ مشکوٰۃ کے اس ترجمے میں مترجم نے ایسی فاش غلطیاں کی ہیں جو علم حدیث ہی سے نہیں، عربی زبان سے بھی ان کی ناواقفیت کا ثبوت دیتی ہیں اور بدقسمتی سے فاضل جج نے ان تمام غلطیوں سمیت اس کی عبارتیں نقل کر دی ہیں۔ اگرچہ اس کا مسئلہ زیر بحث سے کوئی تعلق نہیں ہے، لیکن ہم یہاں صرف اس بات کی طرف توجہ دلانے کے لیے اس معاملے کا ذکر کرتے ہیں کہ پاکستان اس وقت دُنیا کی سب سے بڑی مسلم ریاست ہے۔ اس کی عدالت عالیہ کے فیصلے میں حدیث کی قانونی حیثیت پر اس قدر دور رس بحث کی جائے، اور پھر حدیث کے علم وفن سے اتنی سرسری، بلکہ ناقص واقفیت کا کھلا کھلا ثبوت بہم پہنچایا جائے۔ یہ چیز آخر دُنیا کے اہل علم پر کیا اثر ڈالے گی اور ہماری عدالتوں کے وقار میں کیا اضافہ کرے گی؟ مثال کے طور پر پہلی ہی حدیث کے دو فقرے ملاحظہ ہو: وای شانہ لم یکن عجباً کا ترجمہ ’’اور اس سے زیادہ عجیب بات اور کیا ہوسکتی ہے‘‘ کیا گیا ہے، حالانکہ اس کا صحیح ترجمہ یہ ہے: ’’ان کی کون سی بات عجیب نہ تھی۔‘‘ ذَرِیْنِیْ اَ تعَبَّدُکو مترجم نے ذَرِیْنِیْ اَتَعْبُدُ لِرَبِّیْ پڑھا اور اس کا ترجمہ یوں کر دیا : ’’چھوڑ دے مجھ کو، کیا تو میرے رب کی عبادت کرے گی؟‘‘حالانکہ صرف یہ ترجمہ ہی مہمل نہیں ہے، بلکہ اصل عبارت کو پڑھنے میں مترجم نے وہ غلطی کی ہے جو عربی گرامر کی ابجد سے واقفیت رکھنے والا آدمی بھی نہیں کر سکتا۔ تَعْبُدُ صیغہ مذکر ہے اور سیاق عبارت بتا رہا ہے کہ مخاطب عورت ہے۔ عورت کو خطاب کرکے تَعْبُدِیْنِکہا جاتا نہ کہ تَعْبُدُ۔ صحیح ترجمہ اس فقرے کا یہ ہے کہ ’’مجھے چھوڑ دے تاکہ میں اپنے رب کی عبادت کروں۔‘‘ اس طرح کی غلطیوں کو دیکھ کر آخر کون صاحب علم یہ باور کرے گا کہ فاضل جج حدیث کے علم میں کم از کم اتنا درک رکھتے ہیں جتنا کسی فن پر ماہرانہ رائے دینے کے لیے ناگزیر ہے۔