(۱)سب سے پہلے یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ مولانامودودی کوفوج میں مضرت رساں پروپیگنڈاکرنے یاخفیہ بیرونی امدادحاصل کرنے کے الزام میںکبھی بھی ماخوذنہیںکیاگیا۔نیزباوجودکوشش جماعت اسلامی کے خلاف آج تک ایک واقعہ بھی ایسا ثابت نہیں کیا جاسکتا جس کو خلاف قانون یامنافی جمہوریت قراردیاجاسکے۔
(۲)تحریک راست اقدام یعنی ڈائریکٹ ایکشن کے سلسلہ میںجماعت اسلامی کا دامن ہرقسم کی غیرقانونی سرگرمیوںسے پاک رہا۔اس پروگرام سے جماعت کے اختلاف اورعلیحدگی سے لوگ بخوبی واقف تھے۔حتیٰ کہ وزیراعظم پاکستان پارلیمنٹ میںبرسراجلاس اس کااعتراف کیاتھا۔
(۳)جماعت اسلامی کے رہنمائوںنے ملک کے دیگرزعما کے ساتھ حکومت سے تعاون کرتے ہوئے لاقانونیت اوربدامنی کوروکنے کی ہرممکن کوشش کی تھی۔
(۴)حکومت کی غلط پالیسی اورارباب اختیاروممبران اسمبلی کی مسئلہ قادیانیت سے ناواقفیت کودیکھتے ہوئے مولانامودودی نے جولائی ۱۹۵۲ء سے مسلسل مضامین لکھ کراس مسئلہ کی مذہبی ‘سیاسی‘معاشی اورمعاشرتی نوعیت سے آگاہ کرنے اوراس پیچیدہ مسئلہ کامعقول عملی حل سمجھانے کی کوششیںکیں۔
(۵)’’قادیانی مسئلہ ‘‘نامی پمفلٹ فروری ۱۹۵۳ء کے تیسرے ہفتہ میں لکھا گیا اور اس ماہ میںاس کی کتابت بھی مکمل ہوگئی تھی۔
(۶)لاہورمیںمارشل لا کانفاد۶/مارچ۱۹۵۳ء سے ہوا۔مذکورہ پمفلٹ اس سے قبل ہی شائع ہوچکاتھا۔اخباری بیانات بھی ۲۸/فروری ۱۹۵۳ء اور۵/ مارچ ۱۹۵۳ء کوپریس کودے دیے گئے تھے۔اس لیے اگرکوئی مقدمہ قائم ہی کیاجاناتھاتواس کی سماعت سول کورٹ میںہونی چاہیے تھی۔کیونکہ یہ دونوںکام مارشل لا کے نفادسے قبل انجام دئیے جاچکے تھے۔
(۷)مولانامودودی اورجماعت اسلامی کے دیگر۱۲سرکردہ ارکان کی لاہورمیں گرفتاری ۲۸/مارچ ۱۹۵۳ء کوعمل آئی۔لیکن ۳/مئی ۱۹۵۳ء تک ان میںسے کسی کویہ پتہ نہیںچلاکہ آخراس کاجرم کیاہے؟
(۸)اگرمولانامودودی کاجرم صرف ایک پمفلٹ ’’قادیانی مسئلہ ‘‘لکھنا اور اخبارات کودوبیانات دیناہی تھاتوگرفتاریوںکے وقت بیت المال کاروپیہ‘حسابات کے رجسٹراوردفترجماعت کاریکارڈپولیس نے اپنے قبضہ میںکیوںلیا؟اوراب تک کیوںواپس نہیںکیاہے؟
(۹)پھرقلعہ لاہورمیںبجائے پمفلٹ یابیانات سے متعلق سوالات کرنے کے ایک مہینہ ۶دن تک مولانامودودی اوران کے رفقا سے جماعت اسلامی کے مالی وسائل،ذرائع آمدنی اورکسی بیرونی طاقت سے تعلق کے بارے میںتفتیش وجرح کس مقصدکے تحت ہوتی رہی؟
(۱۰)مولانامودودی اورملک نصراللہ خان عزیزوسیدنقی علی پربہرحال کسی نہ کسی قسم کا مقدمہ چلایاگیا۔لیکن جماعت اسلامی کے دیگراکابرمثلاًمولاناامین احسن اصلاحی‘ مولانا مسعودعالم ندوی‘مولاناعبدالغفارحسن‘حکیم عبدالرحیم اشرف‘غازی محمدعبدالجبار ‘ نعیم صدیقی اورطفیل محمدصاحب کاجرم کیاہے۔پھرمولاناامین احسن اصلاحی‘ نعیم صدیقی ‘ چودھری محمداکبر‘ فقیرحسین اورملک غلام علی وغیرہ کواڑتالیس گھنٹہ کی عارضی رہائی کے بعددوبارہ کیوں گرفتار کیاگیا؟آج تک ان پرکسی نہ کسی نوع کے الزام میںکوئی مقدمہ کیوں نہیں چلایا گیا؟ اوراب مارشل لا ختم ہوجانے کے بعدبھی ان بے گناہوں کو رہا کیوںنہیںکیاجاتا؟
(۱۱)یہ واقعہ ہے کہ ’’قادیانی مسئلہ‘‘پمفلٹ کے اردو‘انگریزی‘سندھی اورگجراتی زبانوںمیںکئی کئی ایڈیشن نکل چکے ہیں۔عربی اوربنگلہ تراجم کوملاکراس کی اشاعت ایک لاکھ کے لگ بھگ پہنچ چکی ہے۔لیکن آج تک نہ توسنٹرل گورنمنٹ نے پاکستان میں کسی جگہ اس کتاب کوقابل اعتراض ٹھہرایا،نہ کسی صوبائی حکومت نے اپنے علاقہ میںاس کوممنوع ٹھہرایانہ خودفوجی حکام نے مارشل لا کے زمانہ میںاس پمفلٹ پرکوئی پابندی لگائی‘یہی نہیںبلکہ مارشل لا حکام نے باوجوداستفسارکے اس کتابچہ کونہ صرف یہ کہ ضبط نہیںکیابلکہ بازارسے اپنی تحویل میںلیاہواسٹاک واپس کردیا۔جواسی زمانہ میںکھلے عام فروخت ہوتارہا۔یہ تمام شہادتیںفوجی عدالت کے ریکارڈمیںآچکی ہیں۔
(۱۲)یہ بات بھی قابل غورہے کہ مولانامودودی پر’’قادیانی مسئلہ ‘‘پمفلٹ لکھنے کی وجہ سے ضابطہ مارشل لا نمبر۸ بشمول تعزیرات پاکستان کی دفعہ ۱۵۳/الف یعنی رعایاکے درمیان دشمنی ومنافرت پھیلانے اوردواخباری بیانات جاری کرنے کے سبب سے ضابطہ مارشل لا نمبر۸بشمول دفعہ ۱۲۴/الف یعنی حکومت کے خلاف بغاوت پھیلانے کے جرم میںمقدمہ چلاہے۔یہ وہی دفعات ہیںجن کے تحت یکم جنوری ۱۹۵۳ء کوکراچی میںشام کے انگریزی روزنامے ’’ایوننگ ٹائمز‘‘کے ایڈیٹرمسٹرزیڈاے سلہری پرمقدمہ چلاتھا۔جس میں آخرکارمسٹرجسٹس لاری نے ان کودونوںالزامات سے بری قراردیااوراپنے تاریخی فیصلہ میںنہ صرف حکومت پرتنقیدکرنے کے مسئلہ پرسیرحاصل بحث کی بلکہ پاکستان کی آزاد مملکت میںبدلے ہوئے حالات کے تحت بغاوت کے مفہوم اورقانونی تعریف پر نظر ثانی کیے جانے کی ضرورت کابھی اظہارفرمایا۔زیربحث پمفلٹ اوربیانات کی اشاعت خود استغاثہ کے اعتراف واقرارکے بموجب مارشل لا کے نفادسے قبل واقع ہوجانے کی وجہ سے فی الواقع مارشل لا کی زدمیںنہیںآتی تھی۔زیادہ سے زیادہ مذکورہ بالادودفعات کے ماتحت اوروہ بھی سول عدالت میںمقدمہ چلایا جاسکتا تھا، لیکن مارشل لاریگولیشن نمبر ۲۴ نافذشدہ ۱۱/مارچ ۱۹۵۳ء کی روسے فوجی حکام نے مارشل لا کے نفاذسے قبل سرزدہونے والے جرائم کی سماعت کااختیاربھی حاصل کرلیااورمارشل لا آرڈرنمبر۴۸زیرریگولیشن نمبر ۸‘ نافذشدہ ۲۶/مارچ ۱۹۵۳ء کی روسے قابل اعتراض مطبوعات وغیرہ کی سزاموت یا۱۴سال قیدبامشقت مقررکردی۔بعد میںگورنرجنرل پاکستان کے ۹مئی ۱۹۵۳ء کے خاص آرڈنینس نے فوجی عدالتوںکوقانونی لحاظ سے اس کامجازقراردیانیزان فیصلوںکے خلاف کسی عدالت میںاپیل دائرکرنے کاحق بھی سلب کرلیا۔
(۱۳)مولانامودودی کابیان روزنامہ ’’تسنیم‘‘لاہورمیںہی نہیںبلکہ لاہوروکراچی وغیرہ کے دیگراخبارات میںبھی شائع ہوالیکن مقدمہ صرف ایڈیٹر’’تسنیم‘‘پرہی چلا۔ نیز مارشل لا کے دوران لاہورمیںکئی اخبارات بندکیے گئے لیکن ’’تسنیم‘‘پریہ خاص عنایت کی گئی کہ اس کومارشل لا کے بعدسیفٹی ایکٹ کاشکاربھی بنالیاگیاہے۔
(۱۴)ماہ نامہ ’’ترجمان القرآن‘‘(مرتبہ: سیدابولاعلیٰ مودودی)کے لیے پریس کی تبدیلی کی درخواست جوعام طورپرچندگھنٹوںمیںمنظورہوجاتی ہے آج تین ماہ گزرجانے کے بعدبھی اس کی اجازت نہیںملی ہے۔
آخرمیںیہ عرض کرناضروری ہے کہ:
(۵)پاکستان ایک جمہوری مملکت ہونے کادعوی دارہے۔ہرجمہوری ملک میںچونکہ پارٹی گورنمنٹ کاطریقہ ہوتاہے‘اس لیے دوسری جماعتوںکوبرسراقتدارپارٹی کی غلطیوں کو عوام کے سامنے پیش کرنے کاپوراحق حاصل ہوتاہے۔بلکہ رائے عام کوہموارومنظم کرکے آئینی طریقہ پرحکمراںپارٹی کواقتدارسے ہٹانے کابھی تمام پارٹیوںکوحق ہوتاہے۔یہی وجہ ہے کہ ایک جمہوریت میںحزب اختلاف کواتنی ہی اہمیت حاصل ہوتی ہے جتنی کہ برسراقتدارپارٹی کو۔
پس مولانامودودی کوبھی ایک منظم پارٹی کے رہنمااورحزب اختلاف کے لیڈرکی حیثیت سے اس بات کوپوراپوراحق حاصل ہے بلکہ ان کافرض ہے کہ جس مسئلہ میںبھی وہ حکومت کے کسی اقدام یاپالیسی کوغلط سمجھتے ہوںاس پرکھلم کھلادلائل کے ساتھ تنقیدکرکے برسراقتدارپارٹی کے خلاف آئینی طریقہ پررائے عامہ کوتیارکریں۔
ان تمام واقعات کواگرپیش نظررکھاجائے تویہ چیزکھل کرسامنے آتی ہے کہ وہ لوگ جو فسادات کے اصل ذمہ دارقراردیے جاتے ہیںیاجن پرلوگوںکے مشتعل جذبات کو ہوا دینے کاالزام ہے‘ ان کے خلاف توسرے سے کوئی کاررائی ہی نہیںکی گئی‘اس کے برعکس مولانا مودودی جنھوںنے نہایت جرأت سے کام لے کر’’راست اقدام‘‘کوعلی الاعلان غلط قرار دیااوراس طرح اپنے اوپراعتراضات کی بوچھاڑکی دعوت عام دی اورجن کے اس طرزِعمل کی خودوزیراعظم پاکستان نے برسرعام تعریف کی‘انہیںسزائے موت کاحکم سنایاگیا۔
اسے ستم ظریفی نہیںتواورکیاکہیے کہ وہ شخص جومعاملہ کوٹھنڈاکرتاہے‘دستوری حدودکی سختی سے پابندی کرتاہے اورجوپیچیدہ قادیانی مسئلہ کامعقول عملی حل پیش کرتاہے اوراپنے رفقا ومتبعین کواحکام جاری کرتاہے کہ ان میںسے کوئی بھی حدودقانون کونہ توڑے‘تواسے وہ سزاملتی ہے جومولاناکودی گئی اوروہ لوگ جوسازش کرنے‘اشتعال پھیلانے اورفسادات برپاکرنے کے الزامات میںبدنام ہوئے‘ان کوصرف اپنے منصب سے مستعفی ہوکرولایت کی سیرکے لیے نکل جانے کی زحمت دی جاتی ہے۔
جب صورت حال یہ ہے تومولانامودودی جیسی شخصیت کاجوامن وقانون کی بحالی اور حمایت کاایک طاقتورذریعہ ہے‘محض سیاسی اختلافات کی بناپرمیدان سے ہٹنا‘ان لوگوں کے حوصلوںاورامیدوںپرایک ضرب کاری ہے جوپاکستان میںامن وقانون کی حکومت اوراسلام کاراج دیکھناچاہتے ہیں۔مقام افسوس ہے کہ مولانامودودی کی خدا داد صلاحیتیں اورمقناطیسی شخصی اثرات بجائے استحکام پاکستان کی خدمت بجالانے کے جیل کی کو ٹھڑیوں میںمحبوس ہوں۔
٭…٭…٭…٭…٭