سوال-اپریل۱۹۷۶ء کے ترجمان القرآن میں آپ کا جو مقالہ بعنوان ’’اسلام کس چیز کا علم بردار ہے؟‘‘ چھپا ہے۔اس کے جملے ’’پیغمبر مافوق البشر نہیں ہوتا‘‘ کا کیا مفہوم ہے؟ کیا اس سے مراد خدائی اختیارات کا حامل ہونا ہے؟ یا بشریت سے ماورا ہونا؟ معترضین نے یہ نکتہ برآمد کیا ہے کہ مافوق البشر کا مطلب عام بشر سے فائق ہونا ہے اور پیغمبر اس معاملے میں فائق ہی ہوتے ہیں ۔
جواب-جواب دینے سے پہلے یہ بتا دینا ضروری ہے کہ یہ مقالہ دراصل غیرمسلموں کے سامنے اسلام پیش کرنے کے لیے لکھا گیا تھا۔ اس میں ان کے غلط عقائد کا ذکر کیے بغیر ان کی تردید اس طرح کی گئی ہے کہ اسلام کی صحیح تصویر ان کے سامنے رکھ دی گئی جسے دیکھ کر وہ خود سمجھ سکتے ہیں کہ ان کے مذہب میں کیا کیا غلط باتیں شامل ہوگئی ہیں ۔
’’پیغمبر فوق البشر نہیں ہوتا‘‘، اس فقرے سے کوئی معنی اخذ کرنے سے پہلے معترض کو دیکھنا چاہیے کہ میں نے کس سلسلۂ کلام میں یہ بات کہی ہے۔ اوپر سے عبارت یوں چلی آ رہی ہے کہ ’’رسول ایک انسان ہے اور خدائی میں اس کا ذرہ برابر بھی کوئی حصہ نہیں ہے۔‘‘ اس کے معاً بعد یہ کہنا کہ ’’وہ فوق البشر نہیں ہے‘‘ صاف طور پر یہ معنی رکھتا ہے کہ وہ بشریت سے ماورا اور خدائی صفات سے متصف نہیں ہے، جیسا کہ دوسرے مذہب والوں نے اپنے پیشوائوں کو بنا رکھا ہے۔
( ترجمان القرآن ، جون۱۹۷۶ء)