۱۔’’اس عاجزنے جومثیل موعودہونے کادعویٰ کیاہے‘جس کوکم فہم لوگ مسیح موعودخیال کربیٹھے ہیں‘یہ کوئی نیادعویٰ نہیںہے جوآج ہی میرے منہ سے سناگیا ہو… میںنے یہ دعویٰ ہرگزنہیںکیاکہ میںمسیح ابن مریم ہوں‘جوشخص میرے پرالزام لگائے وہ سراسرمفتری اورکذاب ہے۔بلکہ میری طرف سے عرصہ سات آٹھ سال سے برابریہی شائع ہورہاہے کہ میںمثیل ہوں۔‘‘ (ازالہ اوہام‘مرزاغلام احمدصاحب‘ص۱۹۰)
۲۔’’ممکن اوربالکل ممکن ہے کہ کسی زمانے میںکوئی ایسامسیح بھی آجائے جس پر حدیثوںکے بعض ظاہری الفاظ صادق آسکیں۔‘‘ (ازالہ اوہام‘مرزاغلام احمدصاحب‘ص۱۹۹)
۳۔’’اس عاجزپرظاہرکیاگیاہے کہ یہ خاکساراپنی غربت اورانکساراورتوکل اور ایثار اورآیات وانوارکی روسے مسیح کی پہلی زندگی کانمونہ ہے اوراس عاجزکی فطرت اورمیسح کی فطرت باہم نہایت ہی متشابہ واقع ہوئی ہے۔‘‘ (براہین احمدیہ‘مرزاغلام احمدصاحب ‘ص ۴۹۹)
۴۔’’مصنف کواس بات کابھی علم دیاگیاہے کہ وہ مجدووقت ہے اورروحانی طورپراس کے کمالات مسیح ابن مریم کے کمالات سے مشابہ ہیں۔‘‘
(اشتہارمرزاغلام احمدصاحب ‘تبلیغ رسالت ‘جلداول ، ص۱۵)
۵۔’’اگریہ اعتراض پیش کیاجائے کہ مسیح کامثل بھی نبی (ہونا)چاہیے کیونکہ مسیح نبی تھا‘ تواس کااول جواب تویہی ہے کہ آنے والے مسیح کے لیے ہمارے سیدومولیٰ نے نبوت شرط نہیں ٹھہرائی بلکہ صاف طورپریہی لکھاہے کہ وہ ایک مسلمان ہوگااورعام مسلمانوںکے موافق شریعت فرقانی کاپابندہوگااوراس سے زیادہ کچھ بھی ظاہرنہیںکرے گا۔‘‘
(توضیح المرام‘مرزاغلام احمدصاحب ‘ص۱۹)