Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

وہابی اور وہابیت
وہابی اور نجد کا فرقہ
حضرت حوا کی پیدائش
مالی عبادات اور بدنی عبادات کے ایصالِ ثواب کا معاملہ
ایصالِ ثواب کا اللّٰہ تعالیٰ کی مرضی پر موقوف ہونا
دوسروں کے لیے ایصالِ ثواب
اصحاب ِقبور سے دُعا کی درخواست
دُعا میں بزرگوں کی حرمت وجاہ سے توسل
مسئلہ حیات النبیﷺ
سجود لِغیر اﷲ
علمِ غیب
حاضر وناظرہونے کا معاملہ
خواب میں زیارتِ نبویؐ
سحر کی حقیقت اور معوّذتین کی شان نزول
گھر،گھوڑے اور عورت میں نحوست
شفاعت کا انکار
شفاعت کا صحیح تصور
اذان میں رسالت کی شہادت
کیا نماز میں درود پڑھنا شرک ہے؟
رسول اللّٰہﷺ کا تشہد
سنت نماز اور شرک
نماز کے آخر میں سلام کے مخاطب
رسول اللّٰہ ﷺ کی رکعاتِ نماز کی تعداد
اجنبی ماحول میں تبلیغِ اسلام
غیر مسلموں کے برتنوں میں کھانا
دعوت میں شراب پیش کرنا
روزے رکھنے کی طاقت کے باوجود فدیہ دینا
کُتوں کے منہ لگے ہوئے کپڑوں کو دھونا
جرابوں پر مسح
مہر معجل کا حکم
غیر محرم قریبی اعزّہ سے پردے کی صورت
غیر محرم رشتہ دار اور غیر محرم اجانب سے پردہ
غیر مَحرم اَعِزّہ کے سامنےآمنے کا مطلب
اللّٰہ تعالیٰ اور رسول ﷺ کے مقابلے میں ماں کی اطاعت
عورت کا مردوں کو خطاب
خواتین کی تعلیم اور ملازمت
جہاد کے موقع پر خواتین کی خدمات
شادی پر استطاعت سے بڑھ کر خرچ کرنا
ہم پلا لوگوں میں شادی کرنا
لڑکی والوں کی طرف سے رشتہ میں پہل کرنا
شادی بیاہ ،پیدائش اور موت کی تقریبات
رسُومات کی اصلاح میں ترجیحات
مہر کے تقرر میں حیلے نکالنا
آلات کے ذریعے سے توالد وتناسل
آلاتِ موسیقی اور ان کی تجارت
شادی بیاہ کے موقع پر باجے وغیرہ بجانا
موسیقی استعمال کرنے والوں کے ساتھ تعلق داری
موسیقی والی شادی میں شرکت
دُف کی ترقی یافتہ شکلوں کا حکم
دُف کے استعمال کا مفہوم
گڑیوں(کھلونوں) کاحکم
اشتہاری تصویریں
کنیز کی تعریف اور شرعی حیثیت
تعددِ ازواج اور لونڈیاں
تعدّدِ ازواج پرپابندی
توأم متحد الجسم لڑکیوں کا نکاح
طلاق قبل از نکاح
عدت خلع
ضبطِ ولادت کے جدید طریقوں کا حکم
ضبطِ ولادت اور بڑھتی ہوئی آبادی
جرم کی دنیوی سزا ملنے کی صورت میں آخرت کی سزا کا معاملہ
اپنی قوم میں شادی
نکاح و طلاق کےملکی قوانین اور شریعت
منکوحہ کتابیہ کے لیے آزادیِ عمل کے حدود
نکاح بلا مہر
اﷲ تعالیٰ کے حقوق ا ور والدین کے حقوق
پردہ اور اپنی پسند کی شادی
لفظ نکاح کا اصل مفہوم
عورت کی عصمت وعفت کا مستقبل
بیوی اور والدین کے حقوق
قرآن میں زنا کی سزا
بالغ عورت کا اختیار ِنکاح
شادی بیاہ میں کفاء ت کا لحاظ
نکاحِ شِغار

خواتین اور دینی مسائل

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

پردہ اور اپنی پسند کی شادی

سوال: اسلامی پردے کی رو سے جہاں ہمیں بے شمار فوائد حاصل ہوتے ہیں،وہاں دو ایسے نقصانات ہیں جن کا کوئی حل نظر نہیں آتا بجز اس کے کہ صبر وشکر کرکے بیٹھ جائیں۔
اوّل یہ کہ ایک تعلیم یافتہ آدمی جس کاایک خاص ذوق ہے اور جو اپنے دوست منتخب کرنے میں ان سے ایک خاص اخلاق اور ذوق کی توقع رکھتا ہے،فطرتاً اس کا خواہش مند ہوتا ہے کہ شادی کے لیے ساتھی بھی اپنی مرضی سے منتخب کرے۔لیکن اسلامی پردے کے ہوتے ہوئے کسی نوجوان لڑکے یا لڑکی کے لیے اس بات کی گنجائش نہیں رہتی کہ وہ اپنی مرضی سے اپنا ساتھی چنے، بلکہ اس کے لیے وہ قطعاً دوسروں یعنی ماں یا خالہ وغیرہ کے دست نگر ہوتے ہیں۔ہماری قوم کی تعلیمی حالت ایسی ہے کہ والدین عموماً ان پڑھ اور اولاد تعلیم یافتہ ہوتی ہے، اس لیے والدین سے یہ توقع رکھنا کہ موزوں رشتہ ڈھونڈ لیں گے، ایک عبث توقع ہے۔ اس صورتِ حال سے ایک ایسا شخص جو اپنے مسائل خود حل کرنے اور خود سوچنے کی صلاحیت رکھتاہو، سخت مشکل میں پڑجاتا ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ ایک لڑکی جو گھر سے باہر نہ نکلنے کی پابند ہو،وہ کیوں کر ایسی وسعت نظر، فراست اور عقل عام کی مالک ہوسکتی ہے کہ بچوں کی بہترین تربیت کرسکے اور ان کی ذہنی صلاحیتوں کو پوری طرح سے بےدار کردے، اس کو تو دنیا کے معاملات کا صحیح علم ہی نہیں ہوسکتا، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اگر وہ اتنی ہی تعلیم بھی حاصل کرلے جتنی ایک بے پردہ لڑکی نے حاصل کی ہوتی ہے تو بھی اس کی ذہنی سطح کم ہوگی، کیوں کہ اسے اپنے علم کو عملی طور پر پرکھنے کا کوئی موقع ہی حاصل نہیں۔ امید ہے کہ آپ اس مسئلے پر روشنی ڈال کر ممنون فرمائیں گے۔

جواب: آپ نے اسلامی پردے کی جن خرابیوں کا ذکر کیا ہے،اوّلاً تو وہ ایسی خرابیاں نہیں ہیں کہ اس کی بِنا پر آدمی لاینحل مشکلات میں مبتلا ہوجائے، اور ثانیاً حیات دنیوی میں آخر کون سی ایسی چیز ہے جس میں کوئی نہ کوئی خامی یا کمی نہ پائی جاتی ہو۔لیکن کسی چیز کے مفید یا مضر ہونے کا فیصلہ اس کے صرف ایک یا دو پہلوئوں کو سامنے رکھ کر نہیں کیا جاتا بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ مجموعی طور پر اس میں مصالح کو غلبہ حاصل ہے یا مفاسد کو۔ یہی اصول پردے کے بارے میں اختیار کیا جائے گا۔ اسلامی پردہ آپ کی راے میں بھی بے شمار فوائد کا حامل ہے۔ لیکن فقط یہ مشکل کہ اس کی پابندی سے آدمی کو شادی کے لیے اپنی مرضی کے مطابق لڑکی منتخب کرنے کی آزادی نہیں مل سکتی، پردے کی افادیت کو کم یا اس کی پابندی کو ترک کرنے کے لیے وجہ جواز نہیں بن سکتی۔ بلکہ اگر ہر لڑکے کو لڑکی کے انتخاب اور ہرلڑکی کو لڑکے کے انتخاب کی کھلی چھٹی دے دی جائے تو اس سے اس قدر قبیح نتائج برآمد ہوں گے کہ ان کا تصور بھی نہیںکیا جاسکتا اور پھر خاندانی نظام جو معاشرے کی مضبوطی اور پاکیزگی کا ضامن ہوتا ہے،درہم برہم ہوکر رہ جائے گا، اور ایک موہومہ مشکل کو حل کرتے کرتے بے شمار حقیقی مشکلات کے دروازے کھل جائیں گے۔
آپ کا یہ خیال کہ باپردہ لڑکی وسعت نظر اور فراست سے بے بہرہ ہوتی ہے ،درست نہیں ہے۔ اور اگر اسے بالفرض درست بھی تسلیم کرلیا جائے تو اس میں پردے کا کوئی قصور نہیں ہے۔ ایک لڑکی باپردہ رہ کر بھی علم وفن میں کمال پیدا کرسکتی ہے اور اس کے مقابلے میں پردے سے باہر ہوکر بھی ایک لڑکی علم وعقل اور فراست وبصیرت سے کوری رہ سکتی ہے۔البتہ بے پردہ لڑکی کو یہ فوقیت ضرور ہوگی کہ وہ معلومات کے لحاظ سے چاہے وسیع النظر نہ ہو لیکن تعلقات کے لحاظ سے اس کی نگاہیں ضرور پھیل جائیں گی۔ایسی حالت میں اگر موزوں ترین رفیق حیات کی تلاش میں کامیابی ہو بھی جائے،تب بھی جو نگاہیں وسعت کی عادی ہوچکی ہوں ،انھیں سمیٹ کر ایک مرکز تک محدود رکھنا کوئی آسان کام نہیں ہوگا۔

(ترجمان القرآن،جنوری 1961ء)

سوال: آپ کا جواب ملا۔مگر مجھے اس بات پر بڑا تعجب ہوا کہ آپ نے اسے بالکل معمولی مسئلہ قرار دیا۔ کام یاب شادی کی تمنا تو ایک جائز خواہش ہے اور ایسے حالات پیدا کرنا ،جن کی وجہ سے ایک شخص کے لیے اپنی پسند کی لڑکی چننے کا راستہ بندہوجائے،میں انسانی مسرت اور شخصیت کے ارتقا کے لیے مضر سمجھتا ہوں اور دین فطرت کے منافی۔ جہاں تک میں سمجھ سکا ہوں، ہمار ے مروّجہ طریقے کے مطابق عورت زیادہ سے زیادہ گھر کی منتظم ہوتی ہے اور خاوند کی اور اپنی جنسی تسکین کا ایک ذریعہ، لیکن دو افراد کے اپنے آپ کو پوری طرح ایک دوسرے کے حوالے کرنے اور زندگی کے فرائض ایک بار کے بجائے خوشی خوشی پورا کرنے کے لیے جو امکانات اپنی پسند اور ذوق کی شادی کرلینے میں ہوتے ہیں،وہ اس صورت میں قطعاً ممکن نہیں کہ اپنی پسند اور بصیرت استعمال کیے بغیر کسی دوسرے کے انتخاب پر شادی کرلی جائے۔
میرا خیال ہے کہ ایک نوجوان محض جنسی تسکین کا خواہش مند نہیں ہوتا،وہ یہ بھی چاہتا ہے کہ کسی کے لیے کچھ قربانی کرے،کسی سے محبت کرے،کسی کی خوشی کا خیال رکھے اور کوئی اس کی خوشی پر خوش ہو۔ اس جذبے کے فطری نکاس کا راستہ تو یہ ہے کہ وہ کسی ایسی لڑکی سے شادی کرے جسے اس نے تعلیم، اطوار،کردار اور دوسری خوبیوں کی بِنا پر اپنی طبیعت کے مطابق حاصل کیا ہے (حقیقی محبت کسی کی باطنی خوبیوں کے دیکھنے سے ہی پیدا ہوتی ہے نہ کہ شکل دیکھ لینے سے)۔ اور یہ بات ناممکنات میں ہے کہ پہلے تو کسی کی شادی کراد ی جائے اورپھر اس سے مطالبہ کیا جائے کہ اب اسے ہی چاہو اور یوں جیسے تم نے اس کو خود پسند کیا ہے۔ اس فطری محبت کا راستہ بند کرلینے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ یہ جذبہ اپنے لیے دوسرے راستے نکال لیتا ہے۔
پردے کی وجہ سے جو حالات پیدا ہیں،ان میں حقیقتاً کردار دیکھ کر منگیترتلاش کرنا ممکن نہیں۔ لڑکے کے با پ کے لیے ممکن نہیں کہ وہ لڑکی کا پتا چلا سکے،لڑکی کی والدہ کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ لڑکے کے متعلق براہِ راست کچھ اندازہ لگا سکے۔کیوں کہ پردے کی وجہ سے ان افراد میں بھی تعلق اور آزادانہ گفتگو ناممکن ہے۔(خود لڑکے اور لڑکی کا ملنا تو ایک طرف رہا)، بڑی سے بڑی آزادی جو اسلام نے دی ہے وہ یہ ہے کہ لڑکا لڑکی کی شکل دیکھ لے، لیکن میری سمجھ میں نہیں آتا کہ کسی کی شکل چند سکینڈ دیکھ لینے سے کیا ہوجاتا ہے۔
اس مسئلے کا ایک اور پہلو بھی ہے،اب تو تمام علما نے یہ تسلیم کرلیا ہے کہ موجودہ تمدنی ضروریات پوری کرنے کے لیے علم کا حاصل کرنا عورتوں کے لیے ضروری ہے۔لیکن مجھے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک ہی کام کرسکتی ہیں۔ یا تو اسلامی احکام کی پابند ی کریں یا علم حاصل کریں۔ پردے کی پابند ہوتے ہوئے میری سمجھ میں نہیں آتا کہ طبقات الارض، آثار قدیمہ، انجینیرنگ اور تمام ایسے علوم جن میں سروے اور دور دراز سفر کی ضرورت ہوتی ہے،ان علوم کے لیے خواتین کس طرح کام کرسکتی ہیں جب کہ محرم کے بغیر عورت کا تین دن سے زائد کی مسافت پر نکلنا بھی منع ہے۔اب کیا ہر جگہ وہ اپنے ساتھ محرم کو لیے پھرے گی؟
یہ علوم تو ایک طرف رہے،میں تو ڈاکٹری اور پردے کو بھی ایک دوسرے کی ضد سمجھتا ہوں۔ اوّل تو ڈاکٹری کی تعلیم ہی جو جسمانیات کی نگاہیں پھیلا دینے والی معلومات سے پر ہوتی ہے،حیا کے اس احساس کو ختم کردینے کے لیے کافی ہے جس کی مشرقی عورتوں سے توقع کی جاتی ہے، خواہ وہ ڈاکٹری پردے ہی میں سیکھی جائے اور پڑھانے والی تمام خواتین ہی کیوں نہ ہوں۔ دوم ڈاکٹر بننے پر ایک خاتون کو مریضوں کے لواحقین سے روابط کی اس قدر ضرورت ہوتی ہے کہ اس کے لیے غیر مردوں سے بات چیت پر قدغن لگانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اب اس کے پیش نظر اگر ہم خواتین کو ڈاکٹر بننے سے روکتے ہیں تو پھر ہمیں اپنے گھروں کی مریض خواتین کے ہر مرض کے علاج کے لیے مرد ڈاکٹروں کی خدمات کی ضرورت پڑے گی اور رائج الوقت نظریۂ حیات کے مطابق یہ تو اس سے بھی زیادہ معیوب سمجھا جائے گا۔
جناب عالی آپ مجھے یہ بتائیں کہ ان معاشرتی اور تمدنی اُلجھنوں کا اسلامی احکامات کی پابندی کرتے ہوئے کیا حل ہے؟

جواب: آپ کا دوسرا خط ملا۔ شادی کے معاملے میں آپ نے جو اُلجھن بیان کی ہے ،وہ اپنی جگہ درست ہی سہی،اس کا حل کورٹ شپ کے سوا اور کیا ہے؟ظاہر ہے کہ جس تفصیل کے ساتھ رفیق زندگی بنانے سے پہلے لڑکی اورلڑکے کو ایک دوسرے کے اوصاف،مزاج، عادات،خصائل اور ذوق وذہن سے واقف ہونے کی ضرورت آپ محسوس کرتے ہیں، ایسی تفصیلی واقفیت دو چار ملاقاتوں میں،اور وہ بھی رشتہ داروں کی موجودگی میں حاصل نہیں ہو سکتی۔ اس کے لیے مہینوں ایک دوسرے کے ساتھ ملنا، تنہائی میں بات چیت کرنا، سیر تفریح، سفر میں ایک دوسرے کے ساتھ رہنا اور بے تکلف دوستی کی حد تک تعلقات پیدا ہونا ناگزیر ہے۔ کیا واقعی آپ یہی چاہتے ہیں کہ نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کے درمیان اس اختلاط کے مواقع بہم پہنچنے چاہییں۔ آپ کے خیال میں ان جوان لڑکوں اور لڑکیوں کے اندر ان معصوم فلسفیوں کا فی صدی تنا سب کیا ہوگا جو بڑی سنجیدگی کے ساتھ صرف رفیق زندگی کی تلاش میں مخلصانہ تحقیقاتی روابط قائم کریں گے اور اس دوران میں شادی ہونے تک اس طبعی جذب وانجذاب کو قابو میں رکھیں گے جو خصوصیت کے ساتھ نوجوانی کی حالت میں عورت اور مرد ایک دوسرے کے لیے اپنے اندر رکھتے ہیں؟بحث برائے بحث اگر آپ نہ کرنا چاہتے ہوں تو آپ کو ماننا پڑے گا کہ شاید دو تین فی صدی سے زیادہ ایسے لوگوں کا اوسط ہماری آبادی میں نہ نکلے گا۔ باقی اس امتحانی دور ہی میں فطرت کے تقاضے پورے کرچکے ہوں گے، اور وہ دو تین فی صدی جو اس سے بچ نکلیں گے،وہ بھی اس شبہہ سے نہ بچ سکیں گے کہ شاید وہ باہم ملوث ہو چکے ہوں۔
پھر کیا یہ ضروری ہے کہ ہر لڑکا اور لڑکی جو اس تلاش وتحقیق کے لیے باہم خلا ملا کریں گے ،وہ لازماًایک دوسرے کو رفاقت کے لیے منتخب ہی کرلیں گے؟ ہوسکتا ہے کہ 20 فی صدی دوستیوں کانتیجہ نکاح کی صورت میں برآمد ہو۔80 فی صدی یا کم ازکم 50 فی صدی کو دوسرے یا تیسرے تجربے کی ضرورت لاحق ہوگی۔ اس صورت میں ان ’’تعلقات‘‘ کی کیا پوزیشن ہوگی جو دوران تجربہ میں آئندہ نکاح کی اُمید پرپیدا ہوگئے تھے اوران شبہات کے کیا اثرات ہوں گے جو تعلقات نہ ہونے کے باوجود ان کے متعلق معاشرے میں پیدا ہوجائیں گے۔
پھر آپ یہ بھی مانیں گے کہ لڑکے اور لڑکیوں کے لیے ان مواقع کے دروازے کھولنے کے بعد انتخاب کا میدان لامحالہ بہت وسیع ہوجائے گا ۔ایک ایک لڑکے کے لیے صرف ایک ہی لڑکی مطمح نظر نہ ہوگی جس پر وہ اپنی نگاہ انتخاب مرکوز کرکے تحقیق وامتحان کے مراحل طے کرے گا، اورعلیٰ ہذا القیاس لڑکیوں میں سے بھی ہر ایک کے لیے ایک ہی ایک لڑکا امکانی شوہرکی حیثیت سے زیر امتحان نہ ہو گا۔ بلکہ شادی کی منڈی میں ہر طرف ایک سے ایک جاذب نظر مال موجود ہوگا جو امتحانی مراحل سے گزرتے ہوئے ہر لڑکے اور لڑکی کے سامنے بہتر انتخاب کے امکانات پیش کرتا رہے گا۔ اس وجہ سے اس امر کے امکانات روز بروز کم ہوتے جائیں گے کہ ابتداء ً جو دو فرد ایک دوسرے سے آزمائشی ملاقاتیں شروع کریں، وہ آخر وقت تک اپنی اس آزمائش کو نباہیں اور بالآخر ان کی آزمائش شادی پر منتج ہو۔
اس کے علاوہ یہ ایک فطری امر ہے کہ شادی سے پہلے لڑکے اور لڑکیاں ایک دوسرے کے ساتھ جو رومانی طرز کا کورٹ شپ کرتے ہیں، ان میں دونوں ایک دوسرے کو اپنی زندگی کے روشن پہلو ہی دکھاتے ہیں۔ مہینوں کی ملاقاتوں اور گہری دوستی کے باوجود ان کے کمزور پہلو ایک دوسرے کے سامنے پوری طرح نہیں آتے۔اس دوران میں شہوانی کشش اتنی بڑھ چکی ہوتی ہے کہ وہ جلدی سے شادی کرلینا چاہتے ہیں،اور اس غرض کے لیے دونوں ایک دوسرے سے ایسے ایسے پیمانِ وفا باندھتے ہیں،اتنی محبت اور گرویدگی کا اظہار کرتے ہیں کہ شادی کے بعد معاملات کی زندگی میں وہ عاشق ومعشوق کے اس پارٹ کو زیادہ دیر تک کسی طرح نہیں نباہ سکتے،یہاں تک کہ جلدی ہی ایک دوسرے سے مایوس ہوکر طلاق کی نوبت آجاتی ہے۔کیوں کہ دونوں اِ ن توقعات کو پورا نہیں کرسکتے جو عشق و محبت کے دور میں انھوں نے باہم قائم کی تھیں اور دونوں کے سامنے ایک دوسرے کے وہ کمزور پہلو آجاتے ہیں جو معاملات کی زندگی ہی میں ظاہر ہوا کرتے ہیں۔عشق ومحبت کے دور میں کبھی نہیں کھلتے۔
اب آپ ان پہلوئوں پر بھی غور کرکے دیکھ لیں۔پھر آپ مسلمانوں کے موجودہ طریقے کی مزعومہ قباحتوں اور اس کورٹ شپ کے طریقے کی قباحتوں کے درمیان موازنہ کرکے خود فیصلہ کریں کہ آپ کو ان دونوں میں سے کون سی قباحتیں زیادہ قابل قبول نظر آتی ہیں۔اگر اس کے بعد بھی آپ کورٹ شپ ہی کو زیادہ قابل قبول سمجھتے ہیں تو مجھ سے بحث کی ضرورت نہیں ہے۔آپ کو خود یہ فیصلہ کرنا چاہیے کہ اس اسلام کے ساتھ آپ اپنا تعلق رکھنا چاہتے ہیں یا نہیں جو اس راستے پر جانے کی اجازت دینے کے لیے قطعاً تیار نہیں ہے۔یہ کام آپ کو کرنا ہو تو کوئی دوسرا معاشرہ تلاش کریں۔ اسلام سے سرسر ی واقفیت بھی آپ کو یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ اس دین کی حدود میں’’کامیاب شادی‘‘ کا وہ نسخہ استعمال کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے جسے آپ مباح کرنا چاہتے ہیں۔
عورتوں کی تعلیم کے متعلق آپ نے جن مشکلات کا ذکر کیا ہے ،ان کے بارے میں بھی کوئی راے قائم کر نے سے پہلے آپ اس بات کو سمجھ لیں کہ فطرت نے عورت اور مرد کے دائرۂ کار الگ رکھے ہیں۔اپنے دائرۂ کار کے فرائض انجام دینے کے لیے عورت کو جس بہتر سے بہتر تعلیم کی ضرورت ہے،وہ اسے ضرور ملنی چاہیے اور اسلامی حدود میں وہ پوری طرح دی جاسکتی ہے۔اسی طرح عورت کے لیے ایسی علمی وذہنی ترقی بھی ان حدود کے اندر رہتے ہوئے ممکن ہے جو عورت کو اپنے دائرۂ کار کے فرائض انجام دیتے ہوئے حاصل ہوسکتی ہے۔اس معاملے میں کوئی انتظامات نہ کرنا مسلمانوں کی کوتاہی ہے نہ کہ اسلام کی۔لیکن وہ تعلیم جو مرد کے دائرۂ کار کے لیے عورت کو تیار کرے،عورت ہی کے لیے نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لیے تباہ کن ہے اور اس کی کوئی گنجائش اسلام میں نہیں ہے۔ اس مسئلے پر تفصیلی بحث کے لیے آپ میری کتاب’’ پردہ ‘‘ کو بغور ملاحظہ فرمائیں۔

(ترجمان القرآن،جنوری 1961ء)

شیئر کریں