دوسرا گروہ زیادہ تر اس طبقہ پر مشتمل ہے‘ جس نے تمام تر مغربی طرز پر ذہنی تربیت پائی ہے۔{ FR 2519 }یہ لوگ سیاسی فکر تو مغربی مآخذ سے لیتے ہیں‘ مگر چونکہ موروثی طور پر اسلام کے حق میں ایک تعصّب ان کے اندر موجود ہے‘ اور ’’مسلمان قوم‘‘ہونے کا شعور ان کے اندر بیدار ہوگیا ہے‘ اس لیے جو کچھ یہ کرنا چاہتے ہیں ’’مسلمان قوم‘‘کے لیے اسلام کے نام ہی سے کرنا چاہتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے‘ کہ ان کے اقوال اور اعمال میں اسلامی اصطلاحات اور مغربی طرز فکرو عمل عجیب طریقہ سے خلط ملط ہوکر رہ گئے ہیں۔ اس مضمون میں یہ موقع نہیں ہے‘ کہ میں اس خلط ِمبحث کا تجزّیہ کر کے تفصیل کے ساتھ اس مخلوطہ کے ایک ایک جُزو کی اصل نوعیت کی نشان دہی کر سکوں۔ اپنے موضوع کے لحاظ سے میں صرف یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ پہلے گروہ کی طرح اس گروہ کا راستہ بھی راہِ راست کے تینوں اجزا سے منحرف ہے۔
(۱)پہلے دعوت کو لیجیے‘ ان کے ذمّہ دار لیڈروں کی تقریریں‘ ان کی نمائندہ مجالس کی قرار دادیں‘ ان کے کارکنوں کی باتیں‘ ان کے اہلِ قلم کی تحریریں‘ سب کی سب اس امر کی شہادت دیتی ہیں‘ کہ ان کی دعوت اصل میں ایک قوم پر ستانہ دعوت ہے‘ یعنی ان کی پکار اسلام کے نصب العین کی طرف نہیں ہے‘ بلکہ اس طرف ہے‘ کہ ان کی قوم متفق ومتحد ہوکر ہندو قوم کے مقابلہ میں اپنے دنیوی مفاد کی حفاظت کرے۔ گویا جس طرح آزادی پسند لوگوں نے انگریزوں کو اپنا قومی حریف بنایا ہے‘ اسی طرح انہوں نے ہندوئوں کو اپنا قومی حریف بنا لیا ہے۔اس لحاظ سے یہ اور ’’آزادی پسند‘‘حضرات ایک سطح پر کھڑے ہیں‘ لیکن جس چیز نے ان کی بہ نسبت ان کی روش کو اسلام کے لیے اور زیادہ مُضر بنا دیا ہے وہ یہ ہے‘ کہ وہ تو وطن اور وطنی مفاد کے نام پر لڑتے ہیں‘ مگر یہ اپنی قومی اور دنیوی لڑائی میں بار بار اسلام اور مُسلم کا نام لیتے ہیں‘ جس کی وجہ سے اسلام خواہ مخواہ ایک فریقِ جنگ بن کر رہ گیا ہے‘ اور غیر مسلم قومیں اس کو اپنا سیاسی اور معاشی حریف سمجھنے لگی ہیں۔ اس طرح انہوں نے نہ صرف اپنے آپ کو اسلام کی طرف دعوت دینے کے قابل نہیں رکھا ہے‘ بلکہ اسلام کی اشاعت کے راستے میں اتنی بڑی رکاوٹ پیدا کر دی ہے‘ کہ اگر دوسرے مسلمان بھی یہ کام کرنا چاہیں‘ تو غیر مسلموں کے دلوں کو اسلام کے لیے مقفل پائیں گے۔
اس میں شک نہیں کہ اس قوم پر ستانہ دعوت کے ساتھ یہ لوگ کبھی کبھی اسلام کی خوبیاں اور اس کے اصولوں کی فضیلت بھی بیان کیا کرتے ہیں۔ مگر اوّل تو قوم پرستی کے پس منظر میں یہ چیز ایک اصولی دعوت کے بجائے محض ایک قومی تفاخر بن کر رہ جاتی ہے۔ اور مزید برآں دعوتِ اسلام کے ساتھ جن دوسری باتوں کی یہ آمیزش کرتے ہیں وہ بالکل اس دعوت کی ضد ہیں۔ ایک طرف اسلامی نظامِ حکومت کی تبلیغ اور دوسری طرف ان ’’مسلمان‘‘ ریاستوں اور حکومتوں کی حمایت جن کا نظام بالکل غیراسلامی ہے‘ ایک طرف اسلامی نظام معاشی کی تشریح اور دوسری طرف خود اپنی قوم کے قارونوں کی تائیدو مدافعت‘ ایک طرف انسانی قانون سازی کا اصولی ابطال اور دوسری طرف خود قانون ساز مجالس میں اپنے حصّہ کا مطالبہ‘ ایک طرف حاکمیتِ ربّ العالمین کا اقرار واثبات اور دوسری طرف حاکمیتِ جمہور کے اصول پر خود اپنی قومی حکومت کے قیام کی فکر‘ ایک طرف انسانیت کی نسلی‘ قومی اور وطنی تقسیم کا ابطال اور دوسری طرف ہر وقت قوم قوم کا شور اور خود قومیّت ہی کے اصولوں پر دوسری قوموں سے جدال وکشمکش‘ ایک طرف بے غرضا نہ حق پرستی کا دعویٰ اور دوسری طرف شب وروزاپنے دنیوی مفاد کا نوحہ وماتم‘ ایک طرف اسلامی تہذیب وتمدّن پر فخر وناز اور اس کی حفاظت کے لیے پر شور لام بندی اور دوسری طرف اسی تہذیب وتمدّن کے باغیوں اور قاتلوں کی سرداری وپیشوائی‘ یہ دونوں چیزیں آخر کس طرح ایک ساتھ نبھ سکتی ہیں؟’’منکرِمے بودن وہمرنگِ مستاں زیستن‘‘۔ایسی متضاد باتوں سے دنیا نے کب اثر قبول کیا ہے‘ کہ آج ان سے اسلام کا جھنڈا زمین میں گڑ جانے کی اُمید کی جاتی ہے؟
(۲)اب دیکھئے کہ یہ اپنی جماعتی تشکیل کس ڈھنگ پر کرتے ہیں۔ ان کا قاعدہ یہ ہے‘ کہ یہ ان سب لوگوں کو جوا زروئے پیدائش مسلمان قوم سے تعلق رکھتے ہیں‘ اپنی جماعت کی رکنیت کا بلا وا دیتے ہیں‘ اور جو اس کو قبول کر لے‘ اسے ابتدائی رکن بنا لیتے ہیں۔ پھر انہی ابتدائی ارکان کے ووٹوں سے‘ ذمّہ دار کارکن‘ اور عہدہ دار منتخب ہوتے ہیں‘ اور انہی کی کثرت رائے سے تمام معاملات انجام دئیے جاتے ہیں۔ ظاہر ہے‘ کہ یہ طریقہ صرف قومی تنظیم ہی کے لیے موزوں ہوسکتا اور اس طریقہ سے جو نظام بنے وہ اس کے سوا کچھ نہیں کر سکتاکہ ایک قوم کی خواہشات جیسی کچھ بھی ہوں‘ ان کے حصول کی کوشش کرے۔ رہی ایک اصولی تحریک‘ تو اس کو چلانے کے لیے یہ طریق جماعت سازی نہ صرف بے کار بلکہ مضر ہے‘ ایک قوم کے تمام افراد کو محض اس وجہ سے کہ وہ نسلاً مسلمان ہیں‘ حقیقی معنی میں مسلمان فرض کر لینا اور یہ اُمید رکھنا کہ ان کے اجتماع سے جو کام بھی ہوگا اسلامی اصول ہی پر ہوگا‘ پہلی اور بنیادی غلطی ہے‘ یہ انبوہِ عظیم جس کو مسلمان قوم کہا جاتا ہے اس کا حال یہ ہے‘ کہ اس کے ۹۹۹ فی ہزار افراد نہ اسلام کا علم رکھتے ہیں‘ نہ حق اور باطل کی تمیز سے آشنا ہیں‘ نہ ان کا اخلاقی نقطۂ نظر اور ذہنی رویّہ اسلام کے مطابق تبدیل ہوا ہے۔ باپ سے بیٹے اور بیٹے سے پوتے کو بس مسلمان کا نام ملتا چلا آرہا ہے‘ اس لیے یہ مسلمان ہیں۔ نہ انہوں نے حق کو حق جان کر اسے قبول کیا ہے‘ نہ باطل کو باطل جان کر اسے ترک کیا ہے۔ ان کی کثرت رائے کے ہاتھ میں باگیں دے کر اگر کوئی شخص یہ اُمید رکھتا ہے‘ کہ گاڑی اسلام کے راستے پر چلے گی‘ تو اس کی خوش فہمی قابلِ داد ہے۔
(۳)اس کے بعد اس طریقہ کا جائزہ لیجیے جس سے یہ بزعم خود اسلامی نصب العین تک پہنچنے کی اُمید رکھتے ہیں۔ ان کی تجویز یہ ہے‘ کہ پہل اسی جمہوری دستور کے مطابق جو انگریزی حکومت یہاں نافذ کرنا چاہتی ہے‘ مسلم اکثریت کے صوبوں میں مسلمانوں کی اپنی حکومت قائم ہوجائے‘ پھر کوشش کی جائے گی کہ یہ قومی حکومت اسلامی نظامِ حکومت میں بتدریج تبدیل ہوجائے۔{ FR 2520 } لیکن یہ ویسی ہی غلطی ہے جیسی’’آزادیِ ہند‘‘ کو مقدّم رکھنے والے حضرات کر رہے ہیں۔ ان کی تجویز پر مجھے جو اعتراضات ہیں بعینہٖ وہی اعتراضات ان کی تجویز پر بھی ہیں۔ ان کا یہ خیال بالکل غلط ہے‘ کہ مسلم اکثریت کے صوبوں میں حاکمیت ِجمہور کے اصول پر خود مختار حکومت کا قیام آخر کار حاکمیت رب العالمین کے قیام میں مدد گار ہوسکتا ہے۔ جیسی مسلم اکثریت اس مجوّزہ پاکستان میں ہے‘ ویسی ہی‘ بلکہ عددی حیثیت سے بہت زیادہ زبردست اکثریت افغانستان‘ ایران‘ عراق‘ ٹرکی اور مصر میں موجود ہے‘ اور وہاں اس کو ’’پاکستان‘‘حاصل ہے‘ جس کا یہاں مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ پھر کیا وہاں مسلمانوں کی خود مختار حکومت کسی درجہ میں بھی حکومتِ الٰہیہ کے قیام میں مدد گار ہے‘ یا ہوتی نظر آتی ہے؟مدد گار ہونا تو درکنار‘ میں پوچھتا ہوں‘ کیا آپ وہاں حکومتِ الٰہی کی تبلیغ کر کے پھانسی یا جلا وطنی سے کم کوئی سزا پانے کی اُمید کر سکتے ہیں؟اگر آپ وہاں کے حالات سے کچھ بھی واقف ہیں‘ تو آپ اس سوال کا جواب اثبات میں دینے کی جرات نہ کر سکیں گے‘ اور جب صورت حال یہ ہے‘ تو آپ کو غور کرنا چاہئے کہ آخر اسلامی انقلاب کے راستہ میں مسلمان قوموں کی ان آزاد حکومتوں کے سد راہ ہونے کا سبب کیا ہے۔ اس معاملہ کی جتنی تحقیق آپ کریں گے‘ جواب اس کے سوا کچھ نہ پائیں گے کہ دراصل اصطلا حاً ونسلاً مسلمان ہونا اور چیز ہے‘ اور نظریۂ حیات ومقصد زندگی کا اسلامی ہونا بالکل ایک دوسری چیز۔جو لوگ روح واخلاق کے اعتبار سے مُسلم نہ ہوں‘ بلکہ محض اصطلاحی ونسلی حیثیت سے مسلمان ہوں‘ ان کو اگر بیرونی اثرو اقتدار سے کامل آزادی نصیب بھی ہوجائے‘ اور اگر ان کے جمہور کو خود اپنی پسند کے مطابق نظامِ حکومت قائم کرنے کا پورا اختیار بھی حاصل ہو‘ تب بھی حکومت الٰہی وجود میں نہیں آسکتی۔ وہ اپنے دنیوی مفاد کے پرستار ہوتے ہیں۔ نہ صرف یہ کہ ان میں حق اور صداقت کے لیے اپنے مفاد کو قربان کرنے کی طاقت نہیں ہوتی بلکہ اس کے برعکس جب کبھی ان کی اغراضِ دنیوی سے حق اور صداقت کا تصادم ہوتا ہے‘ وہ حق کو چھوڑ کر ہمیشہ اس طرف جاتے ہیں‘ جس طرف ان کی اغراض پوری ہوتی ہیں۔ جہاں ایسے لوگوں کی اکثریت ہووہاں کبھی یہ اُمید نہیں کی جا سکتی کہ عام انتخاب میں ان کے ووٹوں سے وہ صالحین منتخب ہوں گے‘ جو منہاج نبوّت پر حکومت کرنے والے ہوں۔ جمہوری انتخاب کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے دودھ کو بِلو کر مکھّن نکالا جاتا ہے۔اگر دودھ زہر ملا ہو‘ تو اس سے جو مکھن نکلے گا قدرتی بات ہے‘ کہ وہ دودھ سے زیادہ زہریلا ہوگا۔اسی طرح سوسائٹی اگر بگڑی ہوئی ہو‘ تو اس کے ووٹوں سے وہی لوگ منتخب ہوکر برسر اقتدار آئیں گے‘ جو اس سوسائٹی کی خواہشاتِ نفس سے سند ِقبولیت حاصل کر سکیں گے‘ پس جو لوگ یہ گُمان کرتے ہیں‘ کہ اگر مسلم اکثریت کے علاقے ہندو اکثریت کے تسلّط سے آزاد ہوجائیں‘ اور یہاں جمہوی نظام قائم ہوجائے‘ تو اس طرح حکومت الٰہی قائم ہوجائے گی ان کا گُمان غلط ہے۔ دراصل اس کے نتیجہ میں جو کچھ حاصل ہوگا وہ صرف مسلمانوں کی کافرانہ حکومت ہوگی۔ اس کا نام حکومت الٰہی رکھنا اس پاک نام کو ذلیل کرنا ہے۔
اس میں شک نہیں کہ عوام کی اخلاقی وذہنی تربیت کر کے‘ ان کے نقطۂ نظرکو تبدیل کر کے اور ان کے نفسیات میں انقلاب برپا کر کے‘ ایک جمہوری نظام کو الٰہی حکومت میں تبدیل کیا جا سکتاہے۔ لیکن سوال یہ ہے‘ کہ اس اخلاقی ونفسیاتی انقلاب کے برپا کرنے میں کیا مسلمانوں کی کفرانہ حکومت کچھ بھی مدد گار ہوگی؟کیا وہ لوگ جو موجودہ بگڑی ہوئی سوسا ئٹی کے مادی مفاد سے اپیل کر کے اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہوں گے ان سے آپ یہ اُمید کر سکتے ہیں‘ کہ وہ حکومت کا روپیہ‘ اس کے وسائل اور اس کے اختیارات کسی ایسی تحریک کی اعانت میں صرف کریں گے‘ جس کا مقصد عوام کی ذہنیت تبدیل کرنا اور انہیں حکومت الٰہی کے لیے تیار کرنا ہو؟اس کا جواب عقل اور تجربہ دونوں کی روشنی میں نفی کے سوا کچھ نہیں دیا جا سکتا۔ بلکہ سچ یہ ہے‘ کہ لوگ اس انقلاب میں مدد دینے کے بجائے اُلٹی اس کی مزاحمت کریں گے‘ کیونکہ وہ خوب جانتے ہیں‘ کہ اگر عوام کے نفسیات میں تغیّر واقع ہوگیا‘ تو اس بدلی ہوئی سوسائٹی میں ان کا چراغ نہ جل سکے گا۔ یہی نہیں اس سے زیادہ خوفناک حقیقت یہ ہے‘ کہ نام کے مسلمان ہونے کی وجہ سے یہ لوگ کفار کی بہ نسبت بہت زیادہ جسارت وبے باکی کے ساتھ ایسی ہر کوشش کو کچلیں گے‘ اور ان کے نام ان کے ظلم کی پردہ پوشی کے لیے کافی ہوں گے۔ جب صورت معاملہ یہ ہے‘ تو کیا وہ شخص نادان نہیں ہے‘ جو اسلامی انقلاب کا نصب العین سامنے رکھ کر ایسی جمہوری حکومت کے قیام کی کوشش کرے جو ہر کافرانہ حکومت سے بڑھ چڑھ کر اس کے مقصد کی راہ میں حائل ہوگی؟
تحریف دین کے مجوّزین
اب تیسرے گروہ کو لیجیے۔ یہ لوگ مختلف قسم کی تجویزیں سوچ رہے ہیں۔ کوئی فکرِاسلامی کے ساتھ غیراسلامی افکار کا جوڑ لگا کر ایک نئی ’’خوش گوار‘‘معجون بنانا چاہتا ہے۔ کوئی اس خیال میں ہے‘ کہ ’’ہندستانی اسلام‘‘کا ایک نیا اڈیشن نکالے۔ کوئی یہ چاہتا ہے‘ کہ اسلام کے مجموعی نظام میں سے محض اس کے سیاسی ومعاشی اصولوں کو لے لیا جائے‘ اور ان کی بنیاد پر ایک ایسی سیاسی جماعت بنائی جائے‘ جس میں شامل ہونے کے لیے عقائد عبادات اور احکام شرعیہ کی پابندی لازم نہ ہو۔ یہ سب لوگ اپنے نزدیک نیک نیتی کے ساتھ یہ سمجھ رہے ہیں‘ کہ ان طریقوں سے رفتہ رفتہ وہ تنفر دور ہوجائے گا‘ جو اسلام کے خلاف طبیعتوں میں پیدا ہوگیا‘ اور جب وہ بعضِ اسلام سے کسی حد تک مانوس ہوجائیں گے‘ تو پورے اسلام سے مانوس ہونے میں زیادہ دیر نہ لگے گی۔
لیکن یہ سب خیالاتِ خام ہیں۔ نہ اصولی حیثیت سے ان کو صحیح کہا جا سکتا ہے‘ اور نہ عملی حیثیت سے ہی‘ ان کی کوئی قدرو قیمت ہے۔ میرے نزدیک ایسی تمام تجویزیں ضعفِ دل اور ضعفِ دماغ کا نتیجہ ہیں۔
اصولی حیثیت سے درحقیقت ہم اسلام میں کسی ردّو بدل‘ کسی کمی وبیشی‘ اور کسی ترمیم وتشکیلِ جدید کے مجاز ہی نہیں ہیں۔ ہم اسلام کے مالک نہیں ہیں‘ اس کے صانع نہیں ہیں۔اس کے شارع نہیں ہیں۔ اسلام ہمارا مال نہیں ہے‘ کہ مارکیٹ میں جیسی طلب ہواس کے مطابق اپنے اس مال کو بنا کر بازار میں لائیں۔ ہماری حیثیت صرف پیرو اور مبلغ کی ہے مالک نے عقائد‘ عبادات اور احکام کا یہ پورا مجموعہ ہمیں دیا ہے‘ تاکہ ہم خود اس کی پیروی کریں‘ اور دوسروں تک اسے پہنچائیں۔ اس مجموعہ میں کوئی ترمیم کرنے کا‘ یا اس کی اصلی صورت کو بدل کر اس کی کوئی اور صورت بنانے کا‘ ہم کو ہر گز کوئی حق نہیں پہنچتا۔ جس کو لینا ہے اسے پورے مجموعہ کو لینا پڑے گا ‘اور اسی صورت میں لینا ہوگا‘ جس میں مالک نے اسے دیا ہے۔ اور جو اس کو اس ہیئت مجموعی اور اس مقررہ صورت کے ساتھ نہ لینا چاہے‘ اس کی خوشامد کرنے اور اسے کم وبیش پر راضی کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اسلام میں ایک حکم ہے خالق کی طرف سے مخلوق کی طرف۔ خالق کاکام مخلوق کی خوشامد کرنا اور اس کو راضی کرنا نہیں ہے۔ مخلوق کو یا تو اس کا حکم‘ جیسا کہ وہ ہے جُوں کا تُوں ماننا پڑے گا۔ ورنہ وہ خود اپنا ہی کچھ بگاڑے گی‘ خالق کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکے گی۔ اسی لیے اﷲ کی طرف سے اس کے جو رسول دنیا میں آئے‘ انہوں نے پورے حکم کو لوگوں کے سامنے بعینہٖ پیش کر دیا‘ اور صاف کہہ دیا کہ چاہو اس کو لو اور چاہو ردّ کر دو‘ بہرحال تمہاری خواہشات کے مطابق اس میں کوئی تغیّر وتبدل نہیں کیا جا ئے گا۔ ٹھیک یہی پوزیشن رسول کے نائب ہونے کی حیثیت سے ہماری بھی ہے۔
پھر یہ کتنی غیر معقول تجویز ہے‘ کہ اسلام کے مجموعی نظام میں سے محض اس کے معاشی وسیاسی اصولوں کو لے لیا جائے‘ اور انہی کی بنیاد پر ایک پارٹی ایسی بنائی جائے‘ جس میں شامل ہونے کے لیے‘ توحید‘ آخرت‘ قرآن‘ رسالت‘ کسی چیز پر بھی ایمان لانے کی ضرورت نہ ہو‘ اور نہ عبادات کی بجا آوری اور احکام شرعیہ کی پابندی ضروری ہو۔ کیا کوئی صاحب ِنظر آدمی ایک لمحہ کے لیے بھی یہ خیال کر سکتا ہے‘ کہ کسی اجتماعی نظریہ اور لائحہ عمل کو اس کے بنیادی فلسفے‘ اس کے نظامِ اخلاق اور اس کے تعمیر سیرت کرنے والے ارکان سے الگ کر کے چلایاجا سکتا ہے؟اﷲ کی حاکمیت کا تصوّر نکال دینے کے بعد اسلام کا سیاسی نظام آخر ہے کس چیز کا نام؟اور اگر قرآن کو ماخذ قانون اور محمد رسول اﷲa کو رعیت (انسان)اور بادشاہ (اﷲ)کے درمیان نزولِ احکام کا واحد مستند ذریعہ نہ مانا جائے‘ تو کیا اسلامی طرز کے اسٹیٹ کی تعمیر ہواپر کی جائے گی؟نیز وہ کون سا نظامِ تمدّن وسیاست ہے‘ جو کسی نظامِ اخلاق کا سہارا لیے بغیر قائم ہوسکتا ہو؟اور کیا اﷲ کے سامنے انسان کی ذمّہ داری وجواب وہی کا تخیل نکال دینے کے بعد‘ اس نظامِ تمدّن وسیاست کے لیے کوئی اخلاقی سہارا باقی رہ جاتا ہے‘ جس کا نقشہ اسلام نے پیش کیا ہے؟کیا اس نظام کو آپ مادّہ پرستانہ اخلاقیات کے بل پر ایک دن کے لیے بھی قائم کر سکتے ہیں؟مزید برآں وہ خاص قسم کی انفرادی سیرت اور جماعتی زندگی ‘جو اس نظامِ تمدّن وسیاست کے لیے درکار ہے‘ نماز‘ روزہ‘ حج‘ زکوٰۃ کے سوا اور کس ذریعہ سے پیدا ہوسکتی ہے؟اور وہ نہ ہو‘ تو یہ نظام چل کہاں سکتا ہے؟پس یہ غایت درجہ کا افلاسِ فکر ہے‘ کہ کوئی شخص محض شاخوں کا حُسن دیکھ کر کہنے لگے کہ آئو جڑ کے بغیر ان شاخوں ہی سے درخت قائم کریں۔
عملی حیثیت سے بھی اس قسم کی تمام تجویزیں سراسر غلط ہیں۔ ان سے اصل مقصد تک پہنچنے کے بجائے خطرہ یہ ہے‘ کہ کہیں ہم خود ہی راستہ میں گم نہ ہوجائیں۔ ترمیم شدہ صورت میں‘ جس نام نہاد اسلام کی تبلیغ کی جائے گی۔ اس روز وہی اصل معیار بن جائے گا ‘اور جو لوگ اس پر ایمان لاکر جماعت میں شریک ہوں گے۔ نہ صرف وہ خود اصل اسلام کی طرف رجوع کرنے سے انکار کریں گے‘ بلکہ وہ مصلحت پرست مسلمان بھی جنہوں نے ان سے کم وبیش پر سودا کیا تھا۔ ان کے ساتھ ان کی گمراہی میں شریک ہوجائیں گے۔ مُدارات (ompromises) پر جو کام مبنی ہوتے ہیں ان میں ہمیشہ یہی خرابی ہوتی ہے۔