ایک نرالا اعتراض یہاں یہ بھی سننے میں آیا کہ ’’جو شخص اس طرح جماعت کا سربراہِ کار چنا جائے، اُسے زکوٰۃ وصول کرنے کا کوئی حق نہیں ہے، کیوں کہ زکوٰۃ صرف اسلامی حکومت کا امیر ہی وصول کر سکتا ہے۔‘‘ غالباً، ان معترضین کو تحصیلِ زکوٰۃ کے معاملے میں ہمارا طریقۂ کار معلوم نہیں ہے۔ ہم نے عام مسلمانوں سے کبھی یہ مطالبہ نہیں کیا کہ وہ اپنی زکوٰۃ ہمارے بیت المال میں داخل کریں، اور نہ ہم نے کبھی یہ کہا ہے کہ جو مسلمان زکوٰۃ ہمارے حوالے نہ کرے گا، اُس کی زکوٰۃ ادا نہیں ہو گی۔ ہم صرف اپنی جماعت کے ارکان سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اپنی زکوٰۃ، جماعت کے بیت المال میں داخل کیا کریں ۔ اس سے ہمارا بڑا مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کو شریعت کے منشاکے مطابق، اجتماعی طور پر زکوٰۃ جمع اور صَرف کرنے کی عادت ہو۔
براہِ کرم! کوئی ہمیں بتائے کہ اگر ہم ایسا کرتے ہیں تو اس میں کیا شرعی قباحت ہے اور یہ کس حکمِ شرعی کے خلاف ہے؟ اگر ہمیں لوگوں سے یہ کہنے کا حق ہے کہ نماز گھروں میں الگ الگ نہ پڑھو، بلکہ جماعت کے ساتھ پڑھو، تو آخر یہ کہنے کا حق کیوں نہیں ہے کہ زکوٰۃ انفرادی طور پر ادا کرنے کے بجائے، اجتماعی طور پر ادا کرو؟ پھر یہ کتنی عجیب بات ہے کہ اگر چندہ لیا جائے تو جائز، داخلے کی فیس اور رکنیت کی فیس لگائی جائے تو درست، مگر خدا اور رسولؐ کے عائد کیے ہوئے فرض کو ادا کرنے کی دعوت دی جائے تو ناجائز۔