Search
Close this search box.

رسائل و مسائل

ورثا میں کسی ایک کا قاتل کو معاف کرنا

سوال

مقتول کے ورثا میں سے کوئی ایک وارث دیت لے کر یا بغیر دیت لیے اگر اپنا حق قاتل کو معاف کردے تو کیا سزاے موت معاف ہو سکتی ہے؟ اس میں اقلیت واکثریت کا کوئی لحاظ رکھا جاسکتا ہے یا نہیں ؟مثلاً تین بیٹوں میں سے ایک نے قصاص معاف کردیا،باقی دو قصاص لینے پر مصر ہیں تو قاضی کو کیا شکل اختیا رکرنی ہوگی؟

جواب

مقتول کے ورثا میں سے کوئی ایک بھی اگر قاتل کو اپناحق معاف کردے یا دیت لینا قبول کرلے تو قصاص لازماً ساقط ہوجائے گا اور باقی وارثوں کو دیت پر راضی ہونا پڑے گا۔ اس معاملے میں اکثریت واقلیت کا سوال اُٹھانا صحیح نہیں ہے۔سوال صرف یہ ہے کہ جس وارث نے عفو یا قبول دیت کے ذریعے سے قاتل کو زندہ رہنے کی اجازت دی ہے، اس کی اجازت آخر قصاص کی صورت میں کیسے نافذ ہوسکتی ہے؟مثال کے طور پر اگر تین وارثوں میں سے ایک نے قاتل کو معاف کردیا تو اس کے معنی یہ ہیں کہ مقتول کی جان کے ایک تہائی حصے کو زندہ رہنے کا حق حاصل ہوگیا۔اب کیایہ ممکن ہے کہ باقی دو وارثوں کے مطالبے پر صرف دو تہائی جان لی جاسکے اور ایک تہائی جان کو زندہ رہنے دیا جائے؟اگر یہ ممکن نہیں ہے تو لامحالہ باقی دو وارثوں کو قبول دیت پر مجبور ہونا پڑے گا۔یہی راے ہے جو حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ نے اس طرح کے ایک مقدمے میں ظاہر کی تھی اور حضرت عمرؓ نے اسی پر فیصلہ فرمایا۔چنانچہ مبسوط میں ہے: أرَی ھَذَا قَدْ أَحْیَا بَعْضَ نَفْسِہِ فَلَیْسَ لِلْاَخَرِ أَنْ یُتْلِفَہُ فَأَمْضَی عُمَرُؓ الْقَضَائَ عَلٰی رَأیِہِ ({ FR 2050 }) یعنی ابن مسعودؓ نے کہاکہ میرے نزدیک ایک وارث نے جب قاتل کی جان کے ایک حصے کو حق حیات بخش دیا تو دوسر ے کو اسے تلف کرنے کا حق نہ رہا۔اسی راے پر حضرت عمرؓ نے فیصلہ فرما دیا۔
(ترجمان القرآن، جون، جولائی ۱۹۵۲ئ)