آپ کا پہلا سوال یہ ہے کہ :
جہاں تک ایمان لانے اور اطاعت کرنے کا تعلق ہے کیا وحی کے دونوں حصے یکساں حیثیت رکھتے ہیں۔
اس سوال کا صحیح جواب آدمی کی سمجھ میں اچھی طرح نہیں آ سکتا جب تک کہ وہ پہلے یہ نہ سمجھ لے کہ وحی پر ایمان لانے اور اس کی اطاعت کرنے کی اصل بنیاد کیا ہے۔ ظاہر بات ہے کہ وحی خواہ وہ کسی نوعیت کی بھی ہو، براہ راست ہمارے پاس نہیں آئی ہے کہ ہم بجائے خود اس کے مُنَزَّلْ من اللّٰہ ہونے کو جانیں اور اس کی اطاعت کریں۔ وہ تو ہمیں رسولﷺ کے ذریعے سے ملی ہے اور رسولﷺ ہی نے ہمیں بتایا ہے کہ یہ ہدایت میرے پاس خدا کی طرف سے آئی ہے۔ قبل اس کے کہ ہم وحی پر (یعنی اس کے من جانب اللّٰہ ہونے پر) ایمان لائیں، ہم رسولﷺ پر ایمان لاتے ہیں اور اس کو اللّٰہ تعالیٰ کا سچا نمایندہ تسلیم کرتے ہیں۔ اس کے بعد ہی یہ نوبت آ سکتی ہے کہ ہم رسولﷺ کے بیان پر اعتماد کرکے اس وحی کو خدا کی بھیجی ہوئی وحی مانیں اور اس کی اطاعت کریں۔ پس اصل چیز وحی پر ایمان نہیں بلکہ رسولﷺ پر ایمان اور اس کی تصدیق ہے اور اسی کی تصدیق کا نتیجہ یہ ہے کہ ہم نے وحی کو وحی خداوندی مانا ہے۔ دوسرے الفاظ میں اس بات کو یوں سمجھیے کہ رسولﷺ کی رسالت پر ہمارے ایمان کی وجہ قرآن نہیں ہے، بلکہ اس کے برعکس قرآن پر ہمارے ایمان کی وجہ رسولﷺ کی رسالت پر ایمان ہے۔ واقعات کی ترتیب یہ نہیں ہے کہ پہلے قرآن ہمارے پاس آیا اور اس نے محمد رسول اللّٰہ (ﷺ) سے ہمارا تعارف کرایا ہو، اور اس کے بیان کو صحیح جان کر ہم نے حضور ﷺ کو خدا کا رسول تسلیم کیا ہو، بلکہ صحیح ترتیب واقعات یہ ہے کہ پہلے محمد ﷺ نے آکر رسالت کا دعوٰی پیش کیا، پھر جس نے بھی ان کو رسول برحق مانا اس نے ان کی اس بات کو بھی برحق مان لیا کہ یہ قرآن جو وہ پیش فرما رہے ہیں، یہ کلام محمدﷺ نہیں بلکہ کلام اللّٰہ ہے۔
یہ ایک ایسی بدیہی پوزیشن ہے کہ جس سے کوئی معقول آدمی انکار نہیں کر سکتا۔ اس پوزیشن کو اگر آپ مانتے ہیں تو اپنی جگہ خود غور کیجیے کہ جس رسولﷺ کے اعتماد پر ہم نے قرآن کو وحی مانا ہے وہی رسولﷺ اگر ہم سے یہ کہے کہ مجھے قرآن کے علاوہ بھی خدا کی طرف سے ہدایات اور احکام بذریعہ وحی ملتے ہیں، تو اس کی تصدیق نہ کرنے کی آخر کیا وجہ ہے؟ اور آخر رسولﷺ کے ذریعے سے آنے والی ایک وحی اور دوسری وحی میں فرق کیوں ہو؟ جب ایمان بالرسالت ہی وحی پر ایمان کی اصل بنیاد ہے تو اطاعت کرنے والے کے لیے اس سے کیا فرق واقع ہوتا ہے کہ رسولﷺ نے خدا کا ایک حکم قرآن کی کسی آیت کی شکل میں ہمیں پہنچایا ہے، یا اپنے کسی فرمان یا عمل کی شکل میں؟ مثال کے طور پر پانچ وقت کی نماز بہرحال ہم پر فرض ہے اور امت اس کو فرض مانتی ہے باوجودیکہ قرآن کی کسی آیت میں یہ حکم نہیں آیا کہ ’’اے مسلمانو! تم پر پانچ وقت کی نماز فرض کی گئی ہے۔‘‘ سوال یہ ہے کہ اگر قرآن میں بھی یہ حکم آ جاتا تو اس کی فرضیت اور اس کی تاکید میں کیا اضافہ ہو جاتا؟ اس وقت بھی یہ ویسی ہی فرض ہوتی جیسی اب رسول اللّٰہ ﷺ کے ارشاد سے فرض ہے۔