یہ ۹ نکات ہم نے فاضل جج کے اپنے الفاظ میں، ان کی اپنی ترتیب کے ساتھ نقل کر دیے ہیں۔ اب ہم ان کا علمی جائزہ لے کر دیکھیں گے کہ یہ کہاں تک صحیح ہیں اور ان کو احادیث پر اعتماد نہ کرنے، اور سُنّت کو حجت نہ ماننے کے لیے کس حد تک دلیل بنایا جا سکتا ہے۔
کیا جھوٹی حدیثیں اِسلامی قانون کا ماخذ بنی ہیں؟
سب سے پہلے ان کے نکتہ نمبر ایک اور سات کو لیجیے۔ یہ بات بالکل خلاف واقعہ ہے کہ جعلی حدیثوں کے ایک جم غفیر کا اِسلامی قانون کے ماخذ میں داخل ہو جانا تمام فقہا ئے اِسلام بالاتفاق تسلیم کرتے ہیں۔ فقہائے اِسلام اس بات کو تو بے شک تسلیم کرتے ہیں کہ جعلی حدیثیں کثرت سے گھڑی گئیں، لیکن ان میں سے کسی نے اگر یہ تسلیم کیا ہو کہ یہ حدیثیں اِسلامی قانون کا ماخذ بھی بن گئیں، تو ایسے ایک ہی فقیہہ، یا محدث یا معتبر عالم دین کا نام ہمیں بتایا جائے۔ واقعہ یہ ہے کہ جس وقت سے جعلی احادیث ظاہر ہونی شروع ہوئیں اسی وقت سے محدثین اور ائمہ مجتہدین اور فقہا نے اپنی تمام کوششیں اس بات پر مرکوز کر دیں کہ یہ گندا نالہ اِسلامی قوانین کے سوتوں میں نفوذ نہ کرنے پائے۔ ان کوششوں کا زیادہ تر زور ان احادیث کی تحقیقات پر صرف ہوا ہے جن سے کوئی حکم شرعی ثابت ہوتا تھا اور اِسلامی عدالتوں کے قاضی بھی اس معاملے میں سخت چوکنے رہے ہیں کہ محض ’’قال رسول اللّٰہ‘‘ سن کر وہ کسی فوجداری یا دیوانی مقدمے کا فیصلہ نہ کر دیں، بلکہ اس قول کی پوری چھان بین کریں جس کی رو سے کوئی ملزم چھوٹتا یا سزا پا سکتا ہو، یا کوئی مدعی کسی معاملے میں اپنا حق ثابت کر سکتا ہو یا اس سے محروم ہو سکتا ہو، آغاز اِسلام کے حاکمان عدالت انصاف کے معاملے میں ہمارے فاضل جج اور ان کے رفقا سے کچھ کم محتاط تو نہ ہو سکتے تھے۔ آخر ان کے لیے یہ کیسے ممکن تھا کہ ضروری تحقیقات کے بغیر کسی چیز کو قانونی حکم تسلیم کرکے فیصلے کر ڈالتے؟ اور مقدمات کے فریقین آخر کس طرح ٹھنڈے دل سے یہ برداشت کر سکتے تھے کہ ایک قانونی حکم کا ثبوت بہم پہنچے بغیر کسی کچی پکی روایت پر ان کے خلاف فیصلہ ہو جائے؟ اس لیے درحقیقت نہ یہ بات صحیح ہے کہ اِسلامی قوانین کے ماخذ میں جعلی حدیثیں داخل ہوئی ہیں، اور نہ یہی بات درست ہے کہ فقہائے اِسلام نے ان کے داخل ہو جانے کو ’’بالاتفاق‘‘ مانا ہے۔
کیا جھوٹی حدیثیں حضورﷺکے زمانے ہی میں رواج پانے لگی تھیں؟
فاضل جج کا یہ ارشاد بھی سخت غلط فہمی میں ڈالنے والا ہے کہ جھوٹی حدیثیں خود رسول اکرم ﷺ کے زمانے میں ظاہر ہونی شروع ہو گئی تھیں۔ دراصل اس کی حقیقت یہ ہے کہ جاہلیت کے زمانے میں ایک شخص مضافات مدینہ کے ایک قبیلے کی لڑکی سے شادی کرنا چاہتا تھا، مگر لڑکی والوں نے انکار کر دیا تھا۔ ہجرت کے بعد شروع زمانے میں وہی شخص ایک حلہ پہنے ہوئے اس قبیلے میں پہنچا اور جا کر اس نے لڑکی والوں سے کہا کہ رسول اللّٰہﷺ نے مجھے یہ حلہ پہنایا ہے، اور مجھ کو اس قبیلے کا حاکم بنا دیا ہے۔ قبیلے والوں نے اسے اتار لیا اور خاموشی کے ساتھ حضورﷺ کو اس معاملے کی اطلاع دی۔ حضورﷺ نے فرمایا کہ ’’جھوٹ کہا اس دشمن خدا نے۔‘‘ پھر ایک آدمی کو حکم دیا کہ جائو، اگر اسے زندہ پائو تو قتل کر دو، اور اگر مردہ پائو تو اس کی لاش جلا ڈالو۔ وہ شخص وہاں پہنچا تو دیکھا کہ مجرم کو سانپ نے کاٹا ہے اور وہ مر چکا ہے۔ چنانچہ حکم کے مطابق اس کی لاش جلا ڈالی گئی۔ اس کے بعد حضورﷺ نے اعلانِ عام فرمایا اور بعد میں بھی بار بار بتاکید آپ یہ اعلان فرماتے رہے کہ جو شخص میرا نام لے کر جھوٹی بات کہے وہ جہنم میں جانے کے لیے تیار ہو جائے۔({ FR 7032 }) اس شدید احتیاطی کارروائی کا نتیجہ یہ ہوا کہ تقریباً ۳۰، ۴۰ سال تک جھوٹی حدیث گھڑ کر پھیلانے کا پھر کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔
حضرت عمرؓ نے کثرتِ روایت سے کیوں منع کیا؟
ان کا یہ ارشاد بھی ایک دعوٰی بلا ثبوت ہے کہ حضرت عمرؓ کے زمانے تک پہنچتے پہنچتے جھوٹی حدیثیں اتنی بڑھ گئی تھیں کہ حضرت عمرؓ کو روایتِ حدیث پر پابندی لگا دینی پڑی، بلکہ اسے بالکل روک دینا پڑا۔ اگر اس بیان کے لیے کوئی تاریخی سند موجود ہو تو براہ کرم اس کا حوالہ دیا جائے۔ فی الواقع اس زمانے میں وضعِ حدیث کا کوئی فتنہ رونما نہیں ہوا تھا۔ تاریخ اس کے ذکر سے بالکل خالی ہے۔ حضرت عمرؓ جس وجہ سے کثرتِ روایت کو پسند نہ کرتے تھے، وہ دراصل یہ تھی کہ جنوبی حجاز کے مختصر خطے کے سوا اس وقت تک عرب میں قرآن مجید کی عام اشاعت نہ ہوئی تھی۔ عرب کا بیش تر حصہ نبی ﷺ کی حیات طیبہ کے آخری حصے میں اِسلام کے زیر نگیں آیا تھا اور عام باشندگان عرب کی تعلیم کا انتظام ابھی پوری طرح شروع بھی نہ ہوا تھا کہ حضورﷺ کی وفات، اور پھر خلافت صدیقی میں فتنۂ ارتداد کے رونما ہونے سے یہ کام درہم برہم ہو گیا تھا۔ حضرت عمرؓ کا عہد وہ تھا جس میں مسلمانوں کو اطمینان کے ساتھ عوام کی تعلیم کے لیے کام کرنے کا موقع ملا۔ اس وقت یہ ضروری تھا کہ پہلے ساری قوم کو قرآن کے علم سے روشناس کرا دیا جائے، اور ایسا کوئی کام نہ کیا جائے جس سے قرآن کے ساتھ کوئی دوسری چیز خلط ملط ہو جانے کا اندیشہ ہو۔ اگر وہی صحابہ جوحضورﷺ کی طرف سے لوگوں کو قرآن پہنچا رہے تھے، ساتھ ساتھ حضورﷺ کی احادیث بھی بیان کرتے جاتے تو سخت خطرہ تھا کہ بدویوں کی ایک بڑی تعداد آیات قرآنی کو احادیث نبوی کے ساتھ گڈ مڈ کرکے یاد کر لیتی۔ اس مصلحت کو حضرت عمرؓ نے ایک موقع پر خود بیان فرمایا ہے۔ عروہ بن زبیرکہتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے ایک مرتبہ ارادہ کیا کہ رسول اللّٰہﷺ کی سنتیں قلم بند کر لی جائیں۔ اس کے متعلق صحابہؓ سے انھوں نے مشورہ لیا۔ سب نے رائے دی کہ یہ کام ضرور کرنا چاہیے مگر حضرت عمرؓ اسے شروع کرتے ہوئے ایک مہینے تک جھجکتے رہے اور اللّٰہ سے دعا کرتے رہے کہ جس چیز میں خیر ہو اس کی طرف وہ آپ کی راہ نُمائی کر دے۔ آخر کار ایک مہینے کے بعد ایک روز انھوں نے فرمایا کہ ’’میں سنتیں لکھوانے کا ارادہ رکھتا تھا، مگر مجھے خیال آیا کہ تم سے پہلے ایک قوم گزر چکی ہے جس نے دوسری کتابیں لکھیں اور کتاب اللّٰہ کو چھوڑ بیٹھی۔ لہٰذا خدا کی قسم! میں کتاب اللّٰہ کے ساتھ دوسری کوئی چیز ہرگز شامل نہ کروں گا۔({ FR 7033 })