سوال
کیا نکاح خوانی کا کام صرف حکومت کے مقرر کردہ نکاح خوانوں کے ذریعے ہونا چاہیے؟
جواب
جی نہیں ۔ اسلامی معاشرے میں کسی قسم کی کہانت (priesthood) کے لیے جگہ نہیں ہے۔ ہر مسلمان جس طرح نماز پڑھا سکتا ہے اسی طرح نکاح بھی پڑھا سکتا ہے بلکہ زوجین خود بھی دو گواہوں کے سامنے ایجاب و قبول کر سکتے ہیں ۔ نکاح خواں کا ایک نیا عہدہ ازروے قانون اگر مقرر کر دیا جائے تو لا محالہ دو صورتوں میں سے ایک صورت اختیار کرنی پڑے گی۔ یا تو ہر اس نکاح کو باطل قرار دیا جائے جو سرکاری ’’پادری‘‘ کے بغیر کر لیا گیا ہو یا پھر اسے جائز تسلیم کیا جائے۔ پہلی صورت میں شریعت اور قانون کے درمیان تضاد واقع ہو جائے گا، کیونکہ شرعاً وہ نکاح صحیح ہو گا۔ اور دوسری صورت میں یہ قاعدہ مقرر کرنا فضول ہو گا۔
سوال
یہ معلوم کرنے کے لیے کہ زوجین میں سے ہر ایک نے کسی دبائو کے بغیر اپنی رضامندی سے ایجاب و قبول کیا ہے کیا طریقہ اختیار کیا جائے؟
جواب
قانونی اغراض کے لیے ایجابی طور پر یہ معلوم ہونا ضروری نہیں ہے کہ نکاح کے فریقین نے اپنی رضامندی سے نکاح کیا ہے۔ جب تک یہ ثابت نہ ہو کہ کسی فریق نے دبائو کے تحت بلا رضا و رغبت مجبوراً ایجاب و قبول کیا ہے۔ اس وقت تک ہر نکاح کے متعلق یہی فرض کیا جائے گا کہ وہ برضا و رغبت ہوا ہے۔ اسلام میں ایجاب و قبول لازماً دو گواہوں کے سامنے ہوتا ہے۔ بالغ لڑکے کا نکاح اس وقت تک صحیح نہیں ہوتا جب تک وہ گواہوں کے سامنے بالفاظ صریح اسے قبول نہ کرے۔ لڑکی کے لیے (اگر وہ باکرہ ہو) زبانی اقرار ضروری نہیں ہے، لیکن اگر وہ بآوازِ بلند روے تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اسے نکاح منظور نہیں ۔ اس طرح شریعت نے خودرضامندی متحقق کرنے کا ایک قاعدہ مقرر کر دیا ہے، اور یہ بالکل کافی ہے۔ پس پردہ اگر لڑکے یا لڑکی پر کوئی دبائو ڈالا گیا ہو تو اس کا ثبوت مدعی کو لانا چاہیے۔ قانون ایسے کسی دبائو کے عدم کے لیے ثبوت کا طالب نہیں ہے بلکہ اس کے وجود کا ثبوت مانگتا ہے اگر کوئی اس کا دعویٰ کرے۔ دبائو کے عدم کا ثبوت لازم کر دینے سے نہ صرف یہ کہ قانون کا منشا الٹ جائے گا بلکہ اس سے عملاً سخت مشکلات رونما ہوں گی۔
سوال
کیا نکاح کا رجسٹری کرانا لازمی ہونا چاہیے؟ اگر ایسا ہو تو اس کے لیے کیا طریق کار ہونا چاہیے اور اس کی خلاف ورزی کے لیے کیا اور کسے سزا ہونی چاہیے؟
جواب
نکاحوں کو ایک پبلک رجسٹر میں درج کرانے کا انتظام مفید تو ضرور ہے مگر اسے لازم نہ ہونا چاہیے۔ شریعت نے نکاح کے لیے جو قواعد مقرر کیے ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ نکاح کم از کم دو گواہوں کے سامنے ہو اور اس کو علی الاعلان کیا جائے تاکہ زوجین کے رشتہ داروں اور قریب کے حلقہ تعارف میں ان کا رشتہ معلوم و معروف ہو جائے۔ نزاعات کی صورت میں اس طریقے سے نکاح کی شہادتیں بہم پہنچنا کچھ زیادہ مشکل نہیں رہتا۔ تاہم قیام شہادت میں مزید سہولتیں دو طریقوں سے پیدا ہو سکتی ہیں ۔ ایک یہ کہ ایک معیاری نکاح نامہ مرتّب کرکے عام طور پر شائع کر دیا جائے تاکہ لوگ نکاح سے متعلق تمام ضروری امور اس میں درج کرکے شہادتیں ثبت کرا لیا کریں ۔ دوسرے یہ کہ ہر محلے اور بستی میں نکاحوں کا ایک رجسٹر رکھ دیا جائے تاکہ جو بھی اس میں نکاح کا اندراج کرانا چاہے کرا دے۔ لوگ بالعموم خود ہی اپنے مفاد کی حفاظت کے لیے ان دونوں سہولتوں سے فائدہ اٹھائیں گے۔ لیکن اسے لازم کرنے میں دو قباحتیں ہیں ۔ ایک یہ کہ خلاف ورزی کرنے والوں کو کوئی نہ کوئی سزا دینی ہو گی اور اس طرح خواہ مخواہ ایک نئے جرم کا اضافہ ہو گا۔ دوسرے یہ کہ غیر رجسٹری شدہ نکاحوں کو تسلیم کرنے سے عدالتوں کو انکار کرنا ہو گا، حالانکہ جو نکاح گواہوں کے سامنے کیا جائے گا وہ شرعاً منعقد ہو جاتا ہے اور عدالت اس کے وجود سے انکار کرنے کا حق نہیں رکھتی۔ پھر یہ بھی غور طلب ہے کہ آیا آپ غیر رجسٹری شدہ نکاحوں سے پیدا ہونے والے بچوں کو ناجائز اولاد قرار دیں گے اور انھیں پدری جائداد کی وراثت سے بھی محروم کریں گے؟ اگر یہاں تک آپ نہیں جانا چاہتے تو رجسٹری کو قانوناً لازم کرنا آخر کیا معنی رکھتا ہے۔
سوال
کیا آپ کے نزدیک کم سِنی کی شادیوں کو روکنے کے لیے یہ قانون بنانا ضروری ہے کہ شادی کے وقت مرد کی عمر۱۸ سال سے کم اور عورت کی۱۵ سال سے کم نہ ہو۔
جواب
کم سنی کی شادیاں روکنے کے لیے کسی قانون کی حاجت نہیں ۔ اور اس کے لیے ۱۸ سال اور۱۵ سال کی عمر مقرر کر دینا بالکل غلط ہے۔ ہمارے ملک میں ۱۸ سال کی عمر سے بہت پہلے ایک لڑکا جسمانی طور پر بالغ ہو جاتا ہے اور لڑکیاں بھی ۱۵ سال سے پہلے جسمانی بلوغ کو پہنچ جاتی ہیں ۔ ان عمروں کو ازروے قانون نکاح کی کم سے کم عمر قرار دینے کے معنی یہ ہیں کہ ہمیں اس سے کم عمر والے لڑکوں اور لڑکیوں کی صرف شادی پر اعتراض ہے۔ کسی دوسرے طریقے سے جنسی تعلقات پیدا کر لینے پر کوئی اعتراض نہیں ۔ شریعت اسلام نے اس طرح کی مصنوعی حد بندیوں سے اسی لیے احتراز کیا ہے کہ یہ درحقیقت بالکل غیر معقول ہیں ۔ اس کے بجاے یہ بات لوگوں کے اپنے ہی اختیارِ تمیزی پر چھوڑ دینی چاہیے کہ وہ کب نکاح کریں اور کب نہ کریں ۔ لوگوں میں تعلیم اور عقلی نشوونما کے ذریعے سے جتنا زیادہ شعور پیدا ہو گا اسی قدر زیادہ صحیح طریقے سے وہ اپنے اس اختیارِ تمیزی کو استعمال کریں گے، اور کم سنی کے نا مناسب نکاحوں کا وقوع، جو اب بھی ہمارے معاشرے میں کچھ بہت زیادہ نہیں ہے روز بروز کم تر ہوتا چلا جائے گا۔ شرعاً ایسے نکاحوں کو جائز صرف اس لیے رکھا گیا ہے کہ بسا اوقات کسی خاندان کی حقیقی مصلحتیں اس کی متقاضی ہوتی ہیں ۔ اس ضرورت کی خاطر قانوناً اسے جائز ہی رہنا چاہیے اور اس کے نامناسب رواج کی روک تھام کے لیے قانون کے بجاے تعلیم اور عام بےداری کے وسائل پر اعتماد کرنا چاہیے۔ معاشرے کی ہر خرابی کا علاج قانون کا لٹھ ہی نہیں ہے۔
سوال
کیا آپ کے نزدیک نکاح کے لیے عمروں کا یہ تعیّن ازروے قرآنِ کریم یا ازروے حدیث ِصحیح ممنوع ہے؟
جواب
نکاح کے لیے عمروں کے تعیّن کی کوئی صریح ممانعت تو قرآن و حدیث میں نہیں ہے مگر کم سنی کے نکاح کا جواز سنّت سے ثابت ہے اور احادیث ِصحیحہ میں اس کے عملی نظائر موجود ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ جو چیز شرعاً جائز ہے اس کو آپ قانوناً حرام کس دلیل سے کرتے ہیں ؟ آپ کا ایک عمر ازروے قانون مقرر کر دینا یہ معنی رکھتا ہے کہ اس عمر سے کم میں اگر کوئی نکاح کیا جائے تو آپ اسے باطل قرار دیں گے اور ملکی عدالتیں اس کو تسلیم نہ کریں گی۔ کیا اسے ناجائز اور باطل ٹھیرانے کے لیے کوئی اجازت قرآن یا حدیث ِصحیح میں موجود ہے؟ دراصل یہ طرزِ سوال بہت ہی مغالطہ آمیز ہے۔ تعیین عمر صرف ایک ایجابی پہلو ہی نہیں رکھتی بلکہ ساتھ ساتھ ایک سلبی پہلو بھی رکھتی ہے۔ اس کے معنی صرف یہی نہیں ہیں کہ آپ نکاح کے لیے محض ایک عمر مقرر کرنا چاہتے ہیں ، بلکہ اس کے معنی یہ بھی ہیں کہ اس عمر سے پہلے نکاح کرنے کو آپ حرام بھی کرنا چاہتے ہیں ۔ اس منفی پہلو کو نظر انداز کرکے صرف یہ پوچھنا کہ کیا اس کا مثبت پہلو ممنوع ہے، سوال کو ادھوری شکل میں پیش کرنا ہے۔ سوال کی تکمیل اس وقت ہو گی جب آپ ساتھ ساتھ یہ بھی پوچھیں کہ کیا ایک عمر خاص سے پہلے نکاح کو ناجائز ٹھیرانے کے حق میں کوئی دلیل قرآن یا کسی حدیث صحیح میں ملتی ہے؟
سوال
ہمارے معاشرے کے بعض طبقوں میں دختر فروشی کا مکروہ رواج پایا جاتا ہے۔ اس کے انسداد کے لیے آپ کے نزدیک کس قسم کا اقدام مناسب ہو گا تاکہ والدین یا ولی لڑکی کو نکاح میں دیتے ہوئے رقمیں وصول نہ کر سکیں ؟
جواب
یہ ایک نہایت مکروہ رسم ہے۔ اسے قانوناً جرم ٹھیرا دینا چاہیے اور ان لوگوں کے لیے قید یا جرمانے کی سزا تجویز کرنی چاہیے جو لڑکیوں کو اس طرح فروخت کرتے ہیں ۔