سوال
تفہیم القرآن کے مطالعے سے دل کو سکون اور ذہن کو اطمینان ہوتا ہے۔ لیکن سورۂ المائدہ میں قَدْ جَآئَ کُمْ مِّنَ اللّٰہِ نُوْرٌ وَّکِتٰبٌ مُّبِیْنٌ (المائدہ:۵۱) کا ترجمہ و تفسیر کرتے وقت آپ سے ایک ایسی غلطی سرزد ہوئی ہے جس سے ایک گروہ کو اپنے مفید مطلب مواد ملنے اور دوسرے گروہ کو آپ کی علمیت پر انگشت نمائی کا موقع حاصل ہونے کا پورا امکان ہے۔ آپ نے آیت کے اس حصے کا ترجمہ یوں فرمایا ہے: ’’تمھارے پاس اللّٰہ کی طرف سے روشنی آگئی ہے اور ایک ایسی حق نما کتاب (جس کے ذریعے سے اللّٰہ تعالیٰ ان لوگوں کو جو اُس کی رضا کے طالب ہیں سلامتی کے طریقے بتاتا ہے…)‘‘ اس ترجمے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ آپ ’’روشنی‘‘ کو ایک الگ شے اور ’’حق نما کتاب‘‘ کو بالکل دوسری چیز سمجھتے ہیں … اسی کے حاشیہ (نمبر۳۸) سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے، کیونکہ آپ نے وہاں تحریر فرمایا ہے: ’’جو شخص اللّٰہ کی کتاب اور اُس کے رسول کی زندگی سے روشنی حاصل کرتا ہے۔‘‘ گویا آپ ’’نور‘‘ سے رسولِ کریمؐ کی ذات یا ان کی زندگی اور ’’کتابِ مبین‘‘ سے قرآن مجید مراد لے رہے ہیں ۔ حالانکہ اگلی آیت کا دوسرا لفظ بِہِ اللّٰہُ صاف بتا رہا ہے کہ ان دونوں (نور اور کتابِ مبین) سے مراد ایک چیز ہے، دو الگ الگ چیزیں نہیں ہیں ۔ اگر دو الگ ہوتیں تو بِہ ٖکی جگہ بِھِمْ آتا جیسا کہ آپ کا ترجمہ خود بتا رہا ہے: ’’جس کے ذریعے (نہ کہ جن کے ذریعے) سے اللّٰہ تعالیٰ اُن لوگوں کو …‘‘ رہا یہ سوال کہ دونوں اگر ایک ہی چیز ہیں تو وہ چیز کیا ہے؟— رسول یا قرآنِ مجید؟ —یہ تو آپ بھی تسلیم فرمائیں گے کہ رسولِ اکرمﷺ کو سارے قرآن میں نہ کہیں ’’نور‘‘ کہا گیا ہے اور نہ ’’کتابِ مبین!‘‘ البتہ قرآنِ کریم کو کئی مقامات پر (مثلاً سورۂ النساء آیت ۱۷۴، سورۂ الاعراف آیت۲۵۷، سورۂ الشوریٰ آیت ۵۲ اور سورۂ التغابن آیت ۸) ’’نُور‘‘ سے یاد کیا گیا ہے اور ’’کتابِ مبین‘‘ تو وہ ہے ہی۔ اب یہ سوال ہے، ’’نور‘‘ اور ’’کتابِ مبین‘‘ کے درمیان جو ’’واو‘‘ ہے وہ کیسی ہے؟ اور اس کا مفہوم اگر ’اَور‘ نہیں ہے تو کیا ہے؟ یقینا ’’واو‘‘ عاطفہ بھی ہوتی ہے جس کا مطلب ’اَور‘ ہوتا ہے۔ لیکن ’واو‘ تفسیری اور توضیحی بھی ہوتی ہے اور قرآنِ کریم میں متعدد مقامات پر استعمال ہوئی ہے۔ یہ تو آپ کو علم ہی ہے کہ قرآن اپنی تفسیر آپ بھی کرتا ہے۔ مثال کے طور پر : الۗرٰ ۣ تِلْكَ اٰيٰتُ الْكِتٰبِ وَقُرْاٰنٍ مُّبِيْنٍ ( الحجر:۱) ’’یہ کتاب یعنی واضح قرآن کی آیات ہیں ۔‘‘ کیا یہ ترجمہ ٹھیک ہوگا: ’’ الۗر، یہ کتاب اور قرآن واضح کی آیات ہیں ؟‘‘ (حالانکہ کتاب اور واضح قرآن ایک چیز ہیں ) اسی طرح سورۂ ’النمل‘ کی ابتدائی آیت: طٰسۗ ۣ تِلْكَ اٰيٰتُ الْقُرْاٰنِ وَكِتَابٍ مُّبِيْنٍ (النمل:۱ ) ’’طٰسٓ، یہ قرآن یعنی ایک واضح کتاب کی آیتیں ہیں ۔‘‘ طٰسٓ، ’’یہ قرآن اور ایک کتاب واضح کی آیتیں ہیں ‘‘ کے ترجمے سے شک پڑتا ہے کہ شاید’ ’قرآن‘‘ اور شے ہو اور ’’کتابِ واضح‘‘ اور چیز! حالانکہ ’’قرآن‘‘ اور’ ’کتابِ واضح‘‘ایک ہی چیز کے دو نام ہیں ۔ حاصل یہ ہے کہ ’’وائو‘‘ تشریح اور تفسیر کے لیے (یعنی کے معنوں میں ) بھی استعمال ہوتی ہے۔ آیت زیرِ نظر قَدْجَآئَ کُمْ مِّنَ اللّٰہِ نُوْرٌ وَّکِتٰبٌ مُّبِیْنٌ میں بھی ’وائو‘ توضیحی و تفسیری ہی ہے۔ آپ کا ترجمہ دراصل یوں ہونا چاہیے تھا: تمھارے پاس اللّٰہ کی طرف سے روشنی یعنی ایک ایسی حق نما کتاب آگئی ہے جس کے ذریعے… اور تشریحی نوٹ (حاشیہ نمبر ۳۸) یوں ہوتا تو درست ہوتا: ’’… جو شخص اللّٰہ کی کتاب سے روشنی حاصل کرتا ہے اُسے فکرو عمل…‘‘ رہا رسول کا ذکر تو وہ اسی آیت کے پہلے حصے میں یٰٓاَ ھْلَ الْکِتٰبِ قَدْ جَآء َکُمْ رَسُوْلُنَا … عَنْ کَثِیْرٍکے الفاظ میں ہوچکا ہے۔ متأخرین میں مولانا اشرف علی تھانویؒ نے اپنی تفسیر ’بیان القرآن‘ میں اسی حصے کا ترجمہ: ’’تمھارے پاس اللّٰہ کی طرف سے ایک روشن چیز آئی ہے اور (وہ) ایک کتاب واضح (ہے یعنی قرآن مجید…) اس کے ذریعے سے اللّٰہ تعالیٰ …‘‘ کیا ہے۔ انھی کے شاگرد مولانا عبد الماجد صاحب دریا بادی نے اپنی انگریزی تفسیر میں اسی مقام پر ’’مبین‘‘ کی تشریح میں جو کچھ لکھا ہے اس کا ترجمہ یہ ہے: ’’مبین سے اشارہ نکلتا ہے کہ قرآنِ مجید نہ صرف فی نفسہٖ نُور ہے بلکہ یہ دوسری اشیا کو بھی واضح اور روشن بنا دیتا ہے۔‘‘ امید ہے آپ ان گزارشات کی روشنی میں تفہیم القرآن کے اس حصے پر نظر ثانی فرمائیں گے تاکہ ایک فریق کو اپنے غلط عقائد کے لیے غذا اور فریقِ دیگر کو تنقید کا موقع میسر نہ آسکے۔
جواب
آپ کا خط ملا۔ قَدْجَآئَ کُمْ مِّنَ اللّٰہِ نُوْرٌ وَّکِتٰبٌ مُّبِیْنٌ آیت کا جو ترجمہ میں نے کیا ہے، اس سے پہلے متعدد مترجمین بھی وہی ترجمہ کرچکے ہیں ، اور اس کی تفسیر میں بھی میں منفرد نہیں ہوں ، بلکہ متعدد اکابر مفسرین نے بھی اس کی یہی تفسیر کی ہے۔ پہلے چند اُردو تراجم ملاحظہ کیجیے:
شاہ ولی اللّٰہ صاحبؒ کا ترجمہ: آمدبشما از جانب خدا نور ے و کتا بے روشن یعنی قرآن۔
شاہ رفیع الدین صاحبؒ : آئی تمھارے پاس اللّٰہ کی طرف سے روشنی اور کتاب بیان کرنے والی۔
شاہ عبدالقادر صاحبؒ: تم پاس آئی ہے اللّٰہ کی طرف سے روشنی اور کتاب بیان کرتی۔
مولانا محمودالحسن صاحبؒ:بے شک تمھارے پاس آئی ہے اللّٰہ کی طرف سے روشنی اور کتاب ظاہر کرنے والی۔
یہ تو ہیں پچھلے بزرگوں کے ترجمے۔ اب ذرا اکابر مفسرین کی تفسیریں بھی ملاحظہ ہوں :
ابنِ جریرؒ نور کی تفسیر کرتے ہیں : یعنی بِالنُّورِ مُحَمَدًا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، اَلَّذِی أَنَارَ اللّٰہُ بِہِ الْحَقَّ وَأَظْھَرَ بِہِ الْاِسْلَامَ وَمَحَقَ بِہِ الشِّرْکَ۔({ FR 2089 }) ’’نُور سے مراد محمد ﷺ ہیں جن کے ذریعے سے اللّٰہ نے حق کو روشن کیا، اسلام کو غالب فرمایا اور شرک کو مٹا دیا۔‘‘
امام رازیؒ لکھتے ہیں : وَفِيهِ أَقْوَالٌ: الْأَوَّلُ: أَنَّ الْمُرَادَ بِالنُّورِ مُحَمَّدٌ وَبِالْكِتَابِ الْقُرْآنُ، وَالثَّانِي: أَنَّ الْمُرَادَ بِالنُّورِ الْإِسْلَامُ، وَبِالْكِتَابِ الْقُرْآنُ. الثَّالِثُ: النُّورُ وَالْكِتَابُ هُوَ الْقُرْآنُ، وَهَذَا ضَعِيفٌ لِأَنَّ الْعَطْفَ يُوجِبُ الْمُغَايَرَةَ بَيْنَ الْمَعْطُوْفِ وَالْمَعْطُوْفِ عَلَيْه۔({ FR 2090 }) ’’اس آیت کی تفسیر میں متعدد اقوال ہیں ۔ ایک یہ کہ نور سے مراد محمد ہیں اور کتاب سے قرآن۔ دوسرا قول یہ ہے کہ نور سے مراد اسلام اور کتاب سے مراد قرآن ہے۔تیسرا قول یہ ہے کہ نور اور کتاب سے مراد قرآن ہی ہے مگر یہ قول کمزور ہے کیونکہ عطف میں لازم ہے کہ معطوف اور معطوف علیہ کے درمیان مغایرت ہو۔‘‘
علامہ آلوسیؒ نے بھی اسی تفسیر کو ترجیح دی ہے کہ نور سے مراد نبی ﷺ کی ذات ہے۔
مولانا شبیر احمد صاحبؒ نے اگرچہ یہ بات کہ نُور سے مراد نبی کریم ﷺ ہیں ، لفظ شاید کے ساتھ لکھی ہے، لیکن اس کے سوا کوئی دوسری تفسیر انھوں نے بیان نہیں کی ہے۔ اس لیے معلوم یہی ہوتا ہے کہ وہ بھی اسی تفسیر کو ترجیح دیتے ہیں ، مگر ’’شاید‘‘ کا لفظ انھوں نے اس بنا پر لکھا ہے کہ قرآن میں نور سے مراد حضورؐ کی ذات ہونے کی تصریح نہیں ہے۔
آپ نے اس تفسیر پر جو اشکال یَھْدِیْ بِہٖ کی ضمیر واحد سے وارد کیا ہے وہ صحیح نہیں ہے۔ قرآن مجید میں اس امر کی متعدد نظیریں موجود ہیں کہ وائو عطف کے ساتھ دو الگ ہستیوں کا ذکر کرنے کے بعد صیغۂ واحد استعمال کیا گیا ہے اور وہاں وائو کو عطفِ تفسیر کے معنی میں لینے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ مثال کے طور پر سورۂ النور میں فرمایا وَإِذَا دُعُوْٓا إِلَی اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ لِیَحْکُمَ بَیْنَہُمْ({ FR 2260 }) (النور:۴۸) کیا یہاں آپ واو کو تفسیر کے معنی میں لیں گے؟ درحقیقت ایسے مواقع پر ضمیر واحد اس وجہ سے استعمال کی جاتی ہے کہ دونوں حکم میں ایک ہوتے ہیں ۔ اللّٰہ کا حکم اور رسول کا حکم دو الگ چیزیں نہیں بلکہ ایک ہی حکم ہے جو اللّٰہ اور رسول دیتے ہیں ۔ دونوں میں تخالف ممکن نہیں ہے۔ اسی طرح کتاب کی ہدایت اور رسول کی ہدایت دونوں جدا جدا نہیں ہیں بلکہ دونوں ایک ہی ہدایت دیتے ہیں ۔
باقی رہا آپ کا یہ خیال کہ اس تفسیر سے بعض لوگ غلط استدلال کرسکتے ہیں ، تو اس کے متعلق میں یہ عرض کروں گا کہ اصل گمراہی نبی ﷺ کی ذات کو نورِ ہدایت قرار دینا نہیں ہے بلکہ آپﷺ کی بشریت کا انکار ہے۔ آپؐ کے لیے محض لفظ نور کے استعمال سے اگر کوئی شخص یہ استدلال کرتا ہے کہ آپؐ بشر نہ تھے کیونکہ قرآن میں آپﷺ کو ’’نور‘‘ کہا گیا ہے، تو وہ آخر اس بات کا کیا جواب دے گا کہ قرآن میں تو آپﷺ کو سراجِ منیر (روشنی دینے والا چراغ) بھی کہا گیا ہے، پھر کیا اس سے یہ لازم آئے گا کہ نبی ﷺ بشر نہ تھے بلکہ ایک ’’چراغ ‘‘تھے۔ (ترجمان القرآن ، مارچ ۱۹۶۹ء)