برادران اسلام! پچھلے خطبے میں مَیں نے آپ کے سامنے عبادت کا اصل مطلب بیان کیا تھا اور یہ وعدہ کیا تھا کہ اسلام میں جو عبادتیں فرض کی گئی ہیں ان کے متعلق آپ کو بتائوں گا کہ یہ عبادتیں کس طرح آدمی کو اُس بڑی اور اصلی عبادت کے لیے تیار کرتی ہیں جس کے لیے اللہ نے جن وانس کو پیدا کیا ہے۔ اس سلسلے میں سب سے بڑی اور سب سے اہم چیز نماز ہے، اور آج کے خطبے میں صرف اسی کے متعلق میں آپ سے کچھ بیان کروں گا۔
عبادت کا وسیع مفہوم
یہ تو آپ کو معلوم ہوچکا ہے کہ عبادت دراصل بندگی کو کہتے ہیں، اور جب آپ خدا کے بندے ہی پیدا ہوئے ہیں تو آ پ کسی وقت، کسی حال میں بھی اس کی بندگی سے آزاد نہیں ہو سکتے۔ جس طرح آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ میں اتنے گھنٹے یا اتنے منٹوں کے لیے خدا کا بندہ ہوں اور باقی وقت میں اس کابندہ نہیں، اسی طرح آپ یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ میں اتنا وقت خدا کی عبادت میں صَرف کروں گا اور باقی اوقات میں مجھے آزادی ہے کہ جو چاہوں کروں۔ آپ تو خدا کے پیدائشی غلام ہیں۔ اس نے آپ کو بندگی ہی کے لیے پیدا کیا ہے۔ لہٰذا آپ کی ساری زندگی اس کی عبادت میں صَرف ہونی چاہیے اور کبھی ایک لمحے کے لیے بھی آ پ کو اس کی عبادت سے غافل نہ ہونا چاہیے۔
یہ بھی میں آپ کو بتا چکا ہوں کہ عبادت کے معنی دنیا کے کام کاج سے الگ ہو کر ایک کونے میں بیٹھ جانے اور اللہ اللہ کرنے کے نہیں ہیں، بلکہ دراصل عبادت کا مطلب یہ ہے کہ اس دنیا میں آپ جو کچھ بھی کریں خدا کے قانون کے مطابق کریں۔ آپ کا سونا اور جاگنا، آپ کا کھانا اور پینا، آپ کا چلنا اورپھرنا، غرض سب کچھ خدا کے قانون کی پابندی میں ہو۔ آپ جب اپنے گھر میں بیوی بچوں، بھائی بہنوں اور عزیز رشتہ داروں کے پاس ہوں تو ان کے ساتھ اس طرح پیش آئیں جس طرح خدا نے حکم دیا ہے۔ جب اپنے دوستوں میں ہنسیں اور بولیں، اس وقت بھی آپ کو خیال رہے کہ ہم خدا کی بندگی سے آزاد نہیں ہیں۔ جب آپ روزی کمانے کے لیے نکلیں اور لوگوں سے لین دین کریں، اس وقت بھی ایک ایک بات اور ایک ایک کام میں خدا کے احکام کاخیال رکھیں اور کبھی اس حد سے نہ بڑھیں جو خدا نے مقرر کر دی ہے۔
جب آپ رات کے اندھیرے میں ہوں اورکوئی گناہ اس طرح کر سکتے ہوں کہ دنیا میں کوئی آپ کو دیکھنے والا نہ ہو، اس وقت بھی آپ کو یاد رہے کہ خدا آپ کو دیکھ رہا ہے اور ڈرنے کے لائق وہ ہے نہ کہ دنیا کے لوگ۔جب آپ جنگل میں تنہا جا رہے ہوں اور وہاں کوئی جرم اس طرح کر سکتے ہوں کہ کسی پولیس مین اور کسی گواہ کا کھٹکا نہ ہو، اس وقت بھی آپ خدا کو یاد کرکے ڈر جائیں اور جرم سے باز رہیں۔ جب آپ جھوٹ اور بے ایمانی اور ظلم سے بہت سا فائدہ حاصل کر سکتے ہوں اور کوئی آپ کو روکنے والا نہ ہو، اس وقت بھی آپ خدا سے ڈریں اور اس فائدے کو اس لیے چھوڑ دیں کہ خدا اس سے ناراض ہو گا، اور جب سچائی اور ایمان داری میں سراسر آپ کو نقصان پہنچ رہا ہو، اس وقت بھی آپ نقصان اٹھانا قبول کر لیں، صرف اس لیے کہ خدا اس سے خوش ہو گا۔
پس دنیا کو چھوڑ کر کونوں اور گوشوں میں جا بیٹھنا اور تسبیح ہلانا عبادت نہیں ہے، بلکہ دنیا کے دھندوں میں پھنس کر خدا کے قانون کی پابندی کرنا عبادت ہے۔ ذکرِ الٰہی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ زبان پر اللہ اللہ جاری ہو، بلکہ اصل ذکرِ الٰہی یہ ہے کہ دنیا کے جھگڑوں اور بکھیڑوں میں پھنس کر بھی تمھیں ہر وقت خدا یاد رہے۔ جو چیزیں خدا سے غافل کرنے والی ہیں ان میں مشغول ہو، اورپھر خدا سے غافل نہ ہو۔ دنیا کی زندگی میں جہاں خدائی قانون کو توڑنے کے بے شمار مواقع بڑے بڑے فائدوں کے لالچ اور نقصان کا خوف لیے ہوئے آتے ہیں وہاں خدا کو یاد کرو اور اس کے قانون کی پیروی پر قائم رہو۔ یہ ہے اصل یادِ خدا۔ اس کا نام ہے ذکرِ الٰہی۔ اسی ذکر کی طرف قرآن مجید میں اشارہ کیا گیا ہے کہ:
فَاِذَا قُضِیَتِ الصَّلٰوۃُ فَانْتَشِرُوْا فِی الْاَرْضِ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللّٰہِ وَاذْکُرُوا اللّٰہَ کَثِیْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ o (الجمعہ 62:10)
یعنی جب نماز ختم ہو جائے تو زمین میں پھیل جائو، خدا کے فضل، یعنی رزقِ حلال کی تلاش میں دوڑ دھوپ کرواور خدا کو کثرت سے یاد کرو، تاکہ تمھیں فلاح نصیب ہو۔
نماز کے فوائد
عبادت کایہ مطلب ذہن میں رکھیے اور غور کیجیے کہ اتنی بڑی عبادت انجام دینے کے لیے کن چیزوں کی ضرورت ہے، اور نماز کس طرح وہ سب چیزیں انسان میں پیدا کرتی ہے۔
احساسِ بندگی
سب سے پہلے تو اس بات کی ضرورت ہے کہ آپ کو بار بار یہ یاد دلایا جاتا رہے کہ آپ خدا کے بندے ہیں، اور اسی کی بندگی آپ کو ہر وقت ہر کام میں کرنی ہے۔ یہ یاد دلانے کی ضرورت اس لیے ہے کہ ایک شیطان آدمی کے نفس میں بیٹھا ہوا ہے جو ہر وقت کہتا رہتا ہے کہ تو میرا بندہ ہے، اور لاکھوں کروڑوں شیطان ہر طرف دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں اور ان میں سے ہر ایک یہی کہہ رہا ہے کہ تو میرا بندہ ہے۔ ان شیطانوں کا طلسم اس وقت تک ٹوٹ نہیں سکتا جب تک انسان کو دن میں کئی کئی بار یہ یاد نہ دلایا جائے کہ تو کسی کا بندہ نہیں، صرف خدا کا بندہ ہے۔یہی کام نماز کرتی ہے۔ صبح اٹھتے ہی سب کاموں سے پہلے وہ آپ کو یہی بات یاد دلاتی ہے۔ پھر جب آپ دن کو اپنے کام کاج میں مشغول ہوتے ہیں اُس وقت پھر تین مرتبہ اسی یاد کو تازہ کرتی ہے، اور جب آپ رات کو سونے کے لیے جاتے ہیں تو آخری بار پھر اسی کا اعادہ کرتی ہے۔ یہ نماز کا پہلا فائدہ ہے، اور قرآن میں اسی بنا پر نماز کو ذکر سے تعبیر کیا ہے، یعنی یہ خدا کی یاد ہے۔
فرض شناسی
پھر چونکہ آپ کو اس زندگی میں ہر ہر قدم پر خدا کے احکام بجا لانے ہیں، اس لیے یہ بھی ضروری ہے کہ آپ میں اپنا فرض پہچاننے کی صفت پیدا ہو، اور اس کے ساتھ آپ کو اپنا فرض مستعدی سے انجام دینے کی عادت بھی ہو۔ جو شخص یہ جانتا ہی نہ ہو کہ فرض کے معنی کیا ہیں، وہ تو کبھی احکام کی اطاعت کر ہی نہیں سکتا۔ اور جو شخص فرض کے معنی تو جانتا ہو، مگر اس کی تربیت اتنی خراب ہو کہ فرض کو فرض جاننے کے باوجود اسے ادا کرنے کی پروا نہ کرے، اس سے کبھی یہ امید نہیں کی جا سکتی کہ رات دن کے چوبیس گھنٹوں میں جو ہزاروں احکام اسے دیے جائیں گے ان کو مستعدی کے ساتھ انجام دے گا۔
مشقِ اطاعت
جن لوگوں کو فوج یا پولیس میں ملازمت کرنے کا اتفاق ہوا ہے وہ جانتے ہیں کہ ان دونوں ملازمتوں میں ڈیوٹی کو سمجھنے اور اسے ادا کرنے کی مشق کس طرح کرائی جاتی ہے۔ رات دن میں کئی کئی بار بِگل بجایا جاتا ہے۔ سپاہیوں کو ایک جگہ حاضر ہونے کا حکم دیا جاتا ہے اور ان سے قواعد{ FR 1612 } کرائی جاتی ہے۔ یہ سب اس لیے ہے کہ ان کو حکم بجا لانے کی عادت ہو، اور ان میں سے جو لوگ ایسے سست اور نالائق ہوں کہ بِگل کی آواز سن کر بھی گھر بیٹھے رہیں یا قواعد میں حکم کے مطابق حرکت نہ کریں، انھیں پہلے ہی ناکارہ سمجھ کر ملازمت سے الگ کر دیا جائے۔ بس اسی طرح نماز بھی دن میں پانچ وقت بِگل بجاتی ہے، تاکہ اللہ کے سپاہی اس کو سن کر ہر طرف سے دوڑے چلے آئیں اور ثابت کریں کہ وہ اللہ کے احکام کو ماننے کے لیے مستعد ہیں۔ جو مسلمان اس بِگل کو سن کر بھی بیٹھا رہتا ہے اور اپنی جگہ سے نہیں ہلتا وہ دراصل یہ ثابت کرتا ہے کہ وہ یا توفرض کو پہچانتا ہی نہیں، یا اگر پہچانتا ہے تو وہ اتنا نالائق اور ناکارہ ہے کہ خدا کی فوج میں رہنے کے قابل نہیں۔
اسی بنا پر نبیa نے فرمایا کہ جو لوگ اذان کی آواز سن کر اپنے گھروں سے نہیں نکلتے،میرا جی چاہتا ہے کہ جا کران کے گھروں میں آگ لگا دوں، اور یہی وجہ ہے کہ حدیث میں نماز کو کفر اور اسلام کے درمیان وجہِ تمیز قرار دیا گیا ہے۔ عہدِ رسالت اور عہدِ صحابہ میں کوئی ایسا شخص مسلمان ہی نہ سمجھا جاتا تھا جو نماز کے لیے جماعت میں حاضر نہ ہوتا ہو۔ حتیٰ کہ منافقین بھی جنھیں اس امر کی ضرورت ہوتی تھی کہ ان کو مسلمان سمجھا جائے، اس امر پر مجبور ہوتے تھے کہ نماز باجماعت میں شریک ہوں۔ چنانچہ قرآن میں جس چیز پر منافقین کو ملامت کی گئی ہے وہ یہ نہیں ہے کہ وہ نماز نہیں پڑھتے، بلکہ یہ ہے کہ بادلِ ناخواستہ نہایت بددلی کے ساتھ نماز کے لیے اٹھتے ہیں:
وَاِذَا قَامُوْٓا اِلَى الصَّلٰوۃِ قَامُوْا كُسَالٰى۰ۙ (النسائ 4:142)
اس سے معلوم ہوا کہ اسلام میں کسی ایسے شخص کے مسلمان سمجھے جانے کی گنجائش نہیں ہے جو نماز نہ پڑھتا ہو۔ اس لیے کہ اسلام محض ایک اعتقادی چیز نہیں ہے بلکہ عملی چیز ہے، اور عملی چیز بھی ایسی کہ زندگی میں ہر وقت، ہر لمحہ ایک مسلمان کو اسلام پر عمل کرنے اور کفر وفسق سے لڑنے کی ضرورت ہے۔ ایسی زبردست عملی زندگی کے لیے لازم ہے کہ مسلمان خدا کے احکام بجا لانے کے لیے ہر وقت مستعد ہو۔ جو شخص اس قسم کی مستعدی نہیں رکھتا، وہ اسلام کے لیے قطعاً ناکارہ ہے۔ اسی لیے دن میں پانچ وقت نماز فرض کی گئی تاکہ جو لوگ مسلمان ہونے کے مدعی ہیں ان کا بار بار امتحان لیا جاتا رہے کہ وہ فی الواقع مسلمان ہیں یا نہیں، اور فی الواقع اس عملی زندگی میں خدا کے احکام بجالانے کے لیے مستعد ہیں یا نہیں۔ اگر وہ خدائی پریڈ کا بِگل سن کر جبنش نہیں کرتے تو صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ اسلام کی عملی زندگی کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اس کے بعد ان کا خدا کو ماننا اور رسولؐ کو ماننا محض بے معنی ہے۔ اسی بنا پر قرآن میں ارشاد ہے کہ:
اِنَّھَا لَکَبِیْرَۃٌ اِلاَّ عَلَی الْخٰشِعِیْنَ o (البقرہ 2:45)
یعنی جو لوگ خدا کی اطاعت وبندگی کے لیے تیار نہیں ہیں صرف انھی پر نماز گراں گزرتی ہے، اور جس پر نماز گراں گزرے وہ خود اس بات کا ثبوت پیش کرتا ہے کہ وہ خدا کی بندگی واطاعت کے لیے تیار نہیں۔
خدا کا خوف پیدا کرنا
چوتھی چیز خدا کا خوف ہے جس کے ہر آن دل میں تازہ رہنے کی ضرورت ہے۔ مسلمان اسلام کے مطابق عمل کر ہی نہیں سکتا جب تک اُسے یہ یقین نہ ہو کہ خدا ہر وقت ہر جگہ اسے دیکھ رہا ہے، اس کی ہرحرکت کا خدا کو علم ہے۔ خدا اندھیرے میں بھی اس کو دیکھتا ہے، خدا تنہائی میں بھی اس کے ساتھ ہے، تمام دنیا سے چھپ جانا ممکن ہے، مگر خدا سے چھپنا ممکن نہیں۔ تمام دنیا کی سزائوں سے آدمی بچ سکتا ہے مگر خدا کی سزا سے بچنا غیر ممکن ہے۔ یہی یقین آدمی کو خدا کے احکام کی خلاف ورزی سے روکتا ہے۔ اسی یقین کے زور سے وہ حلال اور حرام کی اُن حدود کا لحاظ رکھنے پر مجبور ہوتا ہے جو اللہ نے زندگی کے معاملات میں قائم کی ہیں۔ اگر یہ یقین کمزور ہو جائے تو مسلمان صحیح معنوں میں مسلمان کی طرح زندگی بسر کر ہی نہیں سکتا۔ اسی لیے اللہ نے دن میں پانچ وقت نماز فرض کی ہے تاکہ وہ اس یقین کودل میں بار بار مضبوط کرتی رہے۔ چنانچہ قرآن میں خود اللہ ہی نے نماز کی اس مصلحت کو بیان کر دیا کہ:
اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْہٰى عَنِ الْفَحْشَاۗءِ وَالْمُنْكَرِ۰ۭ (العنکبوت 29:45)
یعنی نماز وہ چیز ہے جو انسان کو بدی اور بے حیائی سے روکتی ہے۔
اس کی وجہ آپ غور کرکے خود سمجھ سکتے ہیں۔ مثلاً آپ نماز کے لیے پاک ہو کر اور وضو کرکے آتے ہیں۔ اگر آپ ناپاک ہوں اور غسل کیے بغیر آ جائیں، یا آپ کے کپڑے ناپاک ہوں اور انھی کو پہنے ہوئے آجائیں، یا آپ کا وضو نہ ہو اور آپ یہ کہہ دیں کہ میں وضو کرکے آیا ہوں، تو دنیا میں کون آپ کو پکڑ سکتا ہے؟ لیکن آپ ایسا نہیں کرتے۔ کیوں؟ اس لیے کہ آپ کو یقین ہے کہ خدا سے یہ گناہ نہیں چھپ سکتا۔ اسی طرح نماز میں جو چیزیں آہستہ پڑھی جاتی ہیں اگر ان کو آپ نہ پڑھیں تو کسی کو خبر نہیں ہو سکتی، مگر آپ کبھی ایسا نہیں کرتے۔ یہ کس لیے؟ اسی لیے کہ آپ کو یقین ہے کہ خدا سب کچھ سن رہا ہے اور آپ کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے۔ اسی طرح آپ جنگل میں بھی نماز پڑھتے ہیں،رات کے اندھیرے میں بھی نماز پڑھتے ہیں، اپنے گھر میں جب تنہا ہوتے ہیں اس وقت بھی نماز پڑھتے ہیں، حالانکہ کوئی آپ کو دیکھنے والا نہیں ہوتا، اور کسی کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ آپ نے نماز نہیں پڑھی ہے۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ یہی کہ آپ چھپ کر بھی خدا کے حکم کی خلاف ورزی کرنے سے ڈرتے ہیں، اور آپ کو یقین ہے کہ خدا سے کسی جرم کو چھپاناممکن نہیں۔ اس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ نماز کس طرح خدا کا خوف اور اس کے حاضر وناظر اور علیم وخبیر ہونے کا یقین آدمی کے دل میں بٹھاتی اور تازہ کرتی رہتی ہے۔ رات دن کے چوبیس گھنٹوں میں آپ ہر وقت خدا کی عبادت اور بندگی کیسے کر سکتے ہیں جب تک کہ یہ خوف اور یقین آپ کے دل میں تازہ نہ ہوتا رہے۔ اگر اس چیز سے آپ کا دل خالی ہو تو کیوں کر ممکن ہے کہ رات دن جو ہزاروں معاملات آپ کو دنیا میں پیش آتے ہیں، ان میں آپ خدا سے ڈر کر نیکی پر قائم رہیں گے اور بدی سے بچیں گے۔
قانونِ الٰہی سے واقفیت
پانچویں چیز جو عبادت الٰہی کے لیے نہایت ضروری ہے وہ یہ ہے کہ آپ خدا کے قانون سے واقف ہوں۔ اس لیے کہ اگر آپ کو قانون کا علم ہی نہ ہو توآپ اس کی پابندی کیسے کر سکتے ہیں؟ یہ کام بھی نماز انجام دیتی ہے۔ نماز میں قرآن جو پڑھا جاتا ہے، یہ اسی لیے ہے کہ روزانہ آپ خدا کے احکام اوراس کے قانون سے واقف ہوتے رہیں۔ جمعہ کا خطبہ بھی اسی لیے ہے کہ آپ کو اسلام کی تعلیم سے واقفیت ہو۔ نماز باجماعت اور جمعہ سے ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ عالم اور عامی] عام آدمی[ بار بار ایک جگہ جمع ہوتے رہیں اور لوگوں کو ہمیشہ خدا کے احکام سے واقف ہونے کا موقع ملتا رہے۔ اب یہ آپ کی بدقسمتی ہے کہ آپ نمازمیں جو کچھ پڑھتے ہیں اس سے واقف ہونے کی کوشش نہیں کرتے۔ آپ کو جمعہ کے خطبے بھی ایسے سنائے جاتے ہیں جن سے آپ کو اسلام کا کوئی علم حاصل نہیں ہوتا، اور نماز کی جماعتوں میں آ کر نہ آپ کے عالم اپنے جاہل بھائیوں کو کچھ سکھاتے ہیں اور نہ جاہل اپنے بھائیوں سے کچھ پوچھتے ہیں۔ نماز تو آپ کو ان سب فائدوں کا موقع دیتی ہے، آپ خود فائدہ نہ اٹھائیں تو نماز کا کیا قصور؟
اجتماعیت کی مشق
چھٹی چیزیہ ہے کہ ہر مسلمان زندگی کے اس ہنگامے میں اکیلا نہ ہو، بلکہ سب مسلمان مل کر ایک مضبوط جماعت بنیں اور خدا کی عبادت، یعنی اس کے احکام کی پابندی کرنے اور اس کے قانون پر عمل کرنے اور اس کے قانون کو دنیا میں جاری کرنے کے لیے ایک دوسرے کی مدد کریں۔ آپ جانتے ہیں کہ اس زندگی میں ایک طرف مسلمان، یعنی خدا کے فرماں بردار بندے ہیں اور دوسری طرف کفار، یعنی خدا کے باغی بندے۔ رات دن فرماںبرداری اور بغاوت کے درمیان کشمکش برپا ہے۔ باغی، خدا کے قانون کو توڑتے ہیں اور اس کے خلاف دنیا میں شیطانی قوانین کو جاری کرتے ہیں۔ ان کے مقابلے میں اگر ایک ایک مسلمان تنہا ہو تو کامیاب نہیں ہو سکتا۔ ضرورت اس کی ہے کہ خدا کے فرماںبردار بندے مل کر اجتماعی طاقت سے بغاوت کا مقابلہ کریں اور خدائی قانون کو نافذ کریں۔ یہ اجتماعی طاقت پیدا کرنے والی چیز تمام چیزوں سے بڑھ کر نماز ہے۔ پانچ وقت کی جماعت، پھر جمعہ کا بڑا اجتماع، پھر عیدین کے اجتماع، یہ سب مل کر مسلمانوں کو ایک مضبوط دیوار کی طرح بنا دیتے ہیں، اور ان میں وہ یک جہتی اور عملی اتحاد پیدا کر دیتے ہیں جو روز مرّہ کی عملی زندگی میں مسلمانوں کو ایک دوسرے کا مددگار بنانے کے لیے ضروری ہے۔
٭…٭…٭