Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

عرضِ ناشر
دیباچہ طبع اوّل
دیباچہ طبع ہشتم
باب اوّل
مسلمان ہونے کے لیے علم کی ضرورت
مسلم اورکافر کا اصلی فرق
سوچنے کی باتیں
کلمۂ طیبہ کے معنی
کلمۂ طیّبہ اور کلمۂ خبیثہ
کلمۂ طیبہ پر ایمان لانے کا مقصد
باب دوم
مسلمان کسے کہتے ہیں؟
ایمان کی کسوٹی
اسلام کا اصلی معیار
خدا کی اطاعت کس لیے؟
دین اور شریعت
باب سوم
عبادت
نماز
نماز میں آپ کیا پڑھتے ہیں؟
نماز باجماعت
نمازیں بے اثر کیوں ہو گئیں؟
باب چہارم
ہر امت پر روزہ فرض کیا گیا
روزے کا اصل مقصد
باب پنجم
زکوٰۃ
زکوٰۃ کی حقیقت
اجتماعی زندگی میں زکوٰۃ کا مقام
انفاق فی سبیل اللہ کے احکام
زکوٰۃ کے خاص احکام
باب ششم
حج کا پس منظر
حج کی تاریخ
حج کے فائدے
حج کا عالمگیر اجتماع
باب ہفتم
جہاد
جہاد کی اہمیت
ضمیمہ ۱ ۱۔اَلْخُطْبَۃُ الْاُوْلٰی
۲۔اَلْخُطْبَۃُ الثَّانِیَۃُ
ضمیمہ ۲ (بسلسلہ حاشیہ صفحہ نمبر ۲۰۷)

خطبات

اسلام کو دل نشیں، مدلل اور جا مع انداز میں پیش کرنے کا جو ملکہ اور خداداد صلاحیت سید ابو الاعلیٰ مودودی ؒ کو حاصل ہے وہ محتاج بیان نہیں۔ آپ کی تصانیف و تالیفات کی ایک ایک سطر جیسی یقین آفریں اور ایمان افزا ہے، اس کا ہر پڑھالکھا شخص معترف و مدّاح ہے ۔ کتنے ہی بگڑے ہوئے افراد، جوان، بچے، مرد وعورت ان تحریروں سے متاثر ہو کر اپنے سینوں کو نورِ ایمان سے منور کر چکے ہیں۔ ان کتابوں کی بدولت تشکیک کے مارے ہوئے لاتعداد اشخاص ایمان و یقین کی بدولت سے مالا مال ہوئے ہیں اور کتنے ہی دہریت و الحاد کے علم بردار اسلام کے نقیب بنے ہیں۔ یوں تو اس ذہنی اور عملی انقلاب لانے میں مولانا محترم کی جملہ تصانیف ہی کو پیش کیا جا سکتا ہے لیکن ان میں سر فہرست یہ کتاب خطبات ہے۔ یہ کتاب دراصل مولانا کے ان خطبات کا مجموعہ ہے جو آپ نے دیہات کے عام لوگوں کے سامنے جمعے کے اجتماعات میں دیے۔ ان خطبات میں آپ نے اسلام کے بنیادی ارکان کو دل میں اُتر جانے والے دلائل کے ساتھ آسان انداز میں پیش کیا ہے اور کمال یہ ہے کہ اس کتاب کو عام وخاص،کم علم واعلیٰ تعلیم یافتہ،ہر ایک یکساں ذوق وشوق سے پڑھتا ہے اور اس سے فائدہ اُٹھاتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اسلام کے بنیادی ارکان کو سمجھنے کے لیے ہماری زبان ہی میں نہیں بلکہ دنیا کی دوسری بلند پایہ زبانوں میں بھی اس کتاب کی نظیر نہیں ملتی۔ علم و حقانیت کا ایک ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ہے جو ان صفحات میں بند کردیا گیا ہے۔

نمازیں بے اثر کیوں ہو گئیں؟

برادرانِ اسلام! آج کے خطبے میں مجھے آپ کو یہ بتانا ہے کہ جس نماز کے اس قدر فائدے میں نے کئی خطبوں میں مسلسل آپ کے سامنے بیان کیے ہیں وہ اب کیوں وہ فائدے نہیں دے رہی ہے؟کیا بات ہے کہ آپ نمازیں پڑھتے ہیں او ر پھر بھی آپ کی زندگی نہیں سدھرتی؟ پھر بھی آپ کے اخلاق پاکیزہ نہیں ہوتے؟ پھر بھی آپ ایک زبردست خدائی فوج نہیں بنتے؟ پھر بھی کفار آپ پر غالب ہیں؟ پھر بھی آپ دنیا میں تباہ حال اور نکبت زدہ ہیں؟
اس سوال کا مختصر جواب تو یہ ہو سکتا ہے کہ اوّل تو آپ نماز پڑھتے ہی نہیں اورپڑھتے بھی ہیں تو اس طریقے سے نہیں پڑھتے جو خدا اور رسولؐ نے بتایا ہے۔ اس لیے ان فائدوں کی توقع آپ نہیں کر سکتے جو مومن کو معراجِ کمال تک پہنچانے والی نماز سے پہنچنے چاہییں۔ لیکن میں جانتا ہوں کہ صرف اتنا سا جواب آپ کو مطمئن نہیں کر سکتا، اس لیے ذرا تفصیل کے ساتھ آپ کو یہ بات سمجھائوں گا۔
ایک مثال ___ گھڑی
یہ گھنٹہ{ FR 1619 } جو آپ کے سامنے لٹک رہا ہے، آپ دیکھتے ہیں کہ اس میں بہت سے پُرزے ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ جب اس کو کُوک{ FR 1620 } دی جاتی ہے تو سب پُرزے اپنا اپنا کام شروع کر دیتے ہیں اور ان کے حرکت کرنے کے ساتھ ہی باہر کے سفید تختے پر ان کی حرکت کا نتیجہ ظاہر ہونا شروع ہو جاتا ہے، یعنی گھنٹے کی دونوں سوئیاں چل کر ایک ایک سیکنڈ اور ایک ایک منٹ بتانے لگتی ہیں۔ اب آپ ذرا غور کی نگاہ سے دیکھیے۔ گھنٹے کے بنانے کا مقصد یہ ہے کہ وہ صحیح وقت بتائے۔ اسی مقصد کے لیے گھنٹے کی مشین میں وہ سب پرزے جمع کیے گئے جو صحیح وقت بتانے کے لیے ضروری تھے۔ پھر ان سب کواس طرح جوڑا گیاکہ سب مل کرباقاعدہ حرکت کریں اور ہر پُرزہ وہی کام اور اتنا ہی کام کرتا چلا جائے جتنا صحیح وقت بتانے کے لیے اس کو کرنا چاہیے۔ پھر کوک دینے کا قاعدہ مقرر کیا گیا تاکہ ان پُرزوں کو ٹھیرنے نہ دیا جائے اور تھوڑی تھوڑی مدت کے بعد ان کو حرکت دی جاتی رہے۔ اس طرح جب تمام پُرزوں کو ٹھیک ٹھیک جوڑا گیا اور ان کو کوک دی گئی تب کہیں یہ گھنٹہ اس قابل ہوا کہ وہ مقصد پورا کرے جس کے لیے یہ بنایا گیا ہے۔ اگر آپ اسے کوک نہ دیں تو یہ وقت نہیں بتائے گا۔ اگر آپ کوک دیں، لیکن اس قاعدے کے مطابق نہ دیں جو کوک دینے کے لیے مقرر کیا گیا ہے، تو یہ بند ہو جائے گا، یا چلے گا بھی تو صحیح وقت نہ بتائے گا۔ اگر آپ اس کے بعض پُرزے نکال ڈالیں اور پھر کوک دیں تو اس کوک سے کچھ حاصل نہ ہو گا۔ اگر آپ اس کے بعض پُرزوں کو نکال کر اس کی جگہ سنگر مشین کے پُرزے لگا دیں اور پھر کوک دیں تو یہ نہ وقت بتائے گا اور نہ کپڑا ہی سیئے گا۔ اگر آپ اس کے سارے پُرزے اس کے اندر ہی رہنے دیں لیکن ان کو کھول کر ایک دوسرے سے الگ کر دیں تو کوک دینے سے کوئی پُرزہ بھی حرکت نہ کرے گا۔ کہنے کو سارے پُرزے اس کے اندر موجود ہوں گے، مگر محض پُرزوں کے موجود رہنے سے وہ مقصد حاصل نہ ہو گا جس کے لیے گھنٹہ بنایا گیا ہے، کیوں کہ ان کی ترتیب اور ان کا آپس کا تعلق آپ نے توڑ دیا ہے جس کی وجہ سے وہ مل کر حرکت نہیں کر سکتے۔ یہ سب صورتیں جو میں نے آپ سے بیان کی ہیں ان میں اگرچہ گھنٹے کی ہستی اور اس کو کوک دینے کا فعل دونوںبے کار ہو جاتے ہیں، لیکن دُور سے دیکھنے والا یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ گھنٹہ نہیں ہے، یا آپ کوک نہیں دے رہے ہیں۔ وہ تو یہی کہے گا کہ صورت بالکل گھنٹے جیسی ہے، اور یہی امید کرے گا کہ گھنٹے کا جو فائدہ ہے وہ اس سے حاصل ہونا چاہیے۔ اسی طرح دُور سے جب وہ آپ کو کوک دیتے ہوئے دیکھے گا تو یہی خیال کرے گا کہ آپ واقعی گھنٹے کو کوک دے رہے ہیں، اور یہی توقع کرے گا کہ گھنٹے کو کوک دینے کا جو نتیجہ ہے وہ ظاہر ہونا چاہیے۔ لیکن یہ توقع پوری کیسے ہو سکتی ہے، جب کہ یہ گھنٹہ بس دُور سے دیکھنے ہی کا گھنٹہ ہے اور حقیقت میں اس کے اندرگھنٹہ پن باقی نہیں رہا ہے۔
اُ مّتِ مسلمہ کا مقصد
یہ مثال جو میں نے آپ کے سامنے بیان کی ہے۔ اس سے آپ سارا معاملہ سمجھ سکتے ہیں۔ اسلام کو اسی گھنٹے پر قیاس کر لیجیے۔ جس طرح گھنٹے کا مقصد صحیح وقت بتانا ہے اِسی طرح اسلام کا مقصد یہ ہے کہ زمین میں آپ خدا کے خلیفہ، خلق پر خدا کے گواہ، اور دنیا میں دعوتِ حق کے علم بردار بن کر رہیں، خود خدا کے حکم پر چلیں، سب پر خدا کا حکم چلائیں، اور سب کو خدا کے قانون کا تابع بنا کر رکھیں۔ اس مقصد کو صاف طور پر قرآن میں بیان کر دیا گیا ہے کہ:
كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ۝۰ۭ (آل عمران 3:110)
تم وہ بہترین امت ہو جسے نوعِ انسانی کے لیے نکالا گیا ہے۔ تمھارا کام یہ ہے کہ سب انسانوں کو نیکی کا حکم دو اور برائی سے روکو اور اللہ پر ایمان رکھو۔
وَ کَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُھَدَآئَ عَلَی النَّاسِ (البقرہ 2:143)
اور اس طرح ہم نے تم کو بہترین امت بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پرگواہ ہو۔
وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّہُمْ فِی الْاَرْضِ
(النور24: 55)
اللہ نے وعدہ کیا ہے ان لوگوں سے جو تم میں سے ایمان لائیں اور نیک عمل کریں کہ وہ ضرور ان کو زمین میں اپنا خلیفہ بنائے گا۔
وَقَاتِلُوْہُمْ حَتّٰي لَا تَكُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّيَكُوْنَ الدِّيْنُ كُلُّہٗ لِلہِ۝۰ۚ (الانفال8:39)
اور لوگوں سے جنگ کرو یہاں تک کہ غیر اللہ کی بندگی کا فتنہ مٹ جائے اور اطاعت پوری کی پوری صرف اللہ کے لیے ہو۔

اسلامی احکام باہم مربوط ہیں جیسے گھڑی کے پُرزے
اس مقصد کو پورا کرنے کے لیے گھنٹے کے پرزوں کی طرح اسلام میں بھی وہ تمام پرزے جمع کیے گئے ہیں جو اس غرض کے لیے ضروری اور مناسب تھے۔ دین کے عقاید واخلاق کے اصول، معاملات کے قاعدے، خدا کے حقوق، بندوں کے حقوق، خود اپنے نفس کے حقوق، دنیا کی ہر چیز کے حقوق جس سے آپ کو واسطہ پیش آتا ہے، کمانے کے قاعدے اور خرچ کرنے کے طریقے، جنگ کے قانون اور صلح کے قاعدے، حکومت کرنے کے قوانین اور حکومتِ اسلامی کی اطاعت کرنے کے ڈھنگ، یہ سب اسلام کے پرزے ہیں اور ان کو گھڑی کے پُرزوں کی طرح ایک ایسی ترتیب سے ایک دوسرے کے ساتھ کسا گیا ہے کہ جونہی اس میں کوک دی جائے، ہرپُرزہ دوسرے پُرزوں کے ساتھ مل کر حرکت کرنے لگے۔ اور ان سب کی حرکت سے اصل نتیجہ، یعنی اسلام کا غلبہ اور دنیا پرخدائی قانون کا تسلط اس طرح مسلسل ظاہر ہونا شروع ہو جائے جس طرح اس گھنٹے کو آپ دیکھ رہے ہیں کہ اس کے پُرزوں کی حرکت کے ساتھ ہی باہر کے سفید تختے پر نتیجہ برابر ظاہر ہوتا چلا جاتا ہے۔ گھڑی میں پُرزوں کو ایک دوسروں کے ساتھ باندھے رکھنے کے لیے چند کیلیں اور چند پتریاں لگائی گئی ہیں۔ اسی طرح اسلام کے تمام پُرزوں کو ایک دوسرے کے ساتھ جڑا رکھنے اور ان کی صحیح ترتیب قائم رکھنے کے لیے وہ چیز رکھی گئی ہے جس کو نظامِ جماعت کہا جاتا ہے، یعنی مسلمانوں کا ایک ایسا سردار جو دین کا صحیح علم اور تقویٰ کی صفت رکھتا ہو۔ جماعت کے دماغ مل کر اس کی مدد کریں، جماعت کے ہاتھ پائوں اس کی اطاعت کریں، ان سب کی طاقت سے وہ اسلام کے قوانین نافذ کرے اور لوگوں کو اُن قوانین کی خلاف ورزی سے روکے۔ اس طریقے سے جب سارے پُرزے ایک دوسرے کے ساتھ جڑ جائیں اور ان کی ترتیب ٹھیک ٹھیک قائم ہو جائے، تو ان کو حرکت دینے اور دیتے رہنے کے لیے کوک کی ضرورت ہوتی ہے، اور وہی کوک یہ نماز ہے جو ہر روز پانچ وقت پڑھی جاتی ہے۔ پھر اس گھڑی کو صاف کرتے رہنے کی بھی ضرورت ہوتی ہے، اور وہ صفائی یہ روزے ہیں جو سال بھر میں تیس دن رکھے جاتے ہیں، اور اس گھڑی کو تیل دیتے رہنے کی بھی ضرورت ہے، سو زکوٰۃ وہ تیل ہے جو سال بھر میں ایک مرتبہ اس کے پُرزوں کو دیا جاتا ہے۔ یہ تیل کہیں باہر سے نہیں آتا بلکہ اسی گھڑی کے بعض پُرزے تیل بناتے ہیں اور بعض سوکھے ہوئے پُرزوں کو روغن دار کرکے آسانی کے ساتھ چلنے کے قابل بنا دیتے ہیں۔ پھر اسے کبھی کبھی اوور ہال{ FR 1621 } کرنے کی بھی ضرورت ہوتی ہے، سو وہ اوور ہالنگ حج ہے جو عمر میں ایک مرتبہ کرنا ضروری ہے، اور اس سے زیادہ جتنا کیا جا سکے اتنا ہی بہتر ہے۔
متفرق پُرزوں کا جوڑ کار آمد نہیں
اب آپ غور کیجیے کہ یہ کُوک دینا اور صفائی کرنا اور تیل دینا اور اوور ہال کرنا اسی وقت تو مفید ہو سکتا ہے جب اس فریم میں اسی گھڑی کے سارے پُرزے موجود ہوں، ایک دوسرے کے ساتھ اسی ترتیب سے جڑے ہوئے ہوں جس سے گھڑی ساز نے انھیں جوڑا تھا، اور ایسے تیار رہیں کہ کوک دیتے ہی اپنی مقررہ حرکت کرنے لگیں اور حرکت کرتے ہی نتیجہ دکھانے لگیں۔ لیکن یہاں معاملہ ہی کچھ دوسرا ہو گیا ہے۔ اوّل تو وہ نظامِ جماعت ہی باقی نہیں رہا جس سے اس گھڑی کے پرزوں کو باندھا گیا تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ سارے پیچ ڈھیلے ہو گئے اور پُرزہ پُرزہ الگ ہو کر بکھر گیا۔ اب جو جس کے جی میں آتا ہے کرتا ہے۔ کوئی پوچھنے والا ہی نہیں، ہر شخص مختار ہے۔ اس کا دل چاہے تو اسلام کے قانون کی پیروی کرے، اور نہ چاہے تو نہ کرے۔ اس پر بھی آپ لوگوں کا دل ٹھنڈا نہ ہوا تو آپ نے اس گھڑی کے بہت سے پُرزے نکال ڈالے اوران کی جگہ ہر شخص نے اپنی اپنی پسند کے مطابق جس دوسری مشین کا پرزہ چاہا لا کر اس میں فِٹ کر دیا۔ کوئی صاحب سنگر مشین کا پُرزہ پسند کرکے لے آئے، کسی صاحب کو آٹا پیسنے کی چکی کا کوئی پُرزہ پسند آ گیا تو وہ اسے اٹھا لائے، اور کسی صاحب نے موٹر لاری کی کوئی چیز پسند کی تو اسے لا کر اس گھڑی میں لگا دیا۔ اب آپ مسلمان بھی ہیں اور بینک سے سودی کاروبار بھی چل رہا ہے۔ انشورنس کمپنی میں بیمہ بھی کرا رکھا ہے۔ انگریزی عدالتوں میں جھوٹے مقدمے بھی کر رہے ہیں، کفر کی وفادارانہ خدمت بھی ہو رہی ہے، بیٹیوں اور بہنوں اور بیویوں کو میم صاحب بھی بنایا جا رہا ہے، بچوں کو مادّہ پرستانہ تعلیم بھی دی جا رہی ہے۔ گاندھی{ FR 1622 } صاحب کی پیروی بھی ہو رہی ہے اور لینن{ FR 1623 } صاحب کے راگ بھی گائے جا رہے ہیں۔ غرض کوئی غیر اسلامی چیز ایسی نہیں رہی جسے ہمارے بھائی مسلمانوں نے لا لا کر اسلام کی اس گھڑی کے فریم میں ٹھونس نہ دیا ہو۔
غیر متوقع نتائج کے مخاطب
یہ سب حرکتیں کرنے کے بعد اب آپ چاہتے ہیں کہ کوک دینے سے یہ گھڑی چلے اور وہی نتیجہ دکھائے جس کے لیے اس گھڑی کو بنایا گیا تھااور صفائی کرنے اور تیل دینے اور اوورہال کرنے سے وہی فائدے ہوں جو ان کاموں کے لیے مقرر ہیں، مگر ذرا عقل سے آپ کام لیں تو بآسانی آپ سمجھ سکتے ہیں کہ جو حال آپ نے اس گھڑی کا کر دیا ہے اس میں تو عمربھر کوک دینے اور صفائی کرنے اورتیل دیتے رہنے سے بھی کچھ نتیجہ نہیں نکل سکتا۔ جب تک آپ باہر سے آئے ہوئے تمام پرزوں کو نکال کر اس کے اصلی پرزے اس میں نہ رکھیں گے، اور پھر ان پُرزوں کو اسی ترتیب کے ساتھ جوڑ کر کس نہ دیں گے جس طرح ابتدا میں انھیں جوڑا اور کسا گیا تھا، آپ ہرگز ان نتائج کی توقع نہیں کر سکتے جو اس سے کبھی ظاہر ہوئے تھے۔
عبادات بے اثر ہونے کی اصل وجہ
خوب سمجھ لیجیے کہ یہ اصلی وجہ ہے آپ کی نمازوں اور روزوں اور زکوٰۃ اور حج کے بے نتیجہ ہو جانے کی۔ اوّل تو آپ میں سے نمازیں پڑھنے والے اور روزے رکھنے والے اور زکوٰۃ اور حج ادا کرنے والے ہیں ہی کتنے۔ نظامِ جماعت کے بکھر جانے سے ہر شخص مختارِ مطلق ہو گیا ہے۔چاہے ان فرائض کو ادا کرے، چاہے نہ کرے، کوئی پوچھنے والا ہی نہیں۔ پھر جو لوگ انھیں ادا کرتے ہیں وہ بھی کس طرح کرتے ہیں؟ نماز میں جماعت کی پابندی نہیں، اور اگرجماعت کی پابندی ہے بھی تو مسجدوں کی امامت کے لیے ان لوگوں کو چنا جاتا ہے جو دنیا میں کسی اور کام کے قابل نہیں ہوتے۔ مسجد کی روٹیاں کھانے والے، جاہل، کم حوصلہ اور پست اخلاق لوگوں کو آپ نے اس نماز کا امام بنایا ہے جو آپ کو خدا کا خلیفہ اور دنیا میں خدائی فوج دار بنانے کے لیے مقرر کی گئی تھی۔ اسی طرح روزے اور زکوٰۃ اور حج کا جو حال ہے و ہ بھی ناقابل بیان ہے۔ ان سب باتوں کے باوجود آپ کہہ سکتے ہیں کہ اب بھی بہت سے مسلمان اپنے فرائض ِ دینی بجا لانے والے ضرور ہیں، لیکن جیسا کہ میں بیان کر چکا ہوں، گھڑی کا پُرزہ پُرزہ الگ کرکے اور اس میں باہر کی بیسیوں چیزیں داخل کرکے آپ کا کوک دینا اور نہ دینا، صفائی کرنا اور نہ کرنا، تیل دینا اور نہ دینا، دونوں بے نتیجہ ہیں۔ آپ کی یہ گھڑی دُور سے گھڑی ہی نظر آتی ہے۔ دیکھنے والا یہی کہتا ہے کہ یہ اسلام ہے اور آپ مسلمان ہیں۔ آپ جب اس گھڑی کو کوک دیتے اور صفائی کرتے ہیں تو دُور سے دیکھنے والا یہی سمجھتا ہے کہ واقعی آپ کوک دے رہے اور صفائی کر رہے ہیں۔ کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ نماز نماز نہیں ہے، یا یہ روزے روزے نہیں ہیں، مگر دیکھنے والوں کو کیا خبر کہ اس ظاہری فریم کے اندر کیا کچھ کارستانیاں کی گئی ہیں۔
ہماری افسوس ناک حالت
برادرانِ اسلام! میں نے آپ کو اصلی وجہ بتا دی ہے کہ آپ کے یہ مذہبی اعمال آج کیوں بے نتیجہ ہو رہے ہیں اور کیا وجہ ہے کہ نمازیں پڑھنے اور روزے رکھنے کے باوجود آپ خدائی فوج دار بننے کے بجائے کفار کے قیدی اور ہر ظالم کے تختۂ مشق بنے ہوئے ہیں۔ لیکن آپ اگر برا نہ مانیں تو میں آپ کو اس سے بھی زیادہ افسوس ناک بات بتائوں۔ آپ کو اپنی اس حالت کا رنج اور اپنی مصیبت کا احساس تو ضرور ہے، مگر آپ کے اندر ہزارمیں سے نو سو ننانوے بلکہ اس سے بھی زیادہ لوگ ایسے ہیں جو اس حالت کو بدلنے کی صحیح صورت کے لیے راضی نہیں ہیں۔ وہ اسلام کے اس گھنٹے کو جس کا پُرزہ پُرزہ اندر سے الگ کر دیا گیا ہے اور جس میں اپنی اپنی پسند کے مطابق ہر شخص نے کوئی نہ کوئی چیز ملا رکھی ہے، ازسرِ نو مرتب کرنا برداشت نہیں کر سکتے۔ کیونکہ جب اس میں سے بیرونی چیزیں نکالی جائیں گی تو لامحالہ ہر ایک کی پسند کی چیز نکالی جائے گی۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ دوسروں کی پسند کی چیزیںتو نکال دی جائیں، مگر آپ نے خود باہر کا جو پُرزہ لگا رکھا ہو اسے رہنے دیا جائے۔ اسی طرح جب اسے کسا جائے گا تو سب ہی اس کے ساتھ کسے جائیں گے۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ اور سب تو کَس دیے جائیں، مگر صرف ایک آپ ہی ایسے پُرزے ہوں جسے ڈھیلا چھوڑ دیا جائے۔ بس یہی وہ چیز ہے کہ جب اس کو کسا جائے گا تو وہ خود بھی اس کے ساتھ کسے جائیں گے، اور یہ ایسی مشقت ہے جسے برضا ورغبت گوارا کرنا لوگوں کے لیے مشکل ہے۔ اس لیے وہ بس یہ چاہتے ہیں کہ یہ گھنٹہ اسی حال میں دیوار کی زینت بنا رہے اور دُور سے لا لا کر لوگوں کو اس کی زیارت کرائی جائے، اور انھیں بتایا جائے کہ اس گھنٹے میں ایسی اور ایسی کرامات چھپی ہوئی ہیں۔ اس سے بڑھ کر جو لوگ کچھ زیادہ اس گھنٹے کے ہوا خواہ ہیں وہ چاہتے ہیں کہ اسی حالت میں اس کو خوب دل لگا لگا کر کوک دی جائے اور نہایت تن دہی کے ساتھ اس کی صفائی کی جائے، مگر حاشا کہ اس کے پُرزوں کو مرتب کرنے اور کسنے اور بیرونی پُرزے نکال پھینکنے کا ارادہ نہ کیا جائے۔
کاش! میں آپ کی ہاں میں ہاں ملا سکتا، مگر میں کیا کروں کہ جو کچھ میں جانتا ہوں اس کے خلاف نہیں کہہ سکتا۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ جس حالت میں آپ اس وقت ہیں اس میں پانچ وقت کی نمازوں کے ساتھ تہجد اور اشراق اور چاشت بھی آپ پڑھنے لگیں، اورپانچ پانچ گھنٹے روزانہ قرآن بھی پڑھیں، اور رمضان شریف کے علاوہ گیارہ مہینوں میں ساڑھے پانچ مہینوں کے مزید روزے بھی رکھ لیا کریں تب بھی کچھ حاصل نہ ہو گا۔ گھڑی کے اندر اس کے اصلی پرزے رکھے ہوں اور انھیں کَس دیا جائے تب تو ذرا سی کوک بھی اس کو چلا دے گی، تھوڑا سا صاف کرنا اور ذرا سا تیل دینا بھی نتیجہ خیز ہو گا، ورنہ عمر بھر کوک دیتے رہیے، گھڑی نہ چلتی ہے نہ چلے گی۔ وَمَا عَلَیْنَا اِلاَّالْبَلَاغ۔

شیئر کریں