سوال
تراویح کی تعداد رکعت کیا ہے؟کیاصحیح احادیث میں آٹھ،بیس،اڑ تیس یا چالیس رکعتیں نبی ﷺ سے ثابت ہیں ؟
جواب
تمام روایات({ FR 2056 }) کو جمع کرنے سے جو چیزحقیقت سے قریب تر معلوم ہوتی ہے،وہ یہ ہے کہ حضور ﷺ نے خود جماعت کے ساتھ رمضان میں جو نماز پڑھائی،وہ اوّل وقت تھی نہ کہ آخر وقت میں ،اور وہ آٹھ رکعتیں تھیں نہ کہ بیس(اگرچہ ایک روایت بیس کی بھی ہے مگر وہ آٹھ والی روایت کی بہ نسبت ضعیف ہے)، اوریہ کہ لوگ حضور ﷺ کے پیچھے جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کے بعد واپس جاکر اپنے طورپر مزید کچھ رکعتیں بھی پڑھتے تھے۔وہ مزید رکعتیں کتنی ہوتی تھیں ؟اس بارے میں کوئی واضح بات نہیں ملتی۔ لیکن بعد میں جو حضرت عمرؓ نے۲۰ رکعتیں پڑھنے کاطریقہ رائج کیا اور تمام صحابہؓ نے اس سے اتفاق کیا،اس سے یہی سمجھ میں آتا ہے کہ وہ زائد رکعتیں ۱۲ہوتی تھیں ۔
حضرت عمرؓ کے زمانے میں جب باقاعدہ جماعت کے ساتھ تراویح پڑھنے کا سلسلہ شروع ہوا تو باتفاق صحابہ بیس رکعتیں پڑھی جاتی تھیں اور اسی کی پیروی حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ کے زمانے میں بھی ہوئی۔تینوں خلفا کا اس پر اتفاق اور پھر صحابہ کا اس میں اختلاف نہ کرنا یہ ثابت کرتا ہے کہ نبی ﷺ کے عہد سے لوگ تراویح کی بیس ہی رکعتوں کے عادی تھے۔یہی وجہ ہے کہ امام ابوحنیفہؒ، امام شافعی ؒ اور امام احمد ؒ تینوں بیس ہی رکعت کے قائل ہیں ،اور ایک قول امام مالکؒ کا بھی اسی کے حق میں ہے۔دائودظاہریؒ نے بھی اسی کو سنت ثابتہ تسلیم کیا ہے۔
حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ اور حضرت ابان بن عثمانؒ نے۲۰ کے بجاے۳۶ رکعتیں پڑھنے کا جو طریقہ شروع کیا،اُس کی وجہ یہ نہ تھی کہ ان کی تحقیق خلفاے راشدین کی تحقیق کے خلاف تھی،بلکہ ان کے پیش نظر یہ تھا کہ مکہ سے باہر کے لوگ ثواب میں اہل مکہ کے برابر ہوجائیں ۔اہل مکہ کا قاعدہ یہ تھا کہ وہ تراویح کی ہر چار رکعتوں کے بعد کعبے کا طواف کرتے تھے۔({ FR 2057 })ان دونوں بزرگوں نے ہر طواف کے بدلے۴رکعتیں پڑھنی شروع کردیں ۔ یہ طریقہ چوں کہ اہل مدینہ میں رائج تھا اور امام مالکؒ اہل مدینہ کے عمل کو سند سمجھتے تھے،اس لیے انھوں نے بعد میں ۲۰ کے بجاے۳۶ کے حق میں فتویٰ دیا۔
(ترجمان القرآن، اپریل،مئی۱۹۵۲ء)