مالیاتِ قرض کے بعد اب ایک نظریہ بھی دیکھ لیجیے کہ ہمارے پیشِ نظر نظام میں کاروباری مالیات کیا شکل اختیار کریں گے۔ اس سلسلے میں جیسا کہ ہم پہلے اشارہ کر چکے ہیں، سود کا انسداد لوگوں کے لیے یہ دروازہ تو قطعی بند کر دے گا کہ وہ محنت اور خطرہ (risk) دونوں چیزوں سے بچ کر اپنے سرمائے کو تحفظ اور متعین منافع کی ضمانت کے ساتھ کسی کام میں لگا سکیں۔ اور اسی طرح زکوٰۃ ان کے لیے اس دروازے کو بھی بند کر دے گی کہ وہ اپنا سرمایہ روک رکھیں اور اس پر مارِ زربن کر بیٹھ جائیں۔ مزید برآں ایک حقیقی اسلامی حکومت کی موجودگی میں لوگوں کے لیے عیاشیوں اور فضول خرچیوں کا دروازہ بھی کھلا نہ رہے گا کہ ان کی فاضل آمدنیاں ادھر بہہ نکلیں۔ اس کے بعد لامحالہ ان تمام لوگوں کو جو ضرورت سے زائد آمدنی رکھتے ہوں، تین راستوں میں سے کوئی ایک راستہ ہی اختیار کرنا پڑے گا۔
(۱) اگر وہ مزید آمدنی کے طالب نہ ہوں تو اپنی بچت کو رفاہِ عام کے کاموں میں صرف کریں ، خواہ اس کی صورت یہ ہو کہ وہ خود کسی کارِ خیر پر اسے وقف کریں، یا یہ ہو کر قومی اداروں کو چندے اور عطیے دیں، یا پھر یہ ہو کہ بے غرضانہ و مخلصانہ طریقے سے اسلامی حکومت کے حوالہ کر دیں تا کہ وہ اسے امور نافعہ اور ترقیاتِ عامہ اور اصلاحِ خلق کے کاموں پر صرف کرے۔ خصوصیت کے ساتھ آخری صورت کو لازماً ترجیح دی جائے گی اگر حکومت کا نظم و نسق ایسے کارکنوں کے ہاتھوں میں ہو جن کی دیانت اور فراست پر عموماً لوگوں کو بھروسہ ہو۔ اس طرح اجتماعی مصالح اور ترقی و بہبود کے کاموں کے لیے حکومت کو اور دوسرے اجتماعی اداروں کو سرمائے کی ایک کثیر مقدار ہمیشہ مفت ملتی رہے گی جس کا سود یا منافع تو درکنار، اصل ادا کرنے کے لیے بھی عوام الناس پر ٹیکسوں کا کوئی بار نہ پڑے گا۔
(۲) اگر وہ مزید آمدنی کے طالب تو نہ ہوں ، لیکن اپنی زائد از ضرورت دولت کو اپنے لیے محفوظ رکھنا چاہتے ہوں، تو اسے بینک میں جمع کرا دیں، اور بینک اس کو امانت میں رکھنے کے بجائے اپنے ذمہ قرض قرار دے۔ اس صورت میں بینک اس بات کا ضامن ہوگا کہ ان کی جمع کردہ رقم وہ رقم عند الطلب، یا طے شدہ وقت پر انہیں واپس کر دے۔ اور اس کے ساتھ بینک کو یہ حق ہوگا کہ قرض کی اس رقم کو کاروبار میں لگائے اور اس کا منافع حاصل کرے۔ اس منافع میں سے کوئی حصہ اسے کھاتہ داروں کو دینا نہ ہوگا، بلکہ وہ کلیتہً بینک کا اپنا منافع ہوگا۔ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی تجارت بہت بڑی حد تک اسی اسلامی اصول کی رہین منت تھی۔ ان کی دیانت اور غیر معمولی ساکھ کی وجہ سے لوگ اپنا روپیہ ان کے پاس حفاظت کے لیے رکھواتے تھے، امام صاحب اس روپے کو امانت میں رکھنے کے بجائے قرض کے طور پر لیتے اور اسے اپنے تجارتی کاروبار میں استعمال کرتے تھے۔ ان کے سوانح نگاروں کا بیان ہے کہ ان کی وفات کے وقت جب حساب کیا گیا تو ان کی فرم میں ۵ کروڑ درہم کا سرمایہ اس قاعدے کے مطابق لوگوں کی رکھوائی رقوم کا لگا ہوا تھا۔ اسلامی اصول یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کے پاس امانت رکھوائے تو امین اسے استعمال نہیں کرسکتا، مگر امانت ضائع ہو جائے تو اس پر کوئی ضمان عائد نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس اگر وہی مال قرض کے طور پر دیا جائے تو مدیون اسے استعمال کرنے اور اس سے فائدہ اٹھانے کا حق دار ہے ، اور وقت پر قرض ادا کرنے کی ذمہ داری اس پر عائد ہوتی ہے ۔ اسی قاعدے پر اب بھی بینک عمل کرسکتے ہیں۔
(۳) اور اگر وہ اپنی پس انداز کردہ رقموں کو کسی نفع آور کام میں لگانے کے خواہشمند ہوں تو ان کے لیے اس چیز کے حصول کاصرف ایک راستہ کھلا ہوگا۔ یہ کہ اپنی بچائی ہوئی رقموں کو نفع اور نقصان میں متناسب شرکت کے اصول پر نفع بخش کاموںمیں لگائیں، خواہ حکومت کے توسط سے ، یا بینکوں کے توسط سے ۔ خود لگانا چاہیں گے تو ان کو کسی کاروبار میں شرکت کی شرائط آپ طے کرنی ہوں گی جن میں از روئے قانون اس امر کا تعین ضروری ہوگا کہ فریقین کے درمیان نفع و نقصان کی تقسیم کس تناسب سے ہوگی۔ علیٰ ہذا القیاس مشترک سرمائے کی کمپنیوں میں بھی شرکت کی صورت صرف یہی ایک ہوگی کہ سیدھے سادھے حصے خرید لیے جائیں۔ بانڈ اور ڈبنچر اور اس طرح کی دوسری چیزیں، جن کے خریدار کو کمپنی سے ایک لگی بندھی آمدنی ملتی ہے، سرے سے موجود ہی نہ ہوں گی۔
حکومت کے توسط سے لگانا چاہیں گے تو انہیں امورِ نافعہ سے متعلق حکومت کی کسی اسکیم میں حصہ دار بننا ہوگا۔ مثال کے طور پر فرض کیجئے کہ حکومت برق آبی کی کوئی تجویز عمل میں لانا چاہتی ہے۔ وہ اس کااعلان کر کے پبلک کو اس میں شرکت کی دعوت دے گی۔ جو اشخاص ، یا ادارے، یا بینک اس میں سرمایہ دیں گے وہ حکومت کے ساتھ اس میں حصہ دار بن جائیں گے اور اس کے کاروباری منافع میں سے ایک طے شدہ تناسب کے مطابق حصہ پاتے رہیں گے۔ نقصان ہوگا تو اس کا بھی متناسب حصہ ان سب پر اور حکومت پر تقسیم ہو جائے گا۔ اور حکومت اس امر کی بھی حقدار ہوگی کہ ایک ترتیب کے ساتھ بتدریج لوگوں کے حصے خود خریدتی چلی جائے یہاں تک کہ چالیس پچاس سال میں برق آبی کا وہ پورا کام خالص سرکاری ملک بن جائے۔
مگر موجودہ نظام کی طرح اس نظام میں بھی سب سے زیادہ قابلِ عمل اور مفید تیسری صورت ہی ہوگی، یعنی یہ کہ لوگ بینکوں کے توسط سے اپنا سرمایہ نفع بخش کاموں میں لگائیں۔ اس لیے ہم اس کو ذرا زیادہ وضاحت کے ساتھ بیان کرنا چاہتے ہیں تا کہ لوگوں کے سامنے اس امر کی صاف تصویر آجائے کہ سود کو ساقط کرنے کے بعد بینکنگ کا کاروبار کس طرح چل سکتا ہے اور نفع کے طالب لوگ اس سے کس طرح متمتع ہوسکتے ہیں۔