سوال
قرآنِ مجید کی اس آیت کی تشریح کیا ہوگی؟ وَنَفْسٍ وَّمَا سَوّٰىہَاo فَاَلْہَمَہَا فُجُوْرَہَا وَتَقْوٰىہَاo قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىہَا({ FR 2275 }) ( الشمس :۷-۸ ) یہ محض ایک حیاتیاتی (بیولاجیکل) محرک ہے یا اس سے زائد کوئی شے ہے۔ آیات کے الفاظ سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مَنْ کوئی دوسرا وجود ہے جو نفس کو اپنے تحت رکھتا ہے اور اُس پر اثرانداز ہوتا ہے۔ تقویٰ اور فجور کے الہام کیے جانے سے کیا مراد ہے؟
جواب
قرآن مجید کی آیت وَنَفْسٍ وَّمَا سَوّٰىہَا میں نفس سے مراد ذہن ذی شعور ہے جسے سوچنے، سمجھنے ، راے قائم کرنے اور انتخاب و فیصلہ کرنے کے لیے ضروری صلاحیتیں عطا کی گئی ہیں اور علم و فہم اور تعقُّل کے وہ ذرائع بھی بہم پہنچائے گئے ہیں جو ان صلاحیتوں کو استعمال کرنے کے لیے درکار ہیں ۔ تسویہ سے مراد کسی چیز کو ٹھیک ٹھیک تیار کردینے کے ہیں ، جیسے موٹر کو اس طرح تیار کر دینا کہ وہ پوری طرح سڑک پر چلنے کے قابل ہوجائے۔ فَاَلْہَمَہَا فُجُوْرَہَا وَتَقْوٰىہَا سے مراد یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے اُس کے اندر ایک ایسا الہامی (Intutive Inherent)علم رکھ دیا ہے جس سے وہ برائی اور بھلائی میں تمیز کرتا ہے اور پہچانتا ہے کہ برائی کی راہ کون سی ہے اور بھلائی کی کون سی۔ (ترجمان القرآن، نومبر ۱۹۷۱ء)