یہی وجہ ہے کہ دین میں جماعت کو لازم قرار دیا گیا ہے اور اقامتِ دین اور دعوتِ دین کی جدوجہد کے لیے ترتیب یہ رکھی گئی ہے کہ پہلے ایک نظمِ جماعت ہو، پھر خدا کی راہ میں سعی و جہد کی جائے اور یہی وجہ ہے کہ جماعت کے بغیر زندگی کو جاہلیت کی زِندگی اور جماعت سے علیحدہ ہو کر رہنے کو اسلام سے علیحدگی کا ہم معنی قرار دیا گیا ہے اشارہ ہے اس حدیث کی طرف جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
اَنَا اٰمُرُکُمْ بِخَمْسِ اللّٰہُ اَمَرَنِیْ بِھِنَّ اَلْجَمَاعَۃُ ، وَالسَّمْعُ وَالطَّاعَۃُ ، وَالْھِجْرَۃُ، وَالْجِھَادُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ، فَاِنَّہٗ مَنْ خَرَجَ مِنَ الْجَمَاعَۃِ قِیْدَ شِبْرٍ فَقَدْ خَلَعَ رِبْقَۃَ الْاِسْلاَمِ مِنْ عُنُقِہٖ اِلاَّ اَنْ یُّرَاجِعَ ۔ وَ مَنْ دَعَابِدَعْوَی جَاھِلِیَّۃٍ فَھُوَ مِنْ جُثَی جَھَنَّمَ۔ قَالُوْا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ وَ اِنْ صَامَ وَصَلیّٰ؟ قَالَ وَ اِنْ صَلیّٰ وَ صَامَ وَ زَعَمَ اَنَّہ، مُسلِمٌ(احمد و حاکم)
میں تمھیں پانچ چیزوں کا حکم دیتا ہوں جن کا حکم اللہ نے مجھے دیا ہے: ۱۔ جماعت، ۲۔ سمع، ۳۔اطاعت، ۴۔ہجرت، ۵۔ اور خدا کی راہ میں جہاد۔ جو شخص جماعت سے بالشت بھر بھی الگ ہوا، اُس نے اسلام کا حلقہ اپنی گردن سے اُتار پھینکا ، اِلّایہ کہ وہ پھر جماعت کی طرف پلٹ آئے، اور جس نے جاہلیت(یعنی افتراق و انتشار) کی دعوت دی وہی جہنمی ہے۔ صحابہؓ نے عرض کیا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم!اگرچہ وہ روزہ رکھے اور نماز پڑھے؟ فرمایا! ہاں اگرچہ وہ نماز پڑھے اور روزہ رکھے اور مسلمان ہونے کا دعوٰی کرے۔اس حدیث سے تین باتیں ثابت ہوتی ہیں: کارِ دین کی صحیح ترتیب یہ ہے کہ پہلے جماعت ہو، اور اس کی ایسی تنظیم ہو کہ سب لوگ کسی ایک کی بات سنیں اور اس کی اطاعت کریں، پھر جیسا بھی موقعہ ہو، اس کے لحاظ سے ہجرت اور جہاد کیا جائے۔
۲۔ جماعت سے علیحدہ ہو کر رہنا، گویا اسلام سے علیحدہ ہونا ہے اور اس کے معنی یہ ہیں کہ انسان اس زندگی کی طرف واپس جا رہا ہے جو اسلام سے قبل زمانۂ جاہلیت میں عربوں کی تھی کہ ان میں کوئی کسی کی سننے والا نہ تھا۔
۳۔ اسلام کے بیش تر تقاضے اور اس کے اصل مقاصد، جماعت اور اجتماعی سعی ہی سے پورے ہو سکتے ہیں۔ اسی لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جماعت سے الگ ہونے والے کو، اس کی نماز اور روزے اور مسلمانی کے دعوے کے باوجود، اسلام سے نکلنے والا قرار دیا۔ اسی مضمون کی شرح ہے جو حضرت عمر ؓنے اپنے اس ارشاد میں فرمایا ہے کہ ’’لَا اِسْلَامَ اِلَّابِجَمَاعَۃٍ‘‘ (جامع لا بن عبدالبرّ)