ہم بڑے ادب کے ساتھ عرض کریں گے کہ درحقیقت ان تمام عبارتوں میں خلط مبحث زیادہ اور اصل مسئلہ زیر بحث سے تعرض بہت کم ہے۔ اصل مسئلہ جس کی تحقیق اس مقام پر مطلوب تھی وہ یہ نہیں تھا کہ محمد رسول اللّٰہ ﷺ معاذ اللّٰہ خدا ہیں یا نہیں، اور وہ انسان ہیں یا کچھ اور، اور دین کے احکام میں سند ومرجع خدا کا حکم ہے یا کسی اور کا، بلکہ تحقیق جس چیز کی کرنی چاہیے تھی وہ یہ تھی کہ رسول پاکﷺ کو اللّٰہ تعالیٰ نے کس کام کے لیے مقرر کیا ہے‘دین میں ان کی حیثیت اور اختیارات کیا ہیں، اور خدا کے احکام آیا صرف وہی ہیں جو قرآن کی آیات میں بیان ہوئے ہیں یا وہ بھی ہیں جو رسول پاکﷺ نے قرآن کے علاوہ ہم کو دیے۔ ان سوالات کی تحقیق ان آیات سے نہیں ہو سکتی تھی جنھیں فاضل جج نے نقل کیا ہے، کیوں کہ ان میں سرے سے ان سوالات کا جواب دیا ہی نہیں گیا ہے۔ ان کا جواب تو حسب ذیل آیات سے ملتا ہے جن کی طرف فاضل جج نے سرے سے توجہ ہی نہیں کی:
۱۔ لَقَدْ مَنَّ اللہُ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ اِذْ بَعَثَ فِيْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِھِمْ يَتْلُوْا عَلَيْھِمْ اٰيٰتِہٖ وَيُزَكِّيْھِمْ وَيُعَلِّمُھُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَۃَ۰ۚ آل عمران3:164
اللّٰہ نے احسان کیا مومنوں پر جب کہ بھیجا ان کے درمیان خود انھی میں سے ایک رسولﷺ جو تلاوت کرتا ہے ان پر اس کی آیات، اور تزکیہ کرتا ہے ان کا، اور تعلیم دیتا ہے ان کو کتاب کی اور دانائی کی۔
۲۔ وَاَنْزَلْنَآ اِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَيْہِمْ النحل 44:16
اور ہم نے یہ ذکر (یعنی قرآن) نازل کیا ہے تیری طرف تاکہ تو تشریح کر دے لوگوں کے لیے اس (کتاب) کی جو ان کی طرف نازل کی گئی ہے۔
۳۔ يَاْمُرُہُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْہٰىہُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُحِلُّ لَہُمُ الطَّيِّبٰتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْہِمُ الْخَـبٰۗىِٕثَ الاعراف 157:7
وہ (نبیﷺ) حکم دیتا ہے ان کو نیکی کا اور منع کرتا ہے ان کو برائی سے اور حلال کرتا ہے ان کے لیے پاک چیزیں اور حرام کرتا ہے ان کے لیے ناپاک چیزیں۔
۴۔ وَمَآ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ۰ۤ وَمَا نَہٰىكُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوْا۰ۚ الحشر 7:59
جو کچھ رسول تمھیں دے اسے لے لو اور جس چیز سے روک دے اس سے رک جائو۔
۵۔ وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِيُطَاعَ بِـاِذْنِ اللہِ۰ۭ النسائ 64:4
اور ہم نے کوئی رسول بھی نہیں بھیجا مگر اس لیے کہ اس کی اطاعت کی جائے اللّٰہ کے اذن سے۔
۶۔ مَنْ يُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللہَ۰ۚ النسائ 80:4
جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے اللّٰہ کی اطاعت کی۔
۷۔ وَاِنْ تُطِيْعُوْہُ تَہْتَدُوْا۰ۭ النور 54:24
اور اگر تم رسولﷺ کی اطاعت کرو گے تو ہدایت پائو گے۔
۸۔ لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ الاحزاب 21:33
تمھارے لیے رسولﷺ کی ذات میں ایک بہترین نمونہ ہے۔
۹۔ فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُوْنَ حَتّٰي يُحَكِّمُوْكَ فِيْمَا شَجَــرَ بَيْنَھُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوْا فِيْٓ اَنْفُسِہِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوْا تَسْلِــيْمًاo النسائ 65:4
پس نہیں، تیرے رب کی قسم، وہ ہرگز مومن نہیں ہوں گے جب تک تجھے اس معاملے میں فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں جس میں ان کے درمیان اختلاف ہے، پھر جو فیصلہ تو کرے اس پر اپنے دل میں کوئی تنگی تک محسوس نہ کریں اور اسے سربسر تسلیم کر لیں۔
۱۰۔ يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللہَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ۰ۚ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْہُ اِلَى اللہِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ۭ النسائ 59:4
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اطاعت کرو اللّٰہ کی اور اطاعت کرو رسولﷺ کی اور ان لوگوں کی جو تم میں سے اولی الامر ہوں۔ پھر اگر تمھارے درمیان کسی معاملے میں نزاع ہو جائے تو پھیر دو اس کو اللّٰہ اور رسولﷺ کی طرف، اگر تم ایمان رکھتے ہو اللّٰہ اور روز آخرت پر۔
۱۱۔ قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللہَ فَاتَّبِعُوْنِيْ يُحْبِبْكُمُ اللہُ آل عمران 31:3
(اے نبیﷺ!) ان سے کہہ دو کہ اگر تم اللّٰہ سے مَحبّت رکھتے ہو تو میری پیروی کرو، اللّٰہ تم سے مَحبّت رکھے گا۔
ان گیارہ آیات کو اگر ملا کر پڑھا جائے تو دین اِسلام میں رسول پاکﷺ کی حقیقی حیثیت بالکل قطعی اور واضح طور پر ہمارے سامنے آ جاتی ہے۔ بلاشبہ وہ خدا تو نہیں ہیں، انسان ہی ہیں، مگر وہ ایسے انسان ہیں جن کو خدا نے اپنا نمایندۂ مجاز بنا کر بھیجا ہے۔ خدا کے احکام براہ راست ہمارے پاس نہیں آئے، بلکہ ان کے واسطے سے آئے ہیں۔ وہ محض اس لیے مقرر نہیں کیے گئے کہ خدا کی کتاب کی آیات جو ان پر نازل ہوں، بس وہ پڑھ کر ہمیں سنا دیں، بلکہ ان کے تقرر کا مقصد یہ ہے کہ وہ کتاب کی تشریح کریں۔ ایک مربی کی حیثیت سے ہمارے افراد اور معاشرے کا تزکیہ({ FR 7020 }) کریں، اور ہمیں کتاب اللّٰہ کی اور دانائی کی تعلیم دیں۔ آیت نمبر ۳ تصریح کرتی ہے کہ ان کو تشریعی اختیارات (legislature powers) بھی اللّٰہ تعالیٰ نے تفویض کیے ہیں اور اس میں کوئی قید ان کے اختیارات کو صرف قرآنی احکام کی تشریح تک محدود کرنے والی نہیں ہے۔ آیت نمبر ۴ علی الاطلاق یہ حکم دیتی ہے کہ جو کچھ وہ دیں اسے لے لو اور جس چیز سے بھی روک دیں اس سے رک جائو۔ اس میں بھی کوئی قید ایسی نہیں ہے جس سے یہ نتیجہ نکلتا ہو کہ جو کچھ وہ آیات قرآنی کی شکل میں دیں صرف اسی کو لو۔ آیت نمبر ۸ ان کی سیرت وکردار اور ان کے عمل کو ہمارے لیے نمونہ قرار دیتی ہے۔ اس مقام پر بھی یہ شرط نہیں لگائی گئی ہے کہ اپنے جس قول اور عمل کی سند وہ قرآن سے دے دیں صرف اسی کو اپنے لیے نمونہ سمجھو، بلکہ اس کے برعکس مطلقاً ان کو معیار حق کی حیثیت سے ہمارے سامنے پیش کر دیا گیا ہے۔ آیات نمبر ۵‘۶ اور ۷ ہمیں ان کی اطاعت کا حکم دیتی ہیں اور یہاں بھی قطعًا کوئی اشارہ اس امر کی طرف نہیں ہے کہ یہ اطاعت صرف ان احکام کی حد تک ہے جو آیات قرآنی کی شکل میں وہ ہمیں دیں۔ آیت نمبر ۹ ان کو ایک ایسا جج بناتی ہے جس کی طرف فیصلے کے لیے رجوع کرنا اور جس کا فیصلہ بظاہر ہی نہیں بلکہ دل سے ماننا شرط ایمان ہے۔ یہ وہ حیثیت ہے جو دُنیا کی کسی عدالت اور کسی جج کو بھی حاصل نہیں ہے۔ آیت نمبر ۱۰ ان کی حیثیت کو مسلمانوں کے تمام دوسرے اُولی الامر کی حیثیت سے الگ کر دیتی ہے۔ اولی الامر (جن میں صدر ریاست، اس کے وزرا، اس کے اہلِ شورٰی، اس کی حکومت کے جملہ منتظمین، اور عدلیہ کے حکام، سب شامل ہیں) اطاعت کے لحاظ سے تیسرے نمبر پر آتے ہیں، اور اللّٰہ کی اطاعت پہلے نمبر ہے۔ ان دونوں کے درمیان رسولﷺ کا مقام ہے اوراس مقام پر رسولﷺ کی حیثیت یہ ہے کہ اولی الامر سے تو مسلمانوں کی نزاع ہو سکتی ہے مگر رسولﷺ سے نہیں ہو سکتی، بلکہ ہر نزاع جو پیدا ہو، اس میں فیصلے کے لیے رجوع اللّٰہ اور اس کے رسولﷺ کی طرف کیا جائے گا۔ اس پوزیشن کو تسلیم کرنا بھی شرط ایمان قرار دیا گیا ہے۔ جیسا کہ آیت کے آخری الفاظ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ سے صاف ظاہر ہوتا ہے۔ پھر آخری آیت اللّٰہ کی مَحبّت کا ایک ہی تقاضا، اور اس کی مَحبّت حاصل ہونے کا ایک ہی راستہ بتاتی ہے، اور وہ یہ ہے کہ آدمی اللّٰہ کے رسولﷺ کا اتباع کرے۔
یہ ہے دین اِسلام میں رسولﷺ کی اصل حیثیت جسے قرآن اتنی وضاحت کے ساتھ پیش کرتا ہے۔ کیا اس کو ملاحظہ فرمانے کے بعد فاضل جج اپنی اس رائے پر نظر ثانی فرمائیں گے جو انھوں نے پیرا گراف نمبر ۲۱ میں بیان کی ہے؟ کیا دونوں تصویروں کو بالمقابل رکھ کر یہ صاف نظر نہیں آتا کہ انھوں نے رسول پاکﷺ کی حیثیت کا تخمینہ حضورﷺکی اصل حیثیت سے بہت کم، بلکہ بنیادی طورپر مختلف لگایا ہے؟