اس وقت ہمارے سامنے ایک بہت بڑے کام کا پروگرام ہے ہمیں پاکستان میں اسلام کی حکومت قائم کرنا ہے، اور یہ کام بہت بڑی جدوجہد کا مطالبہ کرتا ہے۔ ۱۴ اگست ۱۹۴۷ء سے پہلے تک اس ملک کے رہنے والے خود مختار نہ تھے، لیکن ۱۴ اگست کے بعد ہمارے ملک کی صورتِحال بالکل بدل گئی ہے، اب اس ملک کے لوگ اپنے مستقل کا خود فیصلہ کرنے میں پوری طرح مختار ہیں۔ یہاں کے باشندوں کو اب یہ طے کرنا ہے کہ وہ اپنے لیے کس طریقِ زندگی کو، کس اصولِ اخلاق کو اور کس نظامِ حکومت کو پسند کرتے ہیں؟ اس سلسلہ میں آپ عنقریب دیکھیں گی کہ اس ملک میں ایک شدید کشمکش برپا ہونے والی ہے۔ ایک طرف وہ نام نہاد مدعیانِ اسلام ہیں جن کو صرف اسلام کا نام باپ دادا سے ورثہ میں ملا ہے، لیکن اس کو طریق زندگی کی حیثیت سے انہوں نے نہ قبول کیا ہے اور نہ قبول کرنے پر تیار ہیں۔ اسلام کے نام پر جو حقوق حاصل ہو سکتے ہیں انہیں تو وہ حاصل کرنا چاہتے ہیں لیکن جن پابندیوں کا اسلام مطالبہ کرتا ہے ان سے وہ خود بھی آزاد رہنا چاہتے ہیں اور ملک کو بھی آزاد رکھنا چاہتے ہیں۔ یہ لوگ مسلمانوں کے اوپر کافرانہ حکومت قائم رکھنے اور کافرانہ قوانین جاری رکھنے کے ارادے رکھتے ہیں۔ دوسری طرف ان کے مقابلہ میں وہ سب لوگ ہیں جو اسلام کو اپنے طریقِ زندگی کی حیثیت سے پسند کرتے ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ اس ملک میں اسلام کی حکومت قائم ہو اور اسلام کا قانون جاری ہو۔ ان دونوں طاقتوں کے درمیان عنقریب ایک کشمکش رونما ہونے والی ہے۔ اس موقع پر جس طرح مردوں کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ وہ اسلام نما کفر کا ساتھ دیں گے یا حقیقی اسلام کی حمایت کریں گے، اسی طر ح مسلمان خواتین کو بھی یہ طے کرنا ہو گا کہ وہ اپنا وان کس پلڑے میں ڈالیں گی۔ نہیں کہا جا سکتا کہ اس کشمکش میں کیا کیا صورتیں پیش آئیں۔ بہرحال بہنوں اور مائوں سے میں درخواست کروں گا کہ اپنے مستقبل کے طرز عمل کا سوچ سمجھ کر فیصلہ کریں۔ اگر وہ اسلام کو دل سے چاہتی ہیں تو انہیں اس کشمکش میں اپنا پورا وزن حقیقی اسلام کے پلڑے میں ڈالنا ہو گا۔