اس ہمہ گیر اختلاف کو اس کے آخری منطقی نتائج تک بھی قادیانیوں نے خود ہی پہنچادیا اور مسلمانوں سے تمام تعلقات منقطع کرکے ایک الگ اُمت کی حیثیت سے اپنی اجتماعی تنظیم کرلی ۔ اس کی شہادت قادیانیوں کی اپنی تحریرات سے ہمیں یہ ملتی ہے:
’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سختی سے تاکید فرمائی ہے کہ کسی احمدی کو غیر احمدی کے پیچھے نماز نہیں پڑھنی چاہیے۔ باہر سے لوگ اس کے متعلق بار بار پوچھتے ہیں۔ میں کہتاہوں تم جتنی دفعہ بھی پوچھوگے اتنی دفعہ ہی میں یہی جواب دوں گا کہ غیر احمدی کے پیچھے نماز پڑھنی جائز نہیں ، جائز نہیں، جائز نہیں۔‘‘
(انوارخلافت، مصنفہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفہ قادیان ،ص ۸۹)
’’ہمارا یہ فرض ہے کہ غیر احمدیوں کو مسلمان نہ سمجھیں اور ان کے پیچھے نماز نہ پڑھیں کیونکہ ہمارے نزدیک وہ خدا تعالیٰ کے ایک نبی کے منکر ہیں۔ ‘‘ (انوارخلافت ص ۹۰)
’’اگر کسی غیر احمدی کا چھوٹا بچہ مر جائے تو اس کاجنازہ کیوں نہ پڑھا جائے ، وہ تو مسیح موعود کا منکر نہیں ؟میں یہ سوال کرنے والے سے پوچھتاہوں کہ اگر یہ بات درست ہے تو پھر ہندوئوں اور عیسائیوں کے بچوں کا جنازہ کیوں نہیں پڑھا جاتا ؟ …غیر احمدی کا بچہ بھی غیراحمدی ہی ہوا، اس لیے اس کا جنازہ بھی نہیں پڑھنا چاہیے۔ ‘‘ (انوارخلافت ،ص ۹۳)
’’حضرت مسیح موعود نے اس احمدی پر سخت ناراضگی کااظہار کیا ہے جو اپنی لڑکی غیراحمدی کو دے ۔ آپ سے ایک شخص نے بار بار پوچھااور کئی قسم کی مجبوریوں کو پیش کیا لیکن آ پ نے اس کو یہی فرمایا کہ لڑکی کو بٹھائے رکھو لیکن غیر احمدیوں میں نہ دو۔ آپ کی وفات کے بعد اس نے غیر احمدیوں کو لڑکی دے دی تو حضرت خلیفہ اول نے اس کو احمدیوں کی امامت سے ہٹادیا اور جماعت سے خارج کردیا اور اپنی خلافت کے چھ سالوں میں اس کی توبہ قبول نہ کی باوجود یکہ وہ بار بار توبہ کرتارہا۔ (انوارخلافت ،ص ۹۳۔۹۴)
’’حضرت مسیح موعود نے غیر احمدیوں کے ساتھ صرف وہی سلوک جائز رکھا ہے جو نبی کریم ﷺنے عیسائیوں کے ساتھ کیا۔ غیر احمدیوں سے ہماری نمازیں الگ کی گئیں، ان کو لڑکیا ں دینا حرام قرار دیا گیا، ان کے جنازے پڑھنے سے روکا گیا ۔ اب باقی کیا رہ گیاہے جو ہم ان کے ساتھ مل کر کرسکتے ہیں ؟ دو قسم کے تعلقات ہوتے ہیں ۔ ایک دینی دوسرے دنیوی ۔ دینی تعلق کا سب سے بڑا ذریعہ عبادت کااکٹھا ہوناہے اور دنیوی تعلق کا بھاری ذریعہ رشتہ وناطہ ہے ۔ سو یہ دونوں ہمارے لیے حرام قرار دئیے گئے ۔ اگر کہو کہ ہم کو ان کی لڑکیاں لینے کی اجازت ہے تو میں کہتاہوں نصاریٰ کی لڑکیاں لینے کی بھی اجازت ہے اور اگر یہ کہو کہ غیر احمدیوں کو سلام کیوں کہا جاتاہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ حدیث سے ثابت ہے کہ بعض اوقات نبی کریم ﷺ نے یہود تک کو سلام کا جواب دیا ہے۔ ‘‘
(کلمۃ الفصل مندرجہ ریویو آف ریلیجنز ،ص ۱۶۹)