’’ہمیں خبر ملی کہ ۹۰ ہزار آدمیوں کا ایک جلوس اب قبرستان کی طرف ان لوگوں کی لاشیں لے کر جارہاہے جن کو وہ شہید کہہ رہے تھے اور حکومت اس جلوس کو محض ایک پر امن جلوس سمجھ رہی تھی ۔ میں نے ان لوگوں (یعنی ارباب حکومت ) سے التجا کی کہ اس مجمع کو اکٹھا ہونے یا جنازے لے کر جانے نہ دیا جائے ۔ وزیراعلیٰ نے مجھ سے پوچھا ، جنرل صاحب آپ کتنی فوج رکھتے ہیں ؟ میں نے کہا، جتنی درکار ہو ، اگر آپ مجھے ان کو منتشر کرنے کا حکم دیں۔ انھوںنے کہایہ ایک سیاسی مسئلہ ہے ، آپ ان میں سے کتنوں کو مار سکتے ہیں ؟ میں نے کہایہ ایک امن وانتظام کامسئلہ ہے اور جونہی سخت کارروائی کی گئی یہ منتشر ہوجائیں گے۔‘‘
اس بیان میں ہم کو ایسا محسوس ہوتاہے کہ جیسے ابھی تک ہم انگریزی دور حکومت میں ہیں اور اس دور کا کوئی جنرل ڈائریا کرنل جانسن ہمارے سامنے بول رہاہے ۔ میجر جنرل صاحب کو یہ تک ناگوار ہے کہ جن مسلمانوں کو حکومت کی پولیس یا فوج مار دے انھیں عام مسلمان ’’شہید ‘‘ کہیں یا سمجھیں۔ مسلمانوں کو ماردینے سے بھی ان کا دل ٹھنڈا نھیں ہوتا بلکہ وہ انہیں جہنم بھی بھجوانا چاہتے ہیں۔ انہیں یہ بھی گوارا نہیں کہ مسلمان ایسے لوگوں کا جنازہ قبرستان لے جائیں اور نماز پڑھ کر انہیں دفن کریں ۔ چاہے جنازے کا یہ جلوس کوئی بدامنی کا فعل کرے یا نہ کرے ،مگر مجرد یہ بات کہ حکومت کے مارے ہوئے چند مسلمانوں کو یہ لوگ شہید سمجھ کر دفن کرنے لے جارہے تھے۔ میجر جنرل صاحب کے نزدیک اس کو غیر ’’پرامن ‘‘ جلوس قرار دینے کے لیے کافی تھی اور ان کی خواہش یہ تھی کہ بس انہیں حکم مل جائے تو وہ ایک فوج لے کر اسے منتشر کردیں خواہ اس کارروائی میں انھیں کتنے ہی مزید مسلمانوں کو مار دینے کی ضرورت پیش آئے ۔ یہ تھااس شخص کے ذہن کا حال جس کے سپرد اس وقت دیوانی حکومت کو قیام امن کے لیے فوجی مدد دینے کی خدمت تھی۔ اپنی تمام شہادت کے دوران میں وہ اس بات پر سخت ناراض نظر آتے ہیں کہ جمہوری حکومت کے سیاسی حکمران پبلک کوراضی اور ٹھنڈا کرکے امن قائم کرنا مرجح سمجھتے تھے۔ ان کا سارا رجحان اس طرف تھاکہ یہ ہے ’’لا اینڈ آرڈر ‘‘ کا مسئلہ اور اس کا حل صرف یہ ہے کہ اس پبلک کو بس کچل ڈالا جائے۔
مسلم لیگ کی حکومت، پبلک تائید سے محروم ہونے کے بعد ،اپنے اقتدار کے لیے اس طرح کے افسروں کی حمایت پر منحصر ہوچکی تھی اور یہ لوگ ان رجحانات اور اس ذہنیت کے مالک تھے۔ ان کے رجحانات کے علی الرغم پبلک کے مطالبات کو ماننا اس حکومت کے بس میں نہ تھا ،مگر ان کو رد کردینے کے نتائج سے بھی وہ ڈرتی تھی ، اس لیے وہ ایک مدت تک ان مطالبات کو ٹالتی رہی ۔ آخر کار ایک طرف عجلت پسند عناصر ایک موقع ڈائریکٹ ایکشن شروع کربیٹھے اور دوسری طر ف یہ شدید نوکر شاہی ذہن اور مذہب دشمن رجحان رکھنے والے افسر حکومت کاگلا پکڑکر اسے عوام کے مقابلے میں کھینچ لائے ۔ اس کشمکش کانتیجہ اس تباہی کی صورت میں ظاہر ہوا جو پنجاب پر عموماً اور لاہور پر خصوصاً نازل ہوئی۔ اب یہ کہناکسی طرح مبنی بر انصاف نہیں ہوسکتاکہ صرف وہی لوگ غیر حق بجانب تھے جنھوںنے ڈائریکٹ ایکشن کیا۔ نہیں ، بلکہ اتنے ہی اور شاید ان سے زیادہ غیر حق بجانب وہ سیاسی لیڈر ہیں جنھوںنے ایک جمہوری نظام کو غیر جمہوری طریقوں پر چلا کر اپنی گردن نوکر شاہی کے قبضے میں دے دی ہے۔ اور ان سب سے بڑھ کر غیر حق بجانب وہ عالی مقام افسر ہیں جو ملازم ہونے کے باوجود سیاسی لیڈر اور پالیسی مقررکرنے والے بھی بنتے ہیں اور ایک شدید مذہبی رجحان رکھنے والی قوم میں ریاست کی طاقت کو مخالف مذہب راستے پر زبردستی لے جانے پر مصر ہیں۔ اور اپنے ملک کی پبلک کو اسی حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں جس سے کوئی غیر ملکی نوکر شاہی اسے دیکھ سکتی ہے۔ اس طرح کی نوکرشاہی ایک جمہوری نظام اور ایک قومی حکومت کے لیے انتہائی غیر موزوں ہے۔ خدانخواستہ اگر یہی نوکر شاہی ہمارے ملک پر مسلط رہی تو ۱۹۵۳ء کے حوادث محض چند وقتی و ہنگامی حوادث نہیں بلکہ بہت سے مزید حوادث کی تمہید ثابت ہوں گے اور یہاں جمہوریت کا چلنا سخت مشکل ہوجائے گا۔ اس ملک کو تباہ کن انقلابات سے بچانے کے لیے یہ نہایت ضروری ہے کہ یہاں کے حکام عالی مقام اگر اپنے کچھ مضبوط سیاسی و مذہبی افکار رکھتے ہیں تو نوکری چھوڑ کر سیدھی طرح سیاسیات میں داخل ہوجائیں، ورنہ پھر اس طرح نوکر ی کریں جس طرح انگلستان کے مستقل سرکاری ملازمین کرتے ہیں۔ بہرحال انہیں کسی طرح بھی یہ حق نہیں پہنچتا کہ پبلک کے ملازم ہونے کی حیثیت سے جو اختیارات ان کو دئیے گئے ہیں ان کو خود پبلک کے خلاف اپنے ذاتی افکار و تصورات کی حمایت میں استعمال کریں ۔