’’مسلم لیگ سمیت تمام سیاسی جماعتوں نے صورت حال سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ۔ کوئی سیاسی لیڈر یہ کہنے کی طاقت نہ رکھتاتھا کہ یہ مطالبات غیر معقول ہیں۔ اس کے برعکس سب نے اپنے آپ کو ایجی ٹیشن کی لہروںکے حوالے کردیا۔ ‘‘
’’فی الواقع بہت سے مسلم لیگی لیڈر خود ایجی ٹیشن میں شامل ہو رہے تھے تاکہ ہردلعزیزی حاصل کریں ۔ ‘‘
’’اس وقت کے وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کے ساتھ علما کی بار بار ملاقاتوں نے یہ احساس پیدا کردیاتھاکہ یہ مطالبات، جو کسی مہذب سلطنت میں پیش نہیں کیے جاسکتے ، کلی طور پر یاجزوی طور پر مانے جانے والے ہیں۔ ‘‘
اس سوال کے جواب میں کہ ایک اسلامی دستور کی گفتگو اور وزیراعظم تک علما کی بآسانی پہنچ کا سرکاری ملازمتوں پر کیا اثر پڑ رہاتھا۔ میاں انور علی نے فرمایاکہ ’’اس نے اونچے درجہ کے سرکاری ملازموں کے ایک بڑے طبقے کی گرم جوشی کو سرد کردیا جو دوسری تمام حیثیتوں سے محب وطن ، لائق اور وفادار تھے۔‘‘
ان شہادتوں میں اس وقت کی پولیس کے افسر اعلیٰ کی یہ ذہنیت سامنے آتی ہے کہ وہ ایک ملازم سرکار ہونے کے باوجود پبلک کی عظیم الشان اکثریت کے جانے بوجھے مطالبات کے خلاف نہایت سخت راے رکھنے والے تمام سیاسی لیڈروں کو بے ایمان سمجھتاہے اور یہ تصور تک کرنے کے لیے تیار نہیں ہے کہ کچھ لوگ ایمان داری کے ساتھ بھی ان مطالبات کے حامی ہوسکتے ہیں۔ پھر اس کا سخت نوکر شاہی ذہن یہ تک گوارا نہیں کرتاکہ ایک جمہوری حکومت کا وزیراعظم ، جمہور قوم کے مطالبات پر جمہور کے نمائندوں سے گفت و شنید کرے اور وہ آسانی کے ساتھ اس تک پہنچ سکیں۔ پھر وہ نہ صرف اپنا،بلکہ اپنے طبقے کے سرکاری ملازموں کا یہ عام مخالف مذہب رجحان ہمارے سامنے اعلانیہ بیان کرتاہے کہ اسلامی ریاست کی گفتگو ان کو یہاں تک ناگوار ہے کہ اسے سن سن کر ہی ان کاجذبہ خدمت وطن سردہوا جاتاہے۔
میاں انور علی صاحب کے تحریری بیان سے ایک دلچسپ حقیقت اور بھی ہمارے علم میں آئی ہے اور وہ یہ ہے کہ صاحب موصوف کی نگاہ میں قابل وقعت رائے ان لاکھوں، کروڑوں مسلمانوں کی نہیں ہے جن کامرنا جینا سب کچھ اسی پاکستان کے ساتھ وابستہ ہے ، بلکہ ان چند خاندانوں کی ہے جو خطرے کی پہلی علامت دیکھتے ہی کینیڈا بھاگ جانے کے لیے بستر باندھ لیتے ہیں۔