اس جماعت نے اسلام کے تبر(کلہاڑے) سے عصبیت کے ان تمام بتوں کو توڑ ڈالا جو نسل اور وطن، رنگ اور زبان وغیرہ کے نام سے موسوم ہیں اور جن کی پرستش قدیم جاہلیت سے جدید جاہلیت کے زمانہ تک دُنیا میں ہورہی ہے۔ رسول اللہ ﷺنے خود اپنے وطن مکہ کو چھوڑا اور اپنے ساتھیوں کو لے کر مدینہ کی طرف ہجرت کی۔ اس کے یہ معنی تھے کہ آپ کو اور مہاجرین کو اپنے وطن سے وہ فطری محبت نہ تھی جو انسان کو ہوا کرتی ہے۔ مکہ کو چھوڑتے وقت آپؐ نے فرمایا تھا کہ ’’اے مکہ! تو مجھ کو دُنیا میں سب سے زیادہ عزیز ہے، مگر کیا کروں کہ تیرے باشندے مجھ کو یہاں رہنے نہیں دیتے‘‘۔
حضرت بلالؓ جب مدینہ جاکر بیمار ہوئے تو مکہ کی ایک ایک چیز کو یاد کرتے تھے۔ ان کی زبان سے نکلے ہوئے یہ حسرت بھرے اشعار آج تک مشہور ہیں:
الالیت شعری ھل ابیتن لیلۃ
بفخ وحولی اذخر و جلیل
وھل اردن یوما میاہ مجنۃ
وھل تبدو الٰی شامۃ وطفیل
مگر اس کے باوجود حُب ِوطن{ رسول اللہ ﷺپر یہ بہتان گھڑا گیا ہے کہ آپؐ نے فرمایا: حب الوطن من الایمان، حالانکہ ایسی کوئی صحیح حدیث آپؐ سے ماثور نہیں ہے۔
نے ان بزرگوں کو اسلام کی خاطر ہجرت کرنے سے باز نہ رکھا۔