سوال
اگر مکھی کسی پینے کی چیز میں گر جائے تو اُسے غوطہ دے کر نکالو، کیوں کہ اُس کے ایک پر میں بیماری ہوتی ہے اور دوسرے میں شفا۔ مہربانی کرکے اس حدیث کی تشریح کیجیے۔
جواب
اس مضمون کی روایات[صحیح] بخاری نے کتاب بدء الخلق({ FR 2029 }) اور کتاب الطب میں نقل کی ہیں ۔ نیز ابن ماجہ، نسائی،ابو دائود اور دار قطنی میں بھی یہ موجود ہیں ۔بعض شارحین نے اس حدیث کے الفاظ کو ٹھیک ان کے لغوی معنی میں لیا ہے اور اس کا مطلب یہ سمجھا ہے کہ فی الواقع مکھی کے ایک پر میں زہر اور دوسرے میں اس کا تریاق پایا جاتا ہے،اس لیے جب یہ کسی کھانے پینے کی چیز میں گر جائے تو اسے ڈبو کر نکالا جائے۔({ FR 1796 }) اور بعض نے اس کا مطلب یہ لیا ہے کہ نبیﷺ دراصل اس بے جا غرور کا علاج کرنا چاہتے تھے جس کی بنا پر بعض لوگ دودھ کے اس پیالے یا سالن کی اُس پوری رکابی سے ہاتھ اُٹھا لیتے ہیں جس میں مکھی گری ہو، اور پھریا تو اُسے پھینک دیتے ہیں ،یا اپنے خادموں کو کھانے کے لیے دے دیتے ہیں ۔اس طرح کے لوگوں کا غرور توڑ نے کے لیے آپﷺ نے فرمایا کہ مکھی اگر تمھارے کھانے میں گر جائے تو اُسے ڈبو کر نکالو اور پھر اس کھانے کو کھائو۔اس کے ایک پر میں بیماری ہے، یعنی کبر وغرور کی بیماری جو اُسے دیکھ کر تمھارے نفس میں پیدا ہوتی ہے، اور دوسرے پر میں اس کا تریاق،یعنی اس کبرو غرور کا علاج جس کی وجہ سے تم ایسے کھانے کو پھینک دیتے ہو یا اپنے خادموں کو کھلاتے ہو۔ اس معنی کی تائید وہ احادیث بھی کرتی ہیں جن میں نبی ﷺ نے برتن میں تھوڑا سا کھانا چھوڑ کر اُٹھ جانے کو ناپسند فرمایا ہے اور حکم دیا ہے کہ اپنی رکابی کو صاف کرکے اُٹھو۔اس حکم کی وجہ بھی یہی ہے کہ جو شخص اس طرح برتن میں کچھ چھوڑ کر اُٹھتا ہے،وہ گویا یہ چاہتا ہے کہ یا تو اس بقیہ کھانے کو پھینک دیا جائے یا اُسے کوئی دوسرا کھائے۔
(ترجمان القرآن، اکتوبر ونومبر۱۹۵۲ء)