مورخہ ۲۷فروری اور ۵ مارچ ۱۹۵۳ء جو فرد جرم زیر مارشل لا ضابطہ نمبر۸ بشمول دفعہ ۱۲۴/الف کا موجب بنے ۔
پہلا بیان تاریخ ۲۷فروری ۱۹۵۳ء
حکومت پاکستان کراچی میں مجلس عمل کے چند رہنمائوں کو اور دوسرے بے شمار افراد کو گرفتار کرکے پھر ایک مرتبہ اس امر کا ثبوت بہم پہنچایا ہے کہ ہماری حکومت اس وقت ایسے لوگوں کے ہاتھ میں ہے جو عقل و تدبیر سے محروم ہیں۔ پچھلے جنوری میں طلبہ پر تشدد کیاگیا تھا، اس وقت بھی میں نے ان لوگوں کی بے تدبیری کا ماتم کیاتھا اور آج پھر ا س کا ماتم کررہا ہوں ، کیا اس حکومت میں اب ایک آدمی بھی ایسا نہیں رہا جو ایک تھانے دار کی سطح سے زیادہ بلند سطح پر سوچ سکے ؟ آخر ان لوگوں کو کیسے سمجھایا جائے کہ ایک جمہوری نظام میں عوام کے جائز اور مقبول اور معقول مطالبات کو ڈنڈے کے زور سے دبانے کی کوششیں حکومت کو غیرمقبول ، اور عوامی تائید سے محروم تو کرسکتی ہیں مگر اس کے مطالبات کو زیادہ دیر تک روک نہیں سکتیں۔
صحیح طریقہ کار :
جو لوگ عوام کے نمائندے بن کر حکومت کررہے ہوں ان کے لیے صحیح طریق کار یہ ہے کہ یا تو ایک قومی مطالبے کا جواب معقول دلیل سے دے کر قوم کو مطمئن کردیں کہ اس کامطالبہ صحیح نہیں ہے ، یا اس کو سیدھی طرح تسلیم کرلیں یا میدان سے ہٹ جائیں۔ حکومت پاکستان نے ان تینوں صورتوں میں سے کوئی صورت اختیار نہیں کی اور اب اس مطالبہ کو جو قوم کے سواد اعظم کی طرف سے پیش کیاگیاہے ، قوت سے دبانے پر تل گئی ہے۔ اس احمقانہ زیادتی کا انجام یہ تو نہ ہوگا کہ قومی مطالبہ پورا نہ ہو۔ البتہ اس کاانجام صرف یہی ہوگا کہ ایسی چند حرکتیں کرکے یہ لوگ اپنی پبلک لائف کو ہمیشہ کے لیے ختم کرلیں گے اور انہیں قوم میں منہ دکھانے تک کی جگہ نہ رہے گی ۔
مجھے ان تازہ گرفتاریوں سے بھی بڑھ کر اس پریس نوٹ پر افسوس ہواہے جو اس اقدام کو جائز ثابت کرنے کے لیے حکومت کی طرف سے شائع کیاگیا ہے۔ میرے نزدیک یہ بالکل ایک شرمناک پریس نوٹ ہے ، جس کی کسی معقول حکومت سے توقع نہیں کی جا سکتی۔ اس میں یہ صریح غلط بیانی کی گئی ہے کہ اس مطالبہ کو محض قوم کے چند عناصر کی تائید حاصل ہے۔ اسی لاہور میں ابھی چند روز پہلے جو ہڑتال ہوئی تھی ، کیا وہ چند عناصر کی تائید کا مظاہرہ تھا؟ یا پوری قوم کی تائید کا ثبوت تھا؟ لاہور کے لاکھوں آدمی جو اس مظاہرے کو دیکھ چکے ہیں، ان کی نگاہ میں اس جھوٹ سے حکومت کی آخر کیا وقعت باقی رہ جائے گی ؟ پھر اس سے بھی زیادہ عجیب اخلاقی جسارت اس میں یہ دکھائی گئی ہے کہ احرار کو اس سارے ایجی ٹیشن کا ذمہ دار قرار دینے کے بعد ان کے سابق کانگریسی تعلق کا ذکر کیاگیاہے۔ اور یہ فرمایاگیاہے کہ یہ لوگ پہلے بھی پاکستان کے مخالف تھے اور آج بھی ہیں۔ میں پوچھتاہوں کہ کل ہی احرار جب پنجاب اور بہاول پور کے انتخابات میں مسلم لیگ کے ہمنوا تھے اور آپ لوگوں کی کامیابی کے لیے ایڑی چوٹی کازور لگا رہے تھے۔ اس وقت ان کی پوزیشن کیاتھی ؟ یہ آخر کیا اخلاق ہے اور کس قدر گھٹیا درجہ کی ذہنیت ہے کہ آج ایک شخص آپ کا ساتھ دیتاہے تو وہ پاکستان کا پکا خیر خواہ اور اس کا ماضی و حال سب آپ کی نگاہ میں شان دار ہے اور کل وہی شخص آپ کی پالیسی سے اختلاف کرتاہے تو وہ پاکستان کابدخواہ اور دشمنوں کا ایجنٹ اور اس کا ماضی و حال دونوں تاریک ۔ یہ باتیں کرکے عوام کو دھوکا تو نہیں دیا جاسکتا البتہ اپنی رہی سہی وقعت ضرور کھوئی جاسکتی ہے۔ پھر میں پوچھتاہوں کہ احرار تو پاکستان کے مخالف ٹھہرے مگر علامہ اقبال کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے ۔ جنھوںنے سب سے پہلے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا مطالبہ کیاتھا۔
میں حکومت کو آگاہ کرتاہوں کہ قادیانیوں کو جداگانہ اقلیت بنانے کامطالبہ تمام مسلمانوں کا متفقہ مطالبہ ہے اور ایک مٹھی بھر اقلیت کے سوا اس کو سب کی تائید حاصل ہے۔ اس مطالبہ کو منوانے کے طریقوں میں ہمارے درمیان اختلاف ہوسکتاہے ۔ مگر بجائے خود اس مطالبہ میں قطعاً کسی اختلاف کی گنجائش نہیں ہے اور اسے بہرحال حکومت کو ماننا ہی پڑے گا۔ اس کو تشدد سے دبانے کی کوشش ہرگز کامیاب نہیں ہونے دی جائے گی۔
دوسرا بیان بتاریخ ۵ مارچ ۱۹۵۳ء
جب سے پنجاب میںصورت حال بگڑنی شروع ہوئی ہے میںمسلسل اس امرکی کوشش کرتارہاہوںکہ کسی طرح یہ آگ بڑھتے بڑھتے خانہ سوز نہ بن جائے ۔اس سلسلے میں میری آخری کوششیںیہ تھیںکہ مولانامفتی محمدحسن صاحب اورمولانادائودغزنوی صاحب کے مشورے سے میںنے وزیراعظم پاکستان کوتاردیاکہ پنجاب کے حالات خطرناک حدتک نازک ہوچکے ہیں۔کیااس مسئلے پرگفت وشنیدکاکوئی امکان ہے؟فوراًتارکے ذریعے سے جواب دیجیے۔لیکن اس کاکوئی جواب نہ دیاگیا ۔مارچ کی صبح کومیںنے پھران کوتاردیاکہ حالات ہرہرگھنٹے خراب سے خراب ترہوتے جارہے ہیں،جلدی جواب دیجیے۔ لیکن اس کابھی کوئی جواب نہیںملا۔پھرآج ۵/مارچ کوگورنمنٹ ہائوس میںگورنرصاحب نے سیاسی پارٹیوںکے لیڈرزاورشہرکے عمائدین کی ایک کانفرنس کی جس میںمجھ کومدعوکیاگیا۔چنانچہ میںاس امیدپرہی وہاںگیاکہ اس آگ کوبجھانے کے لیے خدمت انجام دے سکوں۔میںنے صورت حال کوپوری وضاحت کے ساتھ بیان کرنے کے بعدیہ تجویزپیش کی کہ ایک طرف ان تمام اسباب کاخاتمہ کیاجائے جن سے اپنی ہی قوم کی پولیس اورفوج‘اپنی ہی قوم کے خلاف استعمال ہورہی ہے۔ اوردوسری طرف عوام کے مطالبات پرگفتگوکی جائے اوردلیل کی طاقت سے عوام کی بات مانی جائے یاپھردلیل ہی کی طاقت سے عوام کوقائل کیاجائے۔میری اس بات کووہاںبالکل صحیح اورمعقول تسلیم کیاگیا۔لیکن ابھی ابھی گورنمنٹ کی طرف سے جواپیل میںنے ریڈیوپرسنی ہے اس پرمیںحیران رہ گیاکہ عوام کے مطالبات پرغورکرنے کاذکراس میںنہیںہے اورمحض امن کے وعظ پربات ختم کردی گئی ہے۔اوروہ بھی اس اندازسے کہ اس سارے معاملے میںقصورساراکاساراعوام ہی کاہے اور گورنمنٹ کادامن ہرغلطی سے پاک ہے۔ میں نہیں سمجھتاکہ اس حالت میںجب کہ پنجاب کابہت بڑاحصہ ایک آتش فشاںکی شکل اختیارکرچکاہے، ان باتوںسے کیافائدہ حاصل کیا جاسکتاہے۔