برسراقتدار طبقہ کے مغرب زدہ افراد کی نظروں میں مولاناسیدابوالاعلیٰ مودودی ؒ کا سب سے بڑا جرم یہی ہے کہ وہ اس ملک میں اسلامی نظام کے حامی اور اس کے لیے عملاً سرگرم ہیں۔ مولانا مودودیؒ ہی نے پاکستان میں سب سے پہلے اسلامی حکومت کی آواز بلند کی اور باشندگان ملک کو اسلامی دستور کے لیے متحد ومنظم کیا۔ ان ہی نے عوام کے اسلامی جذبات کو مشہور نو نکاتی مطالبے کی صورت میں سمیٹ کر مجلسِ دستور ساز کے سامنے رکھا جس کے نتیجہ میں قوم کی عظیم اکثریت نے پورے ملک میں اسلامی دستورکے لیے کامیاب ترین مہم چلائی اور مجلس دستور ساز کو مجبور کردیاکہ ۱۹۵۲ء کے اندر دستور ی سفارشات کے بارے میں بنیادی اصولوں کی کمیٹی کی رپورٹ پیش کردے ۔ پھر ہر چند کہ یہ تازہ دستوری تجاویز اسلامی نقطۂ نظر سے خام اور تشنہ ہیں مگر اسلامی نظام کے مخالف اور لادینی طرز حکومت کے حامی افراد کے لیے یہ تجاویز اس لیے قابلِ برداشت نہیںکہ ان کے ذریعہ سے پاکستان میں اسلام کے آنے کا ’’خطرہ ‘‘ بڑھتاجارہاہے اور اس میں ان کو اپنامستقبل تاریک نظر آتا ہے۔ اس قلیل التعداد مگر طاقتور اور ذی اقتدار گروہ کو اپنی مغرب زدگی اور فرنگیت مابی میں اصل خطرہ تو اسلامی شریعت سے ہے جو ان کی فاسقانہ زندگی پر یقیناً قیود عائد کرے گی ۔ لیکن یہ طبقہ بجائے کھل کر سامنے آنے کے’’ ملائیت‘‘’’رجعت پسندی ‘‘ اور’’مذہبی تنگ نظری ‘‘ کا نام لے کر اسلام اور اسلام پسند عناصر کے خلاف زہر اگلا کرتاہے اور ان کے پڑھے لکھے طبقہ کو اسلامی تعلیمات کے بارے میں شکوک و تذبذب رکھے اور علمائ و دینی اداروں اور اسلامی جماعتوں کے خلاف لوگوں کو طرح طرح سے بھڑکائے۔ چنانچہ اس گروہ کی طرف سے گذشتہ چھ سال کے عرصہ میں جہادکشمیر کو حرام ٹھہرانے ، فو ج میں بھرتی روکنے ، انڈونیشیا کی دارالسلام پارٹی سے گٹھ جوڑ کرنے اور بیرونی طاقتوں سے امداد حاصل کرنے کے انتہائی گھنائونے الزامات پے درپے جماعت اسلامی پر لگائے گئے ہیں۔ اگر ان میں سے کسی ایک الزام میں کچھ بھی صداقت ہوتی تو کیا آج اس جماعت کے کارکن پھانسیوں پر لٹکنے ، جلا وطن کیے جانے اور کوٹھڑیوں میں بند ہونے سے بچے رہ سکتے تھے ؟ آج تک ان میں سے کوئی ایک الزام بھی دلائل و شواہد سے ثابت نہیں کیاجاسکا ہے اور نہ قانونی طور پر ہی اس قسم کی تخریبی کارروائیوں کے لیے جماعت اسلامی کبھی مجرم گردانی گئی ہے۔ اس جماعت کے کثیر کارکنوں کو جب بھی پکڑا گیاہے ۔ سیفٹی ایکٹ کے ماتحت ہی نظر بند کیاگیاہے جو ان کی بے گناہی اور بے قصوری پر خود دلالت کرتاہے ۔ اور آج بھی پنجاب کے مختلف اضلاع میں مطالبہ تحریک تحفظ ختم نبوت کے شاخسانہ میں ، جماعت اسلامی کے تقریباً پچاس کارکن اسی کالے قانون کے تحت اپنے جرم بے گناہی کی سزا پا رہے ہیں ۔ البتہ امیرجماعت اسلامی پاکستان سیدمولاناابوالاعلیٰ مودودی پر مقدمہ چلا کر جماعت کی سرگرمیوں پر پہلی بار ’’قانونی چارہ جوئی ‘‘ کی گئی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کاموقع عام حالات میں نہیں بلکہ لاہور میں مارشل لا کے زمانہ میں مجرد عام قوانین ملک کے تحت نہیں بلکہ مارشل لا حکام کے قوانین کے ساتھ اور پھر ملک کی کسی سول عدالت میں نہیں بلکہ ایک فوجی عدالت میں پیش آیا۔
یہاں اس مقدمہ پر فی نفسہٖ کوئی تبصرہ مقصود نہیں ،بلکہ چند ایسے امور پبلک کے سامنے پیش کرنامقصود ہیں جن پر ہر سوچنے سمجھنے والے دماغ اور ملک کے مسائل سے دلچسپی رکھنے والے ہر شخص کا غور کرنا ضروری بھی ہے اور مفید بھی ۔
جماعت اسلامی کے امیر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی ملک کی ایک باضابطہ اور آئینی جماعت کے رہنما ہیں۔ برسراقتدار پارٹی سے ان کے اختلافات اصولی اور بنیادی ہیں۔ ان کی سیاسی جدوجہد نہ صرف آئینی ہے بلکہ اسلامی واخلاقی حدود کی بھی پابند ہے۔ اگر کبھی ان کی سرگرمیاں حدود سے متجاوز اور ملک و قوم کے لیے باعث تخریب نظر آئیں تو ملک کی عام عدالتیں اور قوانین ان کو روکنے اور ان پر قدغن لگانے کے لیے ہر وقت موجود ہیں۔ سیاسی نیک نامی اور قومی آبر و مندی کا تقاضا یہ ہے کہ سیاسی اختلافات رکھنے والے افراد اور جماعتوں پر جب کبھی بھی ہاتھ ڈالا جائے تو ان پر کھلم کھلا الزام لگایا جائے اور صفائی کا پورا پورا موقع دے کر کھلی عدالتوں میں عام ملکی قوانین کے تحت ان کے خلاف چارہ جوئی کی جائے۔ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ باشندگان ملک کو واقعات سے پوری طرح باخبر رکھا جائے تاکہ عوام الزامات کی نوعیت ،استغاثہ کے واقعات، صفائی کی شہادتوں اور فیصلہ کے دلائل دیکھ کر خود بھی کوئی رائے قائم کرسکیں اور کسی کے دل میں یہ کھٹک نہ رہ جائے کہ انصاف کا حق ادا نہیں ہوا یا اس شبہ کی گنجائش نہ ہو کہ قانون کی طاقت کو سیاسی اختلافات کابدلہ لینے کے لیے استعمال کیاجارہاہے۔