سوال
یہاں لندن میں ایک مسلمان طالب علم ایک جرمن لڑکی سے شادی کرنا چاہتے تھے۔وہ مسلمان بننے پر آمادہ نہ ہوئی۔ لہٰذا میں نے شادی رکوانے کی کوشش کی۔صاحب زادے کو سمجھایا کہ وہ کیوں کر برداشت کرے گا کہ اس کے گھر میں سور کا گوشت کھایا جائے اور شراب پی جائے۔ لڑکی غیر مسلم ہوئی تو ہمارے محرمات کا خیال نہیں کرے گی اور گھر بربادہوجائے گا۔لڑکے کی سمجھ میں بات آگئی اور وہ کچھ متذبذب ہو گیا۔ انھی دنوں اسلامک سنٹر کے مصری ڈائرکٹر سے ملاقات ہوئی۔ ان صاحب نے ڈاکٹر آ ر بری کے ساتھ مل کر ایک کتاب شائع کرائی ہے اور اب جامعۂ ازہر کے کلیۂشریعہ کے صدر ہوکرواپس مصر گئے ہیں ۔ انھوں نے اس لڑکے سے کہاکہ اگر اس کی بیوی عیسائی رہتی ہے تو اسے کوئی حق نہیں کہ لڑکی کو شراب،سور وغیرہ سے روکے۔جو چیز اس کے مذہب میں جائز ہے،اسے کرنے کی اسلام نے اسے آزادی دی ہے۔مسلمان شوہر مداخلت کرکے گناہ گار ہوگا۔ کیا یہ راے درست ہے؟ کیا آں حضورﷺ کے معاہدۂ نجران سے یہ استنباط نہیں کیا جاسکتا کہ کسی مسلمان کی اہل کتاب بیو ی کو اسلام کے متعین کردہ کبائر کی اجازت نہیں ؟
جواب
اہل کتاب کی جن عورتوں سے مسلمانوں کونکاح کی اجازت دی گئی ہے،ان کے بارے میں قرآن مجید دو شرطیں لگاتا ہے۔ ایک یہ کہ وہ محصنات(پاک دامن) ہوں ، دوسرے یہ کہ ان سے نکاح کرکے ایک مسلمان خود اپنے ایمان کو خطرے میں نہ ڈال بیٹھے(ملاحظہ ہو سورۂ المائدہ،آیت نمبر5)۔ ان شرائط کی رو سے فاسق وفاجر کتابیات کے ساتھ شادی جائز نہیں ہے، اور یہ دیکھنا ایک مسلمان کا فرض ہے کہ جس عورت سے وہ شادی کررہا ہے،وہ اس کے گھر میں ، اس کے خاندان میں ،اور اس کے بچوں میں ایسے افعال رائج کرنے کی موجب نہ بنے جو اسلام میں حرام ہیں ۔بلاشبہہ وہ اسے ترک مذہب پر مجبور نہیں کرسکتا۔اس کو چرچ جانے سے نہیں روک سکتا۔مگر اسے شادی سے پہلے ہی یہ شرط طے کرلینی چاہیے کہ وہ اس کی زوجیت میں آنے کے بعد شراب، سور کے گوشت اور دوسری حرام چیزوں سے اجتناب کرے گی۔ ایسی شرط پہلے ہی طے کرلینے کا اسے حق بھی ہے اور ایسا کرنا اس کا فرض بھی ہے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ دین کے معاملے میں سخت تساہل کرنے والا آدمی ہے۔اس کے بعد اگر اس کی اپنی اولاد ان حرام افعال میں مبتلا ہو(اور ظاہر ہے کہ اولاد کا ماں سے متاثر نہ ہونا متوقع نہیں ہو سکتا) تو اس کی ذمہ داری میں وہ بھی شریک ہو گا۔ (ترجمان القرآن ،جولائی ۱۹۶۲ء)